پاکستان کی لے پالک اولاد

پاکستان کی لے پالک اولاد

پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں مرتے ہیں مگر اسے اپنا گھر نہیں کہہ سکتے— یہ ایک نہیں لاکھوں افغانیوں کی کہانی ہے۔

’جیل سے بھی بدتر‘، پاکستان میں دستاویزات کے بغیر مقیم افغان باشندے روپوش

انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے دستاویزات کے بغیر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہزاروں افغان باشندے روپوش ہوگئے ہیں کیونکہ وہ اپنے آبائی ملک میں طالبان انتظامیہ کے تحت ظلم و ستم کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

غیرملکی خبرایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق نامعلوم مقام سے 23 سالہ افغان خاتون نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا دروازہ باہر سے بند ہے، ہم اندر قید ہیں، ہم لائٹس نہیں جلا سکتے یہاں تک کہ ہم زور سے بات تک نہیں کر سکتے‘۔

روپوش دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ مقامی حامیوں نے پڑوسیوں کو گھر کے خالی ہونے کا یقین دلانے کے لیے دروازے پر تالا لگا دیا ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والی خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس لوٹ گئیں تو ان پر طالبان انتظامیہ کی جانب سے مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ 2019 میں انہوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسلامی عقیدے کو ترک کرنا طالبان کے سخت قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا ماننا ہے کہ یہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان میں روپوش ہوگئے ہیں تاکہ وہ حکومت کی جانب سے غیر دستاویزی مہاجروں کو ملک چھوڑنے کے دباؤ کے تحت بے دخلی سے بچ جائیں۔

انتظامیہ نے یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد ملک گیر کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

کراچی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن 30 سالہ سجل شفیق حکومت کی اس پالیسی سے قبل کئیکمزور افغان شہریوں کو رہائش کی تلاش میں مدد کی ہے، وہ سپریم کورٹ سے ملک بدری کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کرنے والے دیگر درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔

سجل شفیق کا کہنا تھا کہ ’میں ان ہزاروں لڑکیوں کو جانتی ہوں جو کہتی ہیں کہ وہ طالبان کی حکومت کے ماتحت رہنے کے بجائے مرنا پسند کریں گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سب کے کچھ خواب اور عزائم ہیں جو افغانستان میں پورے ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں عورتوں کو زیادہ تر کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور وہ مرد محافظ کے ساتھ ہی سفر کر سکتی ہیں۔

طالبان انتظامیہ کے ترجمان کی جانب سے اب تک اس پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا کہ واپس لوٹنے والوں کی اسکریننگ کی جائے گی یا ان کے قوانین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ کی جانب سے بھی خطرے سے دوچار افراد کو ملک بدری کے عمل سے چھوٹ دینے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

حکومت نے اب تک اقوام متحدہ، مغربی سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے ملک بدری کے منصوبے پر نظر ثانی یا ان افغانوں کی شناخت اور حفاظت کرنے جنہیں گھر پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کے مطالبے کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔

امریکا سمیت دیگر مغربی سفارت کاروں نے انتظامیہ کو ان لوگوں کی فہرست بھی فراہم کردی ہے جن کی ممکنہ طور پر بیرون ملک منتقلی کے لیے کارروائی کی جارہی ہے اور کہا ہے کہ ان کو ملک سے بے دخل نہ کیا جائے مگر ان لوگوں کی تعداد خطرے سے دو چارافراد کے مقابلے میں کم ہے۔

جیل سے بھی بدتر

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ملک گیر کارروائی سے بچنے کے لیے روپوش ہونے والے کئی غیر دستاویزی تارکین وطن سے بات کی تاہم انہوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر شناخت ظاہر کرنے یا نام استعمال کرنے سے منع کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق ان افراد میں 35 سالہ عیسائی مذہب قبول کرنے والا باپ بھی شامل ہے، جو اپنی 9 سالہ بیٹی کے ساتھ فرار ہو کر پاکستان آگیا تھا۔

پناہ گاہ میں موجود ایک جوان لڑکی کا کہنا تھا کہ ان کو اپنی زندگی کے حوالے سے خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جن کو کئی برسوں تک افغانستان میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

رات کے وقت لائٹس کی بندش یقینی بنانے والے 22 سالہ افغان لڑکے کا کہنا تھا کہ’یہ جیل سے بھی بد تر ہے’۔

چند مقامی جو افغان شہریوں کی مدد کر رہے ہیں، کھانے اور پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر ضروری سامان پناہ گاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔

افغان گلوکار 28 سالہ وفا پاکستان میں اپنے پناہ کے دن ختم ہونے سے خوفزدہ ہیں، جہاں وہ دو سال پہلے طالبان کے قبضے کے بعد منتقل ہوگئی تھیں کیونکہ ان کا ویزا ختم ہوگیا ہے۔

اسلام آباد میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے فرانس یا کینیڈا میں پناہ مل جائے یا وہ پاکستان کو ہی اپنا گھر بنالیں کیونکہ انہوں نے 11 سال پہلے پشتو گلوکاری شروع کی تھی اور وہ اب افغانستان میں قابل قبول نہیں اور طالبان نے عوام میں موسیقی کی پرفارمنس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انہیں تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے اور ان کے ویزے کی مدت بڑھانے کے لیے ان کے گھر والوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، اسی دوران وہ گھر سے نکلنے سے پرہیز کر رہی ہیں تاکہ وہ پاکستان پولیس کی اسنیپ چیکنگ سے بچ سکیں۔

وفا کا کہنا تھا کہ ’میں ایک گلوکارہ ہوں، مجھے پتا ہے واپس جانے پر میرے ساتھ کیا ہوگا۔‘

کراچی کے 32 سالہ گلوکار صالح زادہ نے بتایا کہ وہ ایک سال قبل افغانستان سے یہاں منتقل ہوئے تھے۔

صالح زادہ اپنے رشتہ داروں کے ایک اپارٹمنٹ میں موجود ہیں جہاں انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں گاؤں میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے گانا گاتا تھا، ہم بہت پارٹی اور گلوکاری کی محفلیں کرتے ہیں۔

انہوں نے رائٹرز کو اپنے ہارمونیم اور رباب بجاتے ہوئے ویڈیو کلپس دکھائیں، جن میں سے متعدد سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان نے مجھے افغانستان چھوڑنے کا مشورہ دیا، میں طالبان سے ڈرتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی پولیس کے ہاتھوں درست ویزا نہ ہونے کی وجہ سے پکڑے جانے کے خوف نے انہیں کئی دنوں تک گھر کے اندر محصور کر دیا ہے۔

صالح زادہ نے کہا کہ پاکستان میں زندگی مشکل ہے مگر مجھے اپنی جان بچانی ہے۔

کابل: دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی، ہزارہ برادری کی خواتین کا ’نسل کشی‘ کےخلاف احتجاج

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کابل کے ایک کلاس روم پر خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والی کی تعداد 35 ہوگئی ہے جب کہ اس حملے میں نشانہ بنائی گئی شیعہ ہزارہ خواتین نے اپنی برادری کی ’نسل کشی‘ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جمعہ کے روز خودکش حملہ آور نے کاج ہائر ایجوکیشنل سینٹر کے خواتین کے لیے مختص سیکشن میں خود کو دھماکے سے اس وقت اڑا لیا تھا جب شہر کے علاقے دشت برچی میں سیکڑوں طلبہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان دے رہے تھے۔

کسی گروپ نے حالیہ مہلک حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، البتہ عسکریت پسند گروپ ’داعش‘ اس سے قبل اس علاقے میں لڑکیوں، اسکولوں اور مساجد کو نشانہ بنانے کے حملوں کا دعویٰ کرچکا ہے، افغانستان میں شیعہ ہزارہ برادری کی بڑی تعداد موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل خود کش دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی

حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ مہلک حملہ طالبان کی افغان عوام کے تحفظ میں ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ حملے میں جاں بحق شہریوں کی تازہ ترین تعداد کم از کم 35 تک پہنچ گئی ہے جب کہ مزید 82 افراد زخمی بھی ہیں۔

گزشتہ اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان کے لیے سیکیورٹی حساس معاملہ رہا ہے اور سخت گیر حکمراں اپنی حکومت کو چیلنج کرنے والے حملوں کو کم سے کم نقصان دہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے رہے ہیں۔

ہفتے کے روز درجنوں ہزارہ خواتین نے اپنی برادری پر تازہ ترین مہلک حملے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے احتجاجی ریلیوں کے انعقاد پر عائد پابندیوں کو مسترد کردیا۔

اس موقع پر 50 کے قریب خواتین نے دشت برچی کے اس ہسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے جہاں حملے کے متعدد متاثرین زیر علاج تھے نعرے لگائے کہ 'ہزارہ برادری کی نسل کشی بند کرو، شیعہ ہونا جرم نہیں'۔

سیاہ چادروں اور سر پر اسکارف میں ملبوس مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو مارنا بند کرو۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل میں تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ، 19 افراد جاں بحق

عینی شاہدین نے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے خواتین کے لیے مختص اسٹڈی ہال میں دھماکا کیا، مظاہرے میں شریک 19 سالہ فرزانہ احمدی نے کہا کہ کل کا حملہ ہزارہ برادری اور خاص طور پر ہزارہ لڑکیوں کے خلاف تھا، ’ہم اس نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم نے اپنے حقوق کے مطالبے کے لیے احتجاج کیا۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ جمعے کے روز ہونے والا حملہ افغانستان کے عوام کے تحفظ میں طالبان کی واضح نااہلی اور مکمل ناکامی کی شرمناک مثال ہے۔

ہزارہ برادری کو کافی عرصے سے افغانستان میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے قبل بھی دشت برچی ہی واقع ہزارہ برادری کے اسکول کے قریب تین بم پھٹنے سے کم از کم 85 افراد ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

اس وقت بھی کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن ایک سال قبل داعش نے اس علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

داعش گروپ طالبان کے لیے اہم سیکیورٹی چیلنج کے طور پر ابھرا ہے لیکن حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی فورسز نے جہادیوں کو شکست دے دی ہے۔

افغانستان: نماز جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکا، 33 افراد جاں بحق، 43 زخمی

طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے دھماکے میں 33 افراد جاں بحق اور 43 زخمی ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق گزشتہ روز بھی افغانستان میں دو دھماکے ہوئے تھے جس کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جب طالبان جنگجوؤں نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد گزشتہ سال افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، تب سے ملک میں بم دھماکوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن جہادی گروپس اور سنی مسلک کی پیروکار آئی ایس نے ان اہداف کے خلاف حملے جاری رکھے ہیں جنہیں وہ اپنے مذہبی عقائد کے خلاف سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: مزارِ شریف اور قندوز میں دھماکے، 14 افراد جاں بحق

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ شمالی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں بچوں سمیت 33 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس جرم کی مذمت کرتے ہیں اور سوگواروں سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔'

سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ پوسٹ کی گئی تصاویر میں قندوز شہر کے شمال میں واقع صوفیوں کے حوالے سے مشہور مولوی سکندر مسجد کی دیواروں میں سوراخ دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغان دارالحکومت کے اسکول میں دھماکا، 6 افراد ہلاک

مسجد کے قریب ایک دکان کے مالک محمد اصاح کا کہنا تھا کہ مسجد کا منظر خوف ناک تھا، مسجد کے اندر موجود تمام عبادت گزار یا تو زخمی تھے یا جاں بحق ہوگئے۔

قریبی ضلعی ہسپتال کی ایک نرس نے فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے سے 30 سے 40 کے درمیان زخمیوں کو داخل کرایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی افغانستان کے دو شہروں مزار شریف اور قندوز میں الگ الگ بم دھماکوں میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: ننگرہار میں دھماکے سے 9 بچے جاں بحق

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز ' کے مطابق دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں مزار شریف کی ایک مسجد میں نشانہ بننے والے 10 افراد بھی شامل تھے۔

افغان صوبے بلخ کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ ذبیح اللہ نورانی نے اے ای ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 25 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا تھا کہ دھماکوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے ہیں.

اس کے علاوہ، قندوز شہر میں ہونے والے ایک دھماکے میں کم از کم 4 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے تھے۔

قبل ازیں جمعے کو طالبان حکام نے کہا تھا کہ انھوں نے مزار شریف کی مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کے آئی ایس کے ذمے دار ’ماسٹر مائنڈ‘ کو گرفتار کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: دشت برچی میں دھماکے سے 2 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

خیال رہے کہ 3 روز قبل کابل میں لڑکوں کے اسکول میں ہونے والے دوہرے دھماکوں میں 6 افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

ملک کی 3 کروڑ 8 لاکھ آبادی میں سے 10 سے 20 فیصد کے درمیان تعداد رکھنے والی افغانستان کی شیعہ ہزارہ برادری طویل عرصے سے حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے، شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں سے کچھ کا الزام طالبان پر اور کچھ کا داعش پر لگایا جاتا ہے۔

طالبان حکام اصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے آئی ایس کو شکست دے دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ ملک کی سیکیورٹی کے لیے اب بھی ایک اہم چیلنج ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: ننگرہار کی مسجد میں دھماکا، 3 افراد جاں بحق

اس دہشت گرد گروپ نے حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں ہونے والے کچھ ہلاکت خیز ترین حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں کابل کے دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں میں کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ طالبات تھیں، دھماکوں میں 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی، تاہم، اکتوبر 2020 میں آئی ایس نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا اعتراف کیا تھا جس میں طلبا سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مئی 2020 میں اس گروپ پر اسی محلے کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا، حملے میں خواتین مریضوں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستان کا افغانستان میں دہشت گرد حملوں پر اظہار مذمت

پاکستان نے گزشتہ چند دنوں کے دوران افغانستان کے مختلف حصوں میں حالیہ دہشت گردی کےہ حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے اور افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے حصول کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعاون کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام دہشت گردی کے ان حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام دکھ کی اس گھڑی میں اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

افغانستان میں پاکستان کی کارروائی کی اطلاعات کا 'جائزہ' لے رہے ہیں، دفتر خارجہ

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ مشرقی افغان صوبوں کنڑ اور خوست میں پاکستانی فورسز کی 'مبینہ کارروائی' سے متعلق اطلاعات کا جائزہ لے رہا ہے۔

دفتر خارجہ نے یہ بیان افغان حکومت کے ایک اہلکار اور صوبہ کنڑ کے ایک شہری کے ان دعووں پر رد عمل دیتے ہوئے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فورسز نے آج علی الصبح راکٹ فائر کیے جس سے 6 افراد ہلاک ہو گئے۔

صوبائی ڈائریکٹر انفارمیشن نجیب اللہ حسن ابدال نے الزام لگایا تھا کہ واقع میں 5 بچے اور ایک خاتون ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا ہے۔

ضلع شیلٹن جہاں مبینہ طور پر یہ حملہ ہوا، کے شہری احسان اللہ نے کہا کہ یہ پاکستانی فوجی طیارے نے کیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاک-افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ، افغان ناظم الامور سے احتجاج

افغان حکومت کے ایک اور اہلکار نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کی سرحد کے قریب افغانستان کے صوبہ خوست میں صبح سے پہلے بمباری کی گئی۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الزام لگایا کہ پاکستانی ہیلی کاپٹروں نے خوست میں 4 دیہاتوں پر بمباری کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔

خوست سے تعلق رکھنے والے ایک افغان قبائلی رہنما گل مرخان نے بھی خوست میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے اے ایف پی سے بات کی۔

کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے تاحال افغان فریق کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بھی اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں:وزیرستان میں آئی ای ڈی دھماکا، 2 فوجی جوان شہید

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی مبینہ حملوں کی مذمت کی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ 'آئی ای اے (اسلامی امارت افغانستان) پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسے معاملات پر افغانوں کے صبر کا امتحان نہ لیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کرنا چاہیے'۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا اور رپورٹ شدہ واقعے کو 'انتہائی افسوس ناک' قرار دیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 'مبینہ متاثرین شمالی وزیرستان کے اندرونی طور پر بےگھر ہونے والے افراد تھے جو آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے قبل افغانستان چلے گئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: دہشت گردوں کے حملے میں کیپٹن شہید، 2 جوان زخمی

ایم این اے محسن داوڑ نے کہا کہ 'کل رات، پاک فوج اور فضائیہ کے طیاروں نے افغان سرحد کے پار بمباری کی اور اس بمباری کے نتیجے میں 40 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے'۔

کابل: افغان دفترخارجہ میں پاکستانی سفیر کی طلبی، شیلنگ پر احتجاج

افغانستان کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ کابل میں تعینات پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کی سرحد سے متصل مشرقی صوبوں کنڑ اور خوست میں پاکستانی فورسز کی گولہ باری کے الزام پر احتجاج درج کرایا ہے۔

افغان وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی اور نائب وزیر دفاع ملا شیریں اخوند نے خوست اور کنڑ صوبوں میں ہونے والے حالیہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس طرح کی کارروائیوں کی روک تھام پر زور دیا ہے۔

وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ تمام فوجی خلاف ورزیوں کو روکا جانا چاہیے—فائل فوٹو:اے ایف پی
وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ تمام فوجی خلاف ورزیوں کو روکا جانا چاہیے—فائل فوٹو:اے ایف پی

افغان وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ خوست اور کنڑ میں ہونے والے والی کارروائیوں سمیت تمام فوجی خلاف ورزیوں کو روک دینا چاہیے کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوتے ہیں اور امن دشمن مخالفین کو صورت حال کا غلط استعمال کرنے کی اجازت ملتی ہے جس کے نتیجے میں ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سفیر کو اپنی قیادت تک پیغام پہنچانے کے لیے ایک ٹھوس سفارتی رد عمل دیا گیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس پر غور کر رہے ہیں، تاہم، ترجمان نے معاملے پر مزید تبصرہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں:شمالی وزیرستان: دو حملوں میں 8 فوجی جوان شہید

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان نے خیبرپختونخوا میں سرحد کے قریب افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ پر افغان ناظم الامور کو دفترخارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا تھا۔

دفترخارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان ناظم الامور سے دو واقعات پر احتجاج کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ پہلا واقعہ 14 اپریل کو افغان بارڈر فورسز نے ضلع چترال میں پاکستانی فوج کی پوزیشنز پر بلااشتعال فائرنگ کی جہاں 5 سے 6 گھنٹے تک فائرنگ جاری رہی۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے واقعے میں افغان سرزمین سے 35 آرٹیلری فائر کیے گئے تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے اس جارحیت کا مؤثر جواب دیا گیا۔

دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ دوسرے واقعے میں دہشت گرد پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے بلااستثنیٰ افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ہماری طرف سے افغان حکومت کو پاک-افغان سرحد محفوظ بنانے کے لیے مسلسل درخواستوں کے باوجود افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہےجو گہری تشویش کا باعث ہے اور باہمی تعاون کے تصور کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان سے دہشت گردوں کی ضلع کرم میں فائرنگ، پاک فوج کے پانچ جوان شہید

دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان سرحد پار سے فائرنگ کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان اقدامات سے امن برقرار رکھنے کے لیے ہونے والی کاؤشوں اور پاک-افغان سرحد پر استحکام کو نقصان پہنچے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان توقع کرتا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی مسلسل کارروائیوں میں ملوث افراد اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

گزشتہ روز پاکستانی فوج نے بتایا تھا کہ دہشت گردوں نے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے عشام میں پاک افغان سرحد کے قریب ایک فوجی قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا، حملے کے نتیجے میں سات پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔

گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاک فوج نے فوری طور پر مؤثر جوابی کارروائی شروع کی تھی اور 4 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا، تاہم، شدید فائرنگ کے تبادلے اور مقابلے کے دوران 7 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔

پاکستان طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا: ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں خود کش بمبار ہلاک

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ روز طالبان کے سفیر سردار احمد شوکیب کو طلب کرکے شمالی وزیرستان حملے کے بعد افغان سرزمین کے استعمال پر احتجاج درج کرایا تھا۔

یہ دوسرا موقع تھا جب رواں ماہ اسلام آباد میں طالبان سفارت کار کو طلب کیا گیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان نے بلوچستان میں ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر میں پاکستانی سرحد کی جانب آگ لگنے کے واقعے کے بعد طالبان کے نائب سفیر کو طلب کیا تھا۔

ایک اہلکار کے مطابق ایک گولی ہیلی کاپٹر کو لگی تھی، تاہم، فائرنگ سے کوئی شخص زخمی نہیں ہوا تھا۔

افغانستان: مغربی علاقے میں زلزلے سے 26 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

افغانستان کے مغربی صوبے بادغیس اور ملحقہ علاقوں میں زلزلے سے 26 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ترجمان باز محمد سروری نے کہا کہ مغربی صوے بادغیس کے ضلع قادیس میں زلزلے کے باعث گھر کی چھت گرنے سے شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں 6.2 شدت کا زلزلہ، پاکستان میں بھی اثرات

امریکی جیولوجیل سروے کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5 اعشاریہ 3 تھی۔

باز محمد سروری نے کہا کہ 'آج آنے والے زلزلے سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ جاں بحق افراد میں خواتین اور بچے بھی ہیں'۔

افغانستان کا صوبہ بادغیس خشک سالی سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے اور گزشتہ 20 برسوں میں بیرونی امداد میں کم ملتی رہی ہے۔

طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان میں پہلے انسانی بحران درپیش ہے جبکہ امریکا سمیت مغربی ممالک نے افغانستان کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔

افغانستان میں زلزلے اکثر محسوس کیے جاتے ہیں، خاص کر کوہ ہندوکش کے سلسلہ زلزلوں کا مرکز ہے، جو یوریشین اور برصغیر کے زمینی پلیٹس کے ملاپ کے قریب واقع ہے۔

مزید پڑھیں: زلزلہ:افغانستان میں ہلاکتیں 115ہوگئیں

زلزلوں سے بحران زدہ افغانستان کے کچے مکانات اور عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستاناور پڑوسی ممالک میں 2015 میں 7 اعشاریہ 5 شدت کا بدترین زلزلہ آیا تھا جہاں 280 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور اس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے تھے اور متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق اس زلزلے کے دوران اسکول کی 12 لڑکیاں بھی اسکول سے باہر نکلنے کی کوشش کے دوران بھگدڑ سے جاں بحق ہوئی تھیں۔

خیال رہے 14 جنوری کو اسلام آباد سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے اور اس زلزلے کا مرکز بھی افغانستان اور کوہ ہندوکش کا سلسلہ تھا۔

اس سے قبل رواں ماہ کے شروع میں بھی خیبرپختونخوا میں زلزلہ آیا تھا اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ زلزلے کا مرکز افغانستان تھا۔

سابق جنرلز اور سفرا کا افغانستان میں بینکاری نظام کی تعمیر نو کا مطالبہ

ایک درجن سابق امریکی جنرلز اور سفرا نے جوبائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں بینکاری کے نظام کی دوبارہ تعمیر نو میں مدد کریں تاکہ افغان ریاست کو بحران سے بچایا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی تھینک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں انہوں نے کیا کہ ’خوراک اور ادویات کے ساتھ افغانستان کو ایک درمیانے درجے کے مستحکم مبادلہ اور فعال بینکاری کے نظام کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی معاشی اور حکومتی ناکامی سے بچا جاسکے۔

بیان کے دستخط کنندگان میں جنرل جوہن کیمپ بیل، جوہن نکلسن اور ڈیویڈ پیٹریس شامل ہیں جو افغانستان میں نیٹو فورسز کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں جبکہ دیگر دو ریان کروکر اور رچرڈ اولسن پاکستان اور افغانستان میں امریکی سفرا کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی چیلنجز اور ان کا حل

انہوں نے لکھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا کی ذمہ داری ہے کہ وہ 20 سال قبل بنائے گئے افغانستان کے شہریوں کے سماجی اور اقتصادی مقاصد کے تحفظ میں ان کا ساتھ دے‘۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے راستے تلاش کرتے ہوئے امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے اسے ان تک پہنچایا جاسکتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں۔

انہوں نے جو بائیڈن انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ ’افغانستان اب بھی طالبان کے ہی اقتدار میں ہے اور اہم بات یہ ہے کہ امریکا اور دیگر بین لاقوامی فلاحی ادارے ان کےلیے مسلسل کام کریں۔

افغان معاشی بحران کے پیش نظر اقوام متحدہ، عالمی بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور دیگر خبردار کرتے ہوئے ان سے بھی امداد کی اپیل کی گئی ہے۔

15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بین الاقوامی امداد روک دی گئی ہے جبکہ افغان کے اثاثے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں جس کی وجہ سے ملک کی 40 فیصد کروز ڈومیسٹک پروڈکٹ اور حکومت کا بجٹ 75 فیصد متاثر ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں بحران کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور

سابق امریکی جنرلز اور سفرا نے تنبیہ کی ہے کہ افغانستان کا بینکاری نظام کا تباہی کا شکار ہے اور ان کی کرنسی کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طویل خشک سالی،کورونا وائرس اور حکومت خدمات کے فقدان کے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ’ افغانستان غربت سےشدید متاثر ہے اور خطرہ ہے کہ سال 2022 کے وسط تک تقریباً 97 فیصد آباد غربت کی لکیر سے نیچے آجائے گی‘۔

ان کہ اپیل میں عالمی خوراک کا پروگرام بھی شامل ہے، افغانستان کے صرف 5 فیصد افراد کے پاس ہر روز کھانے کے لیےموثر غذا موجود ہے۔

ڈبلیو ایف پی نے پیش گوئی کی ہے کہ’ یہ حالات دنیا کے عظیم ترین انسانی بحران کی وجہ بن سکتا ہے‘۔

امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

افغان صدر اشرف غنی نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں شامل 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق شق کو مسترد کردیا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات کے لیے کوششوں میں مصروف مغربی سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ افغان صدر کا یہ بیان امریکی مذاکرات کاروں کے لیے مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں

افغانستان میں 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ روز افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں معاہدہ ہوا، جس کے دوسرے ہی روز افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا’۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ امریکا اور طالبان، اعتماد کی فضا کو قائم کرنے کے لیے فوری طور پر سیاسی اور جنگی قیدیوں کو رہا کریں گے، جس کے لیے تمام متعلقہ فریقین سے رابطہ کیا جائے گا اور ان سے اجازت لی جائے گی۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ 10 مارچ تک افغان حکومت کی قید میں موجود 5 ہزار طالبان قیدیوں کو ایک ہزار قیدیوں کے بدلے میں رہا کردیا جائے گا۔

تاہم قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے افغان صدر کا کہنا تھا کہ ‘یہ امریکا کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کررہے تھے'۔

یاد رہے کہ ہفتے کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے پر امریکا کے معاون خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے اور اس موقع پر امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔

معاہدے سے متعلق منعقدہ تقریب کے موقع پر ملا برادر نے ناروے، ترکی اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے روس، انڈونیشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے سفرا سے بھی ملاقات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ‘ملا برادر سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ سطح کے حکام نے افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا جبکہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تاریخی ہے'۔

علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا اور کہا کہ وہ جلد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

دوسری جانب عبدالغنی کے مشیران کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان سے ملاقات کا فیصلہ حکومت کو اس وقت مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے جب فوری طور پر امریکی فوج کا انخلا ہونے جارہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں افغان طالبان کے رہنماؤں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے ہوئی تھی تاہم اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے استعفیٰ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات منسوخ ہونے کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوگئے تھے تاہم بعدمیں پاکستان اور افغانستان کی حکومت کی کوششوں سے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے طے پاگیا۔

چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔
  1. طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
  2. افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔
  3. طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
  4. انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

افغان وفد پر طالبان کے اعتراض کے بعد امن مذاکرات ملتوی

کابل: سفارتی ذارئع اور حکام کے مطابق طالبان کی جانب سے افغان حکومتی وفد کے اراکین کی تعداد پر اعتراض کے بعد دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ افغانستان میں 17 سالہ طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کی سخت کوششوں کے بعد طالبان افغان حکومتی وفد سے بات چیت پر آمادہ ہوئے تھے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ان مذاکرات کا آغاز جمعے سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونا تھا لیکن کابل میں موجود افغان حکومت کے عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ اجلاس ابھی کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات میں تبدیلی کی جارہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان سے ملاقات کے لیے 250 افراد پر مشتمل افغان وفد کا اعلان

اس بارے میں کابل میں موجود ایک مغربی سفارتکار نے بتایا کہ افغان وفد کو جمعرات کو قطر کے دارالحکومت روانہ ہونا تھا تاہم انہیں معلوم ہوا کہ ان کا دورہ منسوخ کردیا گیا ہے اور نئی تاریخوں پر بات چیت جاری ہے۔

سفارتکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حکومت کو یہ اجلاس منعقد کرنے کے لیے وفد میں تبدیلی کرنی پڑے گی‘۔ اس بارے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان کے رہنما افغان وفد کے حجم اور اس میں اراکین کے شمولیت کے حوالے سے معترض تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفد میں کچھ ایسے اراکین بھی شامل تھے جو اراکین کی اس فہرست سے مختلف تھے جس پر اتفاق ہوا اور اس میں افغان حکومت کے اہلکار بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغان وفد کی طویل فہرست پر اعتراض، امن مذاکرات مشکلات کا شکار

یاد رہے اس سے قبل طالبان کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت سے ملاقات سے انکار کیا جاتا رہا ہے جنہیں وہ کٹھ پتلی حکومت گردانتے ہیں لیکن دوسری جانب ان کے امریکی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے بدھ کے روز بتایا تھا کہ افغان وفد میں کطھ حکومتی اراکین ذاتی حیثیت میں شرکت کررہے ہیں۔

لیکن اس گروہ میں افغان سیاست کی اہم شخصیات شامل نہیں جو فورسز کی وجہ سے ستمبر میں صدارتی انتخابات سے قبل اشرف غنی کے ساتھ شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔

اس بارے میں ایک سینئر حکومتی کا کہنا تھا کہ افغانوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا طالبان سے موسم بہار کے حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ

واضح رہے کہ افغانستان میں جاری طویل لڑائی کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں افغان فریقین اور طالبان کے درمیان پہلی مرتبہ مذاکرات کی میز پر ہونے والی متوقع بات چیت کو بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا تھا۔

سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ امن عمل میں معاونت کرنے والے قطر کی جانب اس میں شرکت کرنے والے افراد کی فہرست پر افغان صدر اشرف غنی نے مخالفت کی تھی جس کے بعد مذاکرات کشمکش میں پڑگئے تھے۔

افغان حکام کے مطابق قطر نے 243 افراد کی فہرست پیش کی تھی جو اشرف غنی کی 250 افراد کی فہرست سے مختلف تھی۔


یہ خبر 19 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

'افغان مہاجرین کیلئے افغان نیشنل لاء بنایا جائے گا'

کمشنر برائے افغان مہاجرین بر یگیڈ یئر (ریٹائرڈ) مسعود خان نے کہا ہے کہ اس وقت افغان مہاجرین کی رجسٹریشن ایک اہم مسئلہ ہے تاہم پاکستان بھر میں 23 رجسٹریشن سنیٹرز تشکیل دیے گئے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق مسعود خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایک محتاط انداز ے کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 2 لاکھ کے قر یب افغان مہاجر ین موجو د ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن ایک اہم مسئلہ ضرور ہے لیکن اس پر کام کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے پورے پاکستان مین 23 جبکہ پانچ سینٹرز صرف بلو چستان میں بنائے گئے ہیں تاکہغیر قانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین کو رجسٹر کیا جائے۔

کمشنر افغان مہاجرین نے کہا کہ ایک لا ئحہ عمل کے بعد ہر افغان مہاجر کو ایک کارڈ دیا جائے گا جو کہ پاکستان میں ان کی شناخت کے لیے استعمال ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کارڈ کے اجرا سے افغان مہا جرین کے جتنے بھی مسائل ہیں ان کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:افغان مہاجرین کے قیام میں مارچ 2017 تک توسیع

افغان مہاجرین کے لیے قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغان مہاجر ین کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا ہے اور اب ان کے لیے افغان نیشنل لا بھی بنا یا جا ئے گا جس کی مزید تو سیع کی جا رہی ہے۔

مسعود خان نے امید ظاہر کی کہ اگلے 8ماہ کے عر صے میں افغان مہاجرین کے رجسٹر یشن کا عمل مکمل ہو جا ئے گا۔

خیال رہے کہ یونائیٹڈ نینشز ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی دستاویز کے مطابق 2016 میں 3 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جاچکے تھے۔

مزید پڑھیں:3 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی وطن واپسی

دستاویزات کے مطابق 31 اکتوبر تک رضاکارانہ واپسی پروگرام کے تحت 3 لاکھ 13 ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی ہوچکی تھی۔

واپس جانے والے افغان مہاجرین میں سے 2 لاکھ 51 ہزار 639 باشندے صوبہ خیبر پختونخوا، 23 ہزار 278 افراد بلوچستان، 2 ہزار 513 سندھ، 31 ہزار 138 پنجاب، 4 ہزار 653 اسلام آباد اور 363 آزاد کشمیر میں مقیم تھے۔

تبصرے (15) بند ہیں

Muhammad Aftab Feb 07, 2017 01:01pm
’’اس گھرانے نے اپنی واحد بکری فروخت کی‘‘ اس لائن کو لکھتے ہوئے لکھاری کے جو جذبات تھے وہ شاید بہت سےلوگ سمجھنے سے قاصر رہیں۔۔۔۔۔۔
Kamran Feb 07, 2017 02:02pm
Thank you Dawn News, for highlighting the miseries and anguish of our Afghan brothers and sisters across Durand line, hope one day they will find their happiness
zorkor Feb 07, 2017 02:24pm
zabardast article hai. Afghanio ko ab wapas jana chahye, Pakistan ko ab apney maillon par tawajo dene chahye na k afghanio par. En ko jale az jalde wapas buem dena chahyey.
Hidayat Ullah Khattak Feb 07, 2017 04:23pm
"مصور بہتر ہو رہا ہے، مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ مکمل طور پر صحتیاب ہوگا یا نہیں۔ میں تھک چکی ہوں۔",,,A well written report on the problems of Afghans brethren,they r
Shahzeb Feb 07, 2017 04:37pm
They should leave out country volunteer, and govt of pak should make easy visa policey for afghans if suppose they come to Pakistan for Medical Treatment.
نوید نسیم Feb 07, 2017 05:03pm
کون ہیں یہ عظیم لوگ جو آج کے دور میں بھی ایسا کمال کام کرتے ہیں۔
Ahsan Raza Feb 07, 2017 06:32pm
A wonder work by Daw.com team. Urdu stuff ki reatch bahut ziada hoti hi. Aise projects karney chaheh.
Arsalan Feb 07, 2017 07:05pm
Situations have been changed now and Pakistani is in still war condition. On the other hand Afghanistan is playing in India's Hands. It was the responsibilty of Afghan President to make a discussion with Islamabad but He did not do that. You can't blame Pakistan for this journey. Pakistan must take better steps to make these people happy and should provide finance for live in.
khan Feb 07, 2017 08:16pm
thank you dawn
Tanveer Ahmed Feb 08, 2017 09:40am
Brilliant stuff from dawn team. Aisa kam sirf dawn he kr skti hy na bbc na geo na ary ... sirf dawn. buhat acha kam kiy.
Hanzala Feb 08, 2017 02:33pm
Informative
Zahoor.ali Feb 11, 2017 10:55pm
Ithink the writer has show us the only one side of the afghan refugees.on the other hand these million of afghanis are burden on our economy
abdulrauf akhtar Feb 11, 2017 11:04pm
They are our brothers ,sisters sons n daughters . They have right to live here must be unconditional. If some wants to live permanentlyhe must be welcomed .
ishtiaq Ahmed Feb 12, 2017 06:50pm
very much sad stories.....................May ALLAH Help them All
تراب علی Feb 14, 2017 04:49pm
کالم نگار صاحب سے میری گزارش ہے برائے مہربانی اپنے اعدادوشمار دعست کریں