زلزلہ:افغانستان میں ہلاکتیں 115ہوگئیں

28 اکتوبر 2015
— فائل فوٹو/ رائٹرز
— فائل فوٹو/ رائٹرز

کابل: افغان صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان سید ظفر ہاشمی کا کہنا ہے کہ حالیہ شدید ترین زلزلے سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 115 تک پہچ چکی ہے۔

مذکورہ ہلاکتیں افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 17 صوبوں میں رپورٹ ہوئی ہیں اور اس شدید زلزلے سے 7600 گھر بھی متاثر یا تباہ ہوئے ہیں۔

ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جیسا کہ دیہی علاقوں تک رسائی کے تمام راستے تاحال بند ہیں۔

صوبہ کنڑ، جہاں زلزلے سے سب سے زیادہ 42 ہلاکتیں سامنے آئی ہیں، کے پولیس چیف عبدالحبیب سید خیل کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس غیر مناسب سڑکیں اور امداد ہے۔‘

اس کے علاوہ صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد میں سب سے زیادہ نقصان رپورٹ ہوا ہے جبکہ دیگر صوبوں کنڑ، نورستان، تخار، باغلان، ننگرہار اور لغمان میں بھی وسیع پیمانے پر نقصان رپورٹ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ شمال مشرقی افغانستان میں پیر کو آنے والے شدید زلزلے کے نتیجے میں اسکول کی 12 بچیوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں زلزلے سے 63 ہلاکتیں

یہ بچیاں افغانستان کے دور دراز ٹاکھر صوبے کے مرکزی شہر تعلقان میں زلزلے سے اسکول میں پیدا ہونے والی بھگدڑ میں ہلاک ہوئیں۔

یونیسیف کے مطابق ’زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کو شدید موسم کے باعث مزید مشکلات کا سامنا ہے اور یہاں راستوں کی بندش کے باعث امداد پہنچانے بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں موجود نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے ریلیف آپریشن منصوبے میں مدد فراہم کررہے ہیں تاہم امدادی گروپ سیکیورٹی اور راستوں کے بند ہونے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک تاحال نہیں پہنچ پائے ہیں۔

ناروے کی مہاجر کونسل کی قائم مقام ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے سیکیورٹی بڑا مسئلہ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا زلزلہ متاثرین کی مدد کا عزم

دوسری جانب افغان طالبان نے خیراتی اور فلاحی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ تباہ کن زلزلے سے متاثرہ افغان شہریوں کی امداد میں پیچھے نہ رہیں، جبکہ متاثرہ علاقوں میں موجود 'مجاہدین' کو بھی متاثرینِ زلزلہ کو 'مکمل مدد' فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ریسکیو اہلکار زلزلے سے متاثرہ صوبوں تک رسائی کی کوششیں کررہے ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے تاہم جنگجو گروپ نے وعدہ کیا ہے کہ فلاحی و خیراتی تنظیموں کی ان علاقوں تک رسائی ہموار کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں