افغانستان: مزارِ شریف اور قندوز میں دھماکے، 14 افراد جاں بحق

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2022
دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں مزار شریف کی  ایک مسجد میں مرنے والے 10 افراد بھی شامل ہیں—فوٹو:
دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں مزار شریف کی ایک مسجد میں مرنے والے 10 افراد بھی شامل ہیں—فوٹو:

افغانستان کے دو شہروں مزار شریف اور قندوز میں الگ الگ بم دھماکوں میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز ' کے مطابق دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں مزار شریف کی ایک مسجد میں نشانہ بننے والے 10 افراد بھی شامل ہیں، شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے خلاف رواں ہفتے ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔

اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں بم دھماکوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، تاہم، شدت پسند اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) نے اس کے بعد سے کئی حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان دارالحکومت کے اسکول میں دھماکا، 6 افراد ہلاک

اس گروپ نے شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں آج ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے، متاثرین کو سہ دوکن مسجد سے ہسپتال لے جایا جانے کی دلخراش تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں۔

سوشل میڈیا پر جاری تصاویر کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی، تصاویر میں ٹوٹے ہوئے شیشے دیکھے جا سکتے ہیں۔

افغان صوبے بلخ کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ ذبیح اللہ نورانی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 25 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ دھماکوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ، قندوز شہر میں ہونے والے ایک دھماکے میں کم از کم 4 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:افغانستان: ننگرہار میں دھماکے سے 9 بچے جاں بحق

صوبائی پولیس کے ترجمان عبید اللہ عابدی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک سائیکل میں نصب بم سے گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں طالبان کے فوجی یونٹ کے لیے کام کرنے والے مکینکس سوار تھے۔

ملک کی 3 کروڑ 8 لاکھ آبادی میں سے 10 سے 20 فیصد کے درمیان تعداد رکھنے والی افغانستان کی شیعہ ہزارہ برادری طویل عرصے سے حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے، شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں سے کچھ کا الزام طالبان پر اور کچھ کا داعش پر لگایا جاتا ہے۔

2 روز قبل کابل کے ایک شیعہ محلے میں اسکول کے باہر ہونے والے دو دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور پچیس دیگر زخمی ہوئے تھے۔

رواں ہفتے ہونے والے کسی بھی حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔

افغانستان میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان نے مشرقی ننگرہار صوبے میں داعش کے مشتبہ ٹھکانوں پر باقاعدگی سے چھاپہ مار کارروائیاں کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: دشت برچی میں دھماکے سے 2 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

طالبان حکام اصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے آئی ایس کو شکست دے دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ ملک کی سیکیورٹی کے لیے اب بھی ایک اہم چیلنج ہے۔

اس دہشت گرد گروپ نے حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں ہونے والے کچھ ہلاکت خیز ترین حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں میں کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ طالبات تھیں، دھماکوں میں 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی، تاہم، اکتوبر 2020 میں آئی ایس نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا اعتراف کیا تھا جس میں طلبا سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مئی 2020 میں اس گروپ پر اسی محلے کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا، حملے میں خواتین مریضوں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں