قذافی اسٹیڈیم: درخشاں تاریخ سے دہشت گرد حملے تک

تاریخ ساز لمحات اور تنازعات کا شاہد قذافی اسٹیڈیم ایک مرتبہ پھر عالمی کرکٹ کی میزبانی کیلئے تیار ہے۔
اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2017 03:53pm

گراؤنڈزمین وکٹ پر رولر چلانے، ویلڈرز آہنی جالیوں کی مرمت اور مزدور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کو نئے رنگ و روغن سے رنگنے میں مصروف ہیں جو کئی تاریخ ساز لمحات اور تنازعات دونوں کا شاہد ہے اور ایک مرتبہ پھر عالمی کرکٹ کی میزبانی کیلئے تیار ہے۔

اگلے ہفتے میدان اور لاہور کی فضائیں ایک مرتبہ پھر قومی ترانے سے گونج اٹھیں گی جب یہ میدان آٹھ سال قبل شہر میں کیے گئے خطرناک دہشت گرد حملے کے بعد اسٹارز سے سجی ورلڈ الیون کی تین ٹی 20 میچوں کی سیریز کیلئے میزبانی کرے گا۔

تین ٹی20 میچوں کی سیریز پر مشتمل ’آزادی کپ‘ انتہائی سخت سیکیورٹی میں کھیلا جائے گا اور حکام کو امید ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ اور قذافی اسٹیڈیم کی خونی، اسکینڈلز سے بھرپور اور کبھی کبھار خوشگوار کہانیوں سے بھرپور تاریخ کا ایک نیا باب ہو گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر آغا زاہد میچز کی تیاریوں کے سلسلے میں عملے کو ضروری ہدایات دے رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر آغا زاہد میچز کی تیاریوں کے سلسلے میں عملے کو ضروری ہدایات دے رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

لیبیا کے رہنما کے نام پر قائم یہ اسٹیڈیم ورلڈ کپ فائنل اور دہشت گرد حملے دونوں کا شاہد ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ پاکستان کے جوہری عزائم اور عالمی جغرافیائی محاذ آرائی اور سیاسی دشمنیوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔

یہ میدان پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کے سب سے بدترین سانحے کا مرکز تھا جب 2009 میں اسٹیڈیم کے قریب دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ کردیا تھا اور ٹیم کو گراؤنڈ بذریعہ ہوائی جہاز بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔

اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے دروازے بھی بند ہو گئے تھے اور پاکستان کو اس وقت سے اب تک اپنے تمام ہوم میچز نیوٹرل مقام پر کھیلنے پڑے۔

27ہزار گنجائش کے حامل اس اسٹیڈیم نے ان بدترین حالات کے باوجود 1996 میں ورلڈ کپ فائنل کی میزبانی جیسے سب سے بہترین موقع کے بعد کئی یادگار لمحات کو اپنی یادوں میں محفوظ کیا۔

دہشت گرد حملے کے بعد 2015 میں جب زمبابوے جیسی کمزور ٹیم پاکستان آنے والی پہلی انٹرنیشنل ٹیم بنی تو اس وقت جذبات عروج پر تھے اور سبز ستارہ سینے پر سجائے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنے شائقین کے سامنے کھیلنے کا موقع ملا لیکن ڈرامائی انداز میں سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری کے باوجود پاکستان ٹیسٹ ٹیموں کو ملک میں آمد کیلئے آمادہ نہ کر سکا۔

قذافی اسٹیڈیم کا عملہ گراؤنڈ کی صفائی میں مصروف ہے— فوٹو: اے ایف پی
قذافی اسٹیڈیم کا عملہ گراؤنڈ کی صفائی میں مصروف ہے— فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر آپریشنز ہارون رشید نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب تک پاکستان کرکٹ کیلئے سب سے بڑا دھچکا ہے، جب آپ اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں تو آپ خود بخود مایوس ہو جاتے ہیں۔

پی سی بی کے چیف کیوریٹر آغاز زاہد نے اے ایف پی سے گفتگو میں وقت بدلنے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک نئی زندگی شروع کر رہے ہیں۔

اکبر جاوید لبرٹی کے اطراف میں ایک کاسمیٹکس کی دکان کے مالک ہیں اور تین مارچ 2009 کو ہونے والے حملے کے گولیوں کے نشان اب تک ان کی دکان میں واضح ہیں۔

پی سی بی آفیشلز کے برعکس اکبر جاوید اسٹیڈیم اور کرکٹ کی بحالی سے زیادہ خوش نہیں کیونکہ گزشتہ بڑے میچوں کے دوران سیکیورٹی خدشات کے سبب ان کی دکان کئی دن کیلئے بند کر دی گئی تھی اور انہیں خدشہ ہے کہ ورلڈ الیون کے خلاف میچز میں بھی انہیں ایک مرتبہ پھر اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے البتہ دیگر افراد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر بہت خوش ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم میں بھی رنگ و روغن کے بعد عظیم کھلاڑیوں کی تصویریں آویزاں کر دی گئی ہیں— فوٹو: اے ایف پی
قذافی اسٹیڈیم میں بھی رنگ و روغن کے بعد عظیم کھلاڑیوں کی تصویریں آویزاں کر دی گئی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

مقامی ریسٹورنٹ دعوتِ خاص میں منیجر توصیف سدوزئی نے کہا کہ یہ پاکستان کا سب سے بہترین اسٹیڈیم ہے، اس نے کرکٹ کی کمی بہت شدت سے محسوس کی ہے۔ چند کے کاروبار سے محروم ہونا انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم ہونے سے بڑھ کر نہیں۔

مذکورہ گراؤنڈ جب 1959 میں بنایا گیا تو اسے لاہور اسٹیڈیم کا نام دیا گیا لیکن 1974 میں نیوکلیئر بم پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے پر اس گراؤنڈ کا نام لیبیا کے آمر معمر قذافی کے نام پر رکھ دیا گیا۔

2011 میں قذافی کے مارے جانے کے بعد ایک بحژ شروع ہوئی کہ کیا واقعی پاکستان اپنے سب سے عظیم تر کھیل کو ایک ایسے شخص کے نام سے منسوب کرے گا جہاں ایک اخباری کالم کے مطابق وہ وہ سب سے ’خونخوار عرب آمر‘ تھے۔

چھ سال گزرنے کے باوجود یہ نام اور پاکستان کرکٹ کی مشکلات بھی برقرار ہیں۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے ایک سال بعد 2010 پاکستان کرکٹ کو اس وقت ایک اور بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑا جب دورہ انگلینڈ پر سابق کپتان سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پکڑے گئے اور انہیں پانچ پانچ سال سزا کے ساتھ ساتھ جیل بھی ہوئی۔

اسپاٹ فکسنگ نے پاکستان کی اولین اور ملک میں کرکٹ کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے والی پاکستان سپر لیگ کو بھی داغدار کردیا جب رواں سال پی ایس ایل کے ابتدائی میچ کے بعد چند کھلاڑیوں کو اسپاٹ فکسنگ کا مرتکب قرار دے کر معطل کر دیا گیا اور گزشتہ ماہ اس اسکینڈل میں ملوث شرجیل خان کو پانچ سال پابندی کی سزا سنا دی گئی۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آزادی کپ کے میچز اور ورلڈ الیون کی میزبانی کی تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں— فوٹو: اے ایف پی
لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آزادی کپ کے میچز اور ورلڈ الیون کی میزبانی کی تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

اسکینڈل میں ملوث خالد لطیف کی قسمت کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے جبکہ دیگر چار کھلاڑیوں سے بھی تحقیقات جاری ہیں۔

جہاں تک نام کی بات ہے تو نئے پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کے بانی مرحوم عبدالستار ایدھی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان کے نام پر اسٹیڈیم کا نام رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔

پی سی بی کے ترجمان امجد حسین نے بتایا کہ اسٹیڈیم کا نام عبدالستار ایدھی سے منسوب کرنے پر سنجیدگی سے غور جاری ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔