حیدرآباد کے فور سیٹر کی کہانی

کمال بات تو یہ ہے کہ اس منی ٹیکسی کا نام فور سیٹر ہے لیکن اپنے اندر 10 افراد کو سمانے اور اٹھانے کا کام انجام دیتی ہے.
اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2017 02:48pm

دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر حیدرآباد میں شام کے پہر چلنے والی پُرلطف ہوائیں دن کی کڑاکے دار دھوپ اور جسم کو پسینے سے شرابور کردینے والی گرمی برداشت کرنے کا ثمر ہوتی ہیں۔ حیدرآباد، ایک شہر جو پھیلتا گیا لیکن چھوٹے شہروں والا عاجزانہ مزاج نہ بدلا، کم از کم میری رائے تو یہی ہے۔

زیریں اور بالائی سندھ کا تقریباً ہر شخص ہی اِس شہر میں اپنا آشیانہ بنانے کا خواہاں ہے، لہٰذا شہر میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور اب شہر میں ہوا دانوں کے بجائے پلازے اور متعدد منزلہ عمارتیں نظر آتی ہیں۔ شہر کی کم ٹریفک والی کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں اب بس تصاویر میں نظر آتی ہیں، تجاوزات اور بڑھتی آبادی کی وجہ سے ٹریفک میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

شہر کے پرانے علاقوں کی پرانی عمارتیں اب آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جا رہی ہیں۔ کچھ باتیں یا خصوصیات ہر شہر کو دیگر سے ممتاز بناتی ہیں۔ حیدرآباد کی بمبئی بیکری کا کیک اور حاجی کی ربڑی جیسی حیدرآباد کی سوغات سے تو آپ آشنا ہی ہوں گے، لیکن اِس مضمون کے ذریعے ہم آپ کی جان پہچان کرواتے ہیں حیدرآباد شہر کے پرانے علاقوں کی سڑکوں پر دوڑتے پھرتے اور پھٹ پھٹ کی ناگوار آوازیں نکالتے ’فور سیٹرز‘ سے، جسے پیار سے منی ٹیکسی بھی کہا جاتا ہے۔

فور سیٹر کو اگر غریب کی سواری کہیں تو غلط نہ ہوگا—تصویر نبیل ابڑو
فور سیٹر کو اگر غریب کی سواری کہیں تو غلط نہ ہوگا—تصویر نبیل ابڑو

فورسیٹر اب حیدرآباد کی پہچان بھی بن گئے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
فورسیٹر اب حیدرآباد کی پہچان بھی بن گئے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

حیدرآباد میں فور سیٹرز کی آمد کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔ 1965 میں ہمارے دوست ملک جاپان نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کچرے کو مدنظر رکھتے ہوئے صفائی کے لیے کچھ گاڑیاں بھیجیں جو محکمہء بلدیات کے حوالے کی گئیں، لیکن ہوا کچھ یوں کہ اِن گاڑیوں نے کچرا اُٹھانے کے بجائے لوگوں کو اُٹھانا شروع کردیا، آج حیدرآباد میں پیچھے 8 اور آگے ایک بندہ اِس گاڑی میں سوار ہوتا نظر آتا ہے۔ اِس گاڑی کے سستے کرائے اور عوامی مقبولیت نے اِسے فور سیٹر سے 10 سیٹر بنا دیا۔

جہاں ایک طرف مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں حیدرآباد کے مکینوں کے لیے یہ فور سیٹر کئی دہائیوں سے سستی سواری کا ایک ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ یہ ہے تو ایک رکشے نما سواری لیکن بیٹھنے کی جگہ آمنے سامنے ہیں، ہر سیٹ پر چار چار افراد جبکہ ایک فرد آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ کمال کی بات ہے نا کہ نام فور سیٹر لیکن اپنے اندر 10 افراد کو سمانے اور اٹھانے کا کام انجام دیتا ہے۔ کیا خوب ستم ظریفی ہے، ہمارے ہاں غریب ہی نہیں بلکہ غریب کی سواری بھی اضافی بوجھ اُٹھاتی ہے۔

صبح فجر سے لے کر رات کے 8 بجے تک چلنے والی بیشتر فور سیٹرز گاڑیاں نہ تو فٹنس کے لحاظ سے روڈ پر لانے کے قابل ہیں اور نہ ہی اِن سے نکلتا دھواں کسی سے برداشت ہوتا ہے۔ ناگوار آواز کی تو کیا ہی بات ہے، پھر بھی جیب کی تنگی کے باعث مجبور لوگ چار مسافروں کی سیٹوں پر پھنس پھنسا کر 8 افراد سوار ہو ہی جاتے ہیں۔ اِس وقت شہر بھر میں 600 سے زائد فور سیٹرز مختلف روٹس پر چل رہے ہیں جن میں حیدر چوک، تلک چاڑھی، ٹاور مارکیٹ، لیاقت کالونی، پریٹ آباد، سبزی منڈی اور اسٹیشن روڈ شامل ہیں۔

فورسیٹر صرف نام کا ہی فور سیٹر ہے کیونکہ اس منی ٹیکسی میں پھنس پھنسا کر 10 افراد بیٹھتے ہیں بلکہ بٹھائے جاتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
فورسیٹر صرف نام کا ہی فور سیٹر ہے کیونکہ اس منی ٹیکسی میں پھنس پھنسا کر 10 افراد بیٹھتے ہیں بلکہ بٹھائے جاتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

فور سیٹر منی ٹیکسی ضرور ہے لیکن بقول ایک مسافر ڈرائیور سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے ٹرک جتنی جگہ ہے—تصویر نبیل ابڑو
فور سیٹر منی ٹیکسی ضرور ہے لیکن بقول ایک مسافر ڈرائیور سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے ٹرک جتنی جگہ ہے—تصویر نبیل ابڑو

لاہور میں تو غریب کی سواری کے لیے اورینج لائن ٹرین، میٹرو بس سروس جیسے مہنگے منصوبوں پر کام کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، کراچی میں بھی گرین لائن منصوبہ زیرِ تعمیر ہے لیکن حیدرآباد کو شاید اب بھی حکمرانوں نے ایک چھوٹا شہر ہی سمجھ رکھا ہے۔ شاید اِسی لیے شہر کے قلب میں رہتا غریب طبقہ اِن 'دھواں دار' اور شور مچاتے مطلب ہر لحاظ سے ناگوار سواری کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں، یعنی کوئی تصور تو کرے کہ ہم انسان اُن گاڑیوں میں سفر کررہے ہیں جن کو کچرا اُٹھانے کے لیے شہر میں لایا گیا تھا۔

2006 میں اُس وقت کے ضلع ناظم حیدرآباد، کنور نوید جمیل کی طرف سے شہر میں ٹریفک جام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اندرون شہر چلنے والی بسوں پر پابندی لگا دی تھی۔ اُس دن سے آج تک فور سیٹر ہی حیدرآباد کے شہریوں کے لیے سستی سواری کا واحد ذریعہ ہے.

ڈرائیور کو کیا خبر کہ اُس کی فور سیٹر کی آواز اور اُس سے نکلنے والا دھواں شہریوں کے لیے آلودگی کا باعث بن رہا ہے، جبکہ اُسے کوئی یہ بھی بتانے والا نہیں اُس کی فور سیٹر میں رکھا ہوا کوئی ناکارہ سلینڈر اُس کی اور اُس کے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں کے لیے موت کا پروانہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ درحقیقت غریب ڈرائیور کے دماغ میں تو صرف ایک ہی چیز سوار ہوتی ہے کہ آج گھر جاکر آٹا لینا ہے اور جیسے تیسے پیٹ کے دوزخ کو بھرنا ہے۔

فور سیٹر میں سوار فرقان راجپوت نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر کی کہنی اپنی پسلیوں سے دور کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ سبزی منڈی میں مزدوری کرتا ہے اور روزانہ لیاقت کالونی سے نا چاہتے ہوئے بھی اِسی فور سیٹر میں سفر کرتا ہے، فور سیٹر ہی اُس کے گھر سے منڈی تک جاتے ہیں اور یہی ایک سستی سواری بھی ہے، اگرچہ اِس میں بیٹھنا کافی تکلیف دہ ہے، کیونکہ 4 افراد والی گاڑی میں 10 افراد سوار ہوتے ہیں، کبھی کسی کی کہنی منہ پر لگتی ہے تو کبھی کوئی پاﺅں پر چڑھ جاتا ہے، لیکن اُس کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے، بس مجبوری کا نام شکریہ ہے جناب۔‘

فرقان کی باتیں سن کر قتیل شفائی کا شعر یاد آ گیا کہ،

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے

ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

فور سیٹر حیدرآباد کی سستی ترین سواری ہے—تصویر نبیل ابڑو
فور سیٹر حیدرآباد کی سستی ترین سواری ہے—تصویر نبیل ابڑو

فور سیٹر بعض اوقات تشہیری کاموں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
فور سیٹر بعض اوقات تشہیری کاموں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

فور سیٹر کے ایک ڈرائیور علیم الدین بتاتے ہیں کہ ’غالباً 21 برسوں سے وہ فور سیٹر چلا رہے ہیں، جب اُنہوں نے فور سيٹر چلانا شروع کیا تو اُس وقت کرایہ 2 روپے تھا لیکن اب 10 روپے ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تو اُن کے اسپئر پارٹس بھی نہیں ملتے، بس فور سیٹر کا انجن ہی اوریجنل ہے باقی سارے کا سارا جگاڑ کے سہارے ہے۔‘

جب میں نے پوچھا کہ چاچا آپ تو چلتی پھرتی بیماریاں لے کر گھوم رہے ہیں، ہوا میں آلودگی بڑھتی ہے، شور کی آلودگی سارے شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’بھائی میرے! درحقیقت شہر کے اندر اور کوئی سستی سواری نہیں ہے، ایسے میں یہ فور سیٹر ہی شہر کے تنگ و مشکل راستوں پر چل سکتے ہیں اور کرایہ بھی سستہ ہے۔ تم خود بتاﺅ ایسی دوسری کوئی سواری ہے جو کم پیسوں میں تقریباً پورا شہر گھماتی ہو؟ یہاں تو رکشے والے بھی گول بلڈنگ سے حیدر چوک تک 5 منٹ کے سفر کے 100 روپے لیتے ہیں۔‘

فور سیٹرز شہر میں ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ بن رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو
فور سیٹرز شہر میں ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ بن رہے ہیں—تصویر نبیل ابڑو

بدین اسٹاپ پر اپنی باری کا انتظار کر رہے فور سیٹرز—تصویر نبیل ابڑو
بدین اسٹاپ پر اپنی باری کا انتظار کر رہے فور سیٹرز—تصویر نبیل ابڑو

فور سیٹر شہر کے تقریباً تمام اہم علاقوں سے گزرتے ہیں۔ یعنی امریکن کوارٹر، بکرا پڑی، سٹی گیٹ، حیدر چوک، تلک چاڑھی، ٹاور مارکیٹ، لیاقت کالونی، پریٹ آباد، سبزی منڈی، اسٹیشن روڈ، آئے ہسپتال، چھوٹکی گھٹی اور بدین اسٹاپ تک جانے والوں کے لیے یہ چار کرسیوں والی گاڑی غریبوں کا واحد سہارا ہے کیونکہ سارے شہر کی سیر کرنے والوں کے لیے بمشکل 20 روپے کا کرایہ مقرر ہے جو ہر غریب باآسانی ادا کرسکتا ہے۔

حیدرآباد کے شہری نہیں چاہتے کہ اُن کی پہچان تازہ ہوا کے بجائے آلودگی بنے، لہٰذا شہریوں کو اُمید ہے کہ اگلی بار مراد علی شاہ صاحب جب یہاں آئیں گے تو صرف گلاب پان ہاؤس کا پان کھانے نہیں آئیں گے بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا تحفہ بھی ساتھ لائیں گے۔


لکھاری سندھ یونیورسٹی کے شعبہء میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز کے طالبعلم ہیں اور سیاست و فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔