Dawnnews Television Logo

تعلیم کی فراہمی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے

پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں کے درمیان صنفی عدم توازن افغانستان کے بعد جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔
اپ ڈیٹ 14 جون 2018 10:44am

تعلیمی شعبے میں اصلاحات مرکز اور صوبوں میں اگلی حکومتوں کے لیے ایک عظیم چیلنج ہوگا چاہے، سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں جو بھی دعوے کریں۔

پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے کیوں کہ حکومتوں نے تعلیم کو نظرانداز کر دیا ہے، بھلے ہی 5 سے 16 سال تک کے بچوں کے لیے مفت تعلیم آئینی حق ہے۔

سرکاری اسکولوں تک رسائی خاندان کی آمدنی، گھر سے اسکول کی دوری اور صنف پر منحصر ہے، زیادہ تر بچے 9 سال کی عمر تک اسکول چھوڑ دیتے ہیں جبکہ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے اسکول جانے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔

پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں کے درمیان صنفی عدم توازن افغانستان کے بعد جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے، اگر ہم ان انتخابات کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں تو ووٹروں کو چاہیے کہ تعلیم سے متعلق نمائندوں کے عزم کی بناء پر انہیں منتخب کریں۔

2013 میں سیاسی جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے تعلیمی اصلاحات کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی صلاحیتوں میں بہتری، اساتذہ کی غیر حاضری کم کرنے اور اسکولوں میں صنفی عدم توازن کے خاتمے سے جوڑا تھا مگر یہ اصلاحات اب بھی سمندر میں قطرے کے برابر ہیں۔

جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پنجاب میں اسکولوں میں داخلوں کی شرح بڑھائی، لڑکیوں کو وظائف دیئے، اور میرٹ کی بناء پر اساتذہ کی بھرتی کو یقینی بنایا، تو وہیں وہ یہ تعلیمی مہارت اور وسائل دوسرے صوبوں کو فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

بلوچستان، جہاں پر 11 لاکھ 89 ہزار بچے اسکول نہیں جاتے، وہاں حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود اس نے تعلیمی اصلاحات پر توجہ نہیں دی۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی پرعزم تعلیمی پالیسیاں پہلی مرتبہ حکومت میں آنے والی جماعت کی مخلص نیت کی عکاس تھیں مگر وعدوں پر عملدرآمد کا راستہ کانٹوں سے بھرپور رہا۔

نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیکھنے کی صلاحیت میں بہتری، داخلوں کی شرح میں اضافے اور اسکول چھوڑنے کی شرح کم کرنے کے حوالے سے پالیسیوں کے نفاذ پر توجہ دیں ایک ایسے صوبے میں جہاں اب بھی تعلیمی بجٹ اقوامِ متحدہ کے کم سے کم تجویز کردہ 20 فیصد بجٹ کے باوجود، صوبے کی 51 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔

اس سب کے دوران اب بہت عرصے سے پی پی پی کی سندھ حکومت کا ستمگرانہ اسکور کارڈ توجہ کا طلبگار ہے، خاص طور پر 'گھوسٹ' اساتذہ اور زبردست صنفی عدم توازن کے شعبوں میں۔

2018 کے منشور میں اچھا رہے گا کہ سیاسی جماعتیں اسکول سے باہر موجود بچوں کو تعلیمی نظام میں لانے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پائیدار اصلاحات اور مطلوبہ بجٹ کی فراہمی کا عزم کریں۔

صرف حقیقت پسند مقاصد ہی فائدہ مند ثابت ہوں گے، اصلاحات ملک بھر کے لیے مختلف ہیں جس کا مطلب ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پالیسیوں پر اتفاق ایک دوسرے کے بہترین اور کامیاب نکات سے سیکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔

سب سے بڑا مقصد اس بات کو یقینی بنانے ہے کہ تعلیم پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا اقوامِ متحدہ کا تجویز کردہ کم از کم 4 فیصد ضرور خرچ ہو، اس کے ساتھ ان بچوں کے لیے وسائل میں بہتری آئے جن کے پاس پانے کے لیے بہت کم ہے اور یہ کہ کسی بھی عمر اور مرحلے پر بچے اسکول جانا بند نہ کر دیں۔

پنجاب اور سندھ میں سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری سے چلنے والے اسکولوں کے ماڈل بھی انتخابی مقاصد میں ہو سکتے ہیں، جبکہ ضلعی کارکردگی کی باقاعدگی سے مانیٹرنگ اور احتساب یقینی بنانا بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’تعلیم، وہ سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار ہے جس سے آپ دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں‘۔ صرف وہی جماعتیں ان الفاظ کی حقانیت کو سمجھ کر اپنے وعدوں پر عمل کریں گی جن کے پاس کوئی وژن ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 جون 2018 کو شائع ہوا۔