Dawnnews Television Logo

نفرت پر مبنی جرم: ناروے کے عوام مسلمانوں کی حمایت میں نکل آئے

یورپی ملک میں ہونے والے واقعے کو عالمی سطح پر مقامی مسلمان برادری کے خلاف جرائم کے طور پر تصور کیا جارہا ہے۔
اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019 12:20pm

ناروے کے علاقے کرسٹیان سینڈ میں منعقدہ اسلام مخالف ریلی میں پولیس حکام کی جانب سے کئی مرتبہ انتباہ کے باوجود قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کے بعد ایک لاکھ آبادی پر مشتمل علاقے میں مسلمانوں کے لیے جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی افراد اس نفرت پر مبنی جرم کی مذمت کر رہے ہیں۔

یہ واقعہ 16 نومبر کو پیش آیا جب ایک غیر معروف دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم 'اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے' (سیان) نے کرسٹیان سینڈ میں مظاہرہ کیا، جس کے دوران انہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔

16 نومبر کو سیان کے اسلام مخالف مظاہرے کے دوران کرسٹیان سینڈ کے نوجوان کو پلے کارڈ پکڑے دیکھا جاسکتا ہے، جس پر لکھا تھا کہ ہماری سڑکوں پر نسل پرستی نہیں ہوگی — تصویر بشکریہ کییا بلوچ
16 نومبر کو سیان کے اسلام مخالف مظاہرے کے دوران کرسٹیان سینڈ کے نوجوان کو پلے کارڈ پکڑے دیکھا جاسکتا ہے، جس پر لکھا تھا کہ ہماری سڑکوں پر نسل پرستی نہیں ہوگی — تصویر بشکریہ کییا بلوچ

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی واقعے کی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ جب سیان کے رہنما لارس تھورسن قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو ناروے میں مقیم فلسطینی نوجوان قصی راشد نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور سیان کے رہنما کو لات مار کر گرا دیا۔

تاہم پولیس نے مداخلت کرکے لارس تھورسن سمیت راشد کو بھی حراست میں لے لیا۔

قبل ازیں رواں سال ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ضلعی عدالت نے لارس تھورسن پر نفرت پر مبنی جرم کا مرتکب ہونے والے کرمنل کوڈ کی دفعہ 185 کے تحت 30 روز جیل اور 20 ہزار کرونر (تقریباً 3 لاکھ 39 پاکستانی ہزار روپے) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

وہ 20 جولائی 2018 کو اوسلو میں سیان کے پمفلیٹس بانٹتے ہوئے پکڑے گئے تھے جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

'ہم سیان کو عدالت لے کر جائیں گے'

ادھر کرسٹیان سینڈ کے مسلمان اتحاد کے رہنما اکمل علی کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سیان کے رہنما آرنے ٹومیر کو 16 نومبر کا مظاہرہ منعقد کرنے اور مذہبی کتاب کی بے حرمتی کرنے پر عدالت لے کر جائیں گے۔

کرسٹیان سینڈ کی مسلمان برادری کے رہنما اکمل علی — فوٹو: کییا  بلوچ
کرسٹیان سینڈ کی مسلمان برادری کے رہنما اکمل علی — فوٹو: کییا بلوچ

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نفرت پر مبنی جرم تھا جو آرنے ٹومیر نے کیا ہے، انہوں نے مسلمانوں پر زبانی حملہ کیا اور پولیس کی ہدایات کی خلاف ورزی کی'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'کسی کو بھی آتش گیر مواد رکھنے کی اجازت نہ ہونے کی پولیس کی واضح ہدایات ہونے کے باوجود انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، یہ خلاف ورزی ناروے کے قوانین میں قابل سزا جرم ہے'۔

واضح رہے کہ مظاہرے سے قبل کرسٹیان سینڈ کی پولیس نے سیان کے رہنماؤں کو بتادیا تھا کہ وہ مظاہرے کے دوران قرآن پاک کو نذر آتش نہیں ہونے دیں گے۔

اس دن ہوا کیا تھا

مظاہرے میں جب آرنے ٹومیر نے اشتعال انگیز ماحول بنایا اور قر آن پاک کی بے حرمتی کی کوشش کی لیکن ساتھ ہی کہا کہ پولیس نے سیان کو اسے نذر آتش کرنے سے روکا ہے جس پر لارس تھورسن نے مقدس کتاب کو نذرآتش کرنے کی کوشش کی۔

مسیحی برادری نے نماز جمعہ کے بعد مقامی مسجد کے باہر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا—فوٹو: مسلم یونین ایڈجر
مسیحی برادری نے نماز جمعہ کے بعد مقامی مسجد کے باہر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا—فوٹو: مسلم یونین ایڈجر

لارس تھورسن کے اس اقدام کے فوری بعد یہ منظر دیکھنے والے چند مسلمانوں نے پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو توڑ دیا۔

اس پر 5 مسلمانوں کو 'افرا تفری مچانے، پولیس احکامات پر عمل نہ کرنے' پر تھانے لے جایا گیا، تاہم بعد ازاں تمام کو رہا کردیا گیا جبکہ ان 5 میں سے ایک نوجوان عمر دابا پر پولیس افسر پر تشدد کے الزام میں 14 ہزار کرونر (تقریباً 2 لاکھ 37 ہزار پاکستانی روپے) کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

کرسٹیان سینڈ کی مسلمان برادری کے مطابق گرفتار ہونے والے تمام مسلمانوں کا تعلق شام اور فلسطین سے تھا۔

واقعے کے بعد پولیس نے لارس تھورسن کو بھی حراست میں لیا اور اس کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

مسلمانوں کی حمایت

مذکورہ واقعے کے بعد مسلمان برادری کو ناروے کے عوام کی حمایت حاصل ہونے لگی۔

کرسٹیان سینڈ کے میئر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے شہر کی مسلمان برادری سے اظہار یکجہتی کیا۔

کرسٹیان سینڈ کے مسلمان یونین کے سینیئر رہنما طلال عمر—فوٹو: کییا بلوچ
کرسٹیان سینڈ کے مسلمان یونین کے سینیئر رہنما طلال عمر—فوٹو: کییا بلوچ

میئر ہارالڈ فورے نے ناروے کے قومی نشریاتی ادارے این آر کے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'کرسٹیان سینڈ سب کا شہر ہے اور ہم نظم و ضبط سے چلتے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے، اس طرح کے جرائم اشتعال انگیز اور قابل افسوس ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ '16 نومبر کو ایک منصوبہ بندی کے تحت اشتعال انگیزی کی گئی تھی، خوش قسمتی سے پولیس نے فوری مداخلت کردی تھی'۔

واقعے کے بعد جمعے کو مقامی مسیحی برادری کرسٹیان سینڈ میں قائم مسجد کے باہر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی میں کھڑی ہوئی۔

کرسٹیان سینڈ کی مسلمان یونین کے سینیئر رہنما طلال عمر کا کہنا تھا کہ 'بڑی تعداد میں عوام نے علاقے کی مسلمان برادری کی حمایت کی ہے، ان افراد میں سیاست دان، مسیحی رہنما اور عام شہری شامل تھے، جنہوں نے مقامی مسلمان آبادی سے رابطہ کرکے بتادیا کے ناروے ان کے ساتھ کھڑا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سیان ناروے کی اصل تصویر نہیں، ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور باقی ناروے کی مسیحی اور دیگر برادری ہمارے ساتھ ہے'۔

اشتعال انگیزی کا مذموم فعل

کرسٹیان سینڈ میں پیش آنے والے واقعے کو بڑے پیمانے پر مقامی مسلمان آبادی کو اشتعال دلانے کے مقصد پر مبنی عمل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

کرسٹیان سینڈ میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے طالبعلم پیٹر اینگنس نے کہا کہ 'مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اشتعال انگیزی کی غیر مہذب اور غیرضروری کوشش تھی، اس طرح کا عمل باہمی احترام کے بجائے غصہ پیدا کرتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے اپنے کچھ نارویجین دوستوں سے بھی بات کی اور ان کے بھی وہی خیال ہیں جو میرے ہیں، اب تک میں ناروے کے کسی ایسے شہری سے نہیں ملا جو اس پر خوشی منارہے ہوں'۔

کرسٹیان سینڈ میں سیان کے مظاہرے کے دوران ایک شخص رکاوٹوں کے پیچھے کھڑا پلے کارڈ اٹھایا ہوا ہے جس پر لکھا ہے 'قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے'—فوٹو: کییا بلوچ
کرسٹیان سینڈ میں سیان کے مظاہرے کے دوران ایک شخص رکاوٹوں کے پیچھے کھڑا پلے کارڈ اٹھایا ہوا ہے جس پر لکھا ہے 'قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے'—فوٹو: کییا بلوچ

جمعے کی نماز کے دوران کرسٹیان سینڈ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل گروہ، مقامی مسلمان برداری کے لیے اپنی حمایت اور ہمدردی کے اظہار کے لیے مسجد کے باہر جمع ہوا۔

انہوں نے موسم کی چیلنجنگ صورتحال، موسلا دھار بارش اور خون منجمد کرنے والے درجہ حرارت کو ناروے کے دیگر شہریوں کو یہ آگاہ کرنے کے لیے رکاوٹ نہ بننے دیا کہ مسلمان برادری کو مقامی افراد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

مسجد کے باہر مسلمانوں کی حمایت میں موجود افراد نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے جن پر درج تھا 'ہم مختلف ہیں مگر اکٹھے ہیں'۔

فورم برائے یقین اور مذاکرات کی چیئرمین سولویگ سکارا نے کہا کہ 'ہم یہاں یہ بتانے کے لیے موجود ہیں کہ ہم مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، وہ (سیان کے ارکان) شدت پسند ہیں اور ناروے میں اکثر افراد انہیں فالو نہیں کرتے'۔

خیال رہے کہ فورم برائے یقین اور مذاکرات کرسٹیان سینڈ میں مقیم مختلف برادریوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینے سے متعلق کام کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم میں سے اکثر نے نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ناروے میں ہر شخص اپنا مذہب منتخب کرنے میں آزاد ہے، ہر کوئی اس پر عمل کرنے میں آزاد ہے لیکن بہت کم لوگ سوچتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے'۔

سولویگ سکارا نے کہا کہ 'یہ مسلمانوں کے لیے مشکل وقت ہے اور میں ان سے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں'۔

ادھر اکمل علی نے مسجد کے باہر جمع گروہ کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ جن لوگوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی وہ مسلمانوں کو اشتعال دلانا چاہتے تھے اور ان کا مقصد اسلام کا منفی تصور پیش کرنا تھا لیکن ہم ان کے بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اشتعال دلانے کے باوجود مسلمان صابر رہے اور وہ لوگ جنہوں نے کرسٹیان سینڈ کے لوگوں کے درمیان تفرقات پیدا کرنے کی کوشش کی وہ ناکام ہوگئے۔

واقعے کے بعد کرسٹیان سینڈ میں مسلمان یونین کے رہنما اپنے ساتھی مسلمانوں سے اسلامی تعلیمات کے مطابق پُرامن رہنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کرسٹیان سینڈ کے مسلمان یونین کے سینیئر رہنما طلال عمر نے کہا کہ 'یہ واقعہ دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا لیکن اسلام ہمیں مشتعل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، ہم نے ایسا دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے ہیں، پولیس صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ہمیں کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا'۔

دوسری جانب مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے کرسٹیان سینڈ میں پولیس سے 'بہت مایوسی' کا اظہار کیا اور مظاہرے کی جگہ سے 5 مسلمانوں کو حراست میں لینے پر انتظامیہ پر تنقید کی۔

نوجوان لیڈر عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'جو کچھ ہوا اس سے ہم میں سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور یہ بہت پریشان کن تھا، جو چیز وہ (مسلمان مخالف گروپ کے اراکین) کہہ رہے تھے وہ بہت اشتعال انگیز تھا اور قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کے اقدام کو دیکھنا ہمارے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا'۔

عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'نوجوان لوگون نے مختلف طریقوں سے ردعمل دیا، کچھ نوجوانوں نے پولیس پر تنقید کی کہ کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کو حراست میں لیا جنہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذرآتش کرنے کے اقدام پر ردعمل دیا'۔ اپنی بات کے دوران انہوں نے کہا کہ ' ہم نے نوجوانوں کو کہا کہ پولیس نے اپنی ڈیوٹی کی اور رکاوٹوں کو عبور کرنا قانون کے خلاف تھا، تاہم سچ یہ ہے کہ اس واقعے سے یہاں مسلم اور غیر مسلم ہر کسی فرد کو دکھ ہوا'۔

ہم مایوس ہیں

دوسری جانب مسلمان نوجوانوں کے ایک گروپ نے کرسٹیان سینڈ میں پولیس سے 'بہت مایوسی' کا اظہار کیا اور مظاہرے کی جگہ سے 5 مسلمانوں کو حراست میں لینے پر انتظامیہ پر تنقید کی۔

نوجوان لیڈر عمر حیدر نے بھی اس عمل پر افسوس کا اظہار کیا—فوٹو: کییا بلوچ
نوجوان لیڈر عمر حیدر نے بھی اس عمل پر افسوس کا اظہار کیا—فوٹو: کییا بلوچ

نوجوان لیڈر عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'جو کچھ ہوا اس سے ہم میں سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور یہ بہت پریشان کن تھا، جو چیز وہ (مسلمان مخالف گروپ کے اراکین) کہہ رہے تھے وہ بہت اشتعال انگیز تھا اور قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کے اقدام کو دیکھنا ہمارے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا'۔

عمر حیدر کا کہنا تھا کہ 'نوجوان لوگون نے مختلف طریقوں سے ردعمل دیا، کچھ نوجوانوں نے پولیس پر تنقید کی کہ کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کو حراست میں لیا جنہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذرآتش کرنے کے اقدام پر ردعمل دیا'۔

اپنی بات کے دوران انہوں نے کہا کہ ' ہم نے نوجوانوں کو کہا کہ پولیس نے اپنی ڈیوٹی کی اور رکاوٹوں کو عبور کرنا قانون کے خلاف تھا، تاہم سچ یہ ہے کہ اس واقعے سے یہاں مسلم اور غیر مسلم ہر کسی فرد کو دکھ ہوا'۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ نیوزی لینڈ میں کراسٹ چرچ حملوں کے بعد ناروے میں تارکین وطن کے خلاف نفرت کے واقعات اور نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والا حملہ آسٹریلیا کے مسلمان مخالف دائیں بازو کے گروپ کے انتہا پسند بینٹن ٹیرنٹ کی جانب سے گیا گیا تھا۔

ناروے میں کرسٹیان سینڈ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے مقصد سے کیا جانے والا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، رواں سال اگست میں اوسلو کے قریب ایک مسجد کے اندر فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوگیا اور پولیس نے اس عمل کو' دہشت گردی کا اقدام' قرار دیا تھا۔

اس واقعے میں پاکستانی ایئرفورس کے ایک ریٹائرڈ افسر نے حملہ آور کو پکڑ کر اسے گرا دیا تھا اور مزید نقصان ہونے سے قبل ہی اس کے ہاتھ سے ہتھیار لے لیا تھا۔


کییا بلوچ ایک فری لانس پاکستانی صحافی ہیں اور اس وقت ناروے میں مقیم ہیں، آپ انہیں ٹوئٹر پر فالو کرسکتے ہیں۔