Dawnnews Television Logo
—فوٹو:اے ایف پی

'دلخراش بیان': ہزارہ برادری کو 'بلیک میلر' کہنے پر وزیر اعظم عمران پر تنقید

بہت ہی نامناسب الفاظ کا انتخاب کیا گیا، جو پہلے ہی سانحہ سے تباہ حال ہیں ان کی توہین کی گئی، ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین
اپ ڈیٹ 09 جنوری 2021 09:16pm

بلوچستان میں مچھ کے مقام پر کان کنوں کے قتل پر ہزارہ برادری کے ملک گیر احتجاج اور سیاسی دباؤ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر سوگواروں پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے حملے میں جاں بحق کان کنوں کی لاشوں کو دفنا دیں۔

دفنانے سے متعلق بیان تمام سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سامنے آئے لیکن وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آج اپنے خطاب کے دوران لفظوں کا انتخاب ان کے لیے شدید تنقید باعث بن گیا۔

اسلام آباد میں اسپیشل اکنامک زونز اتھارٹی کی لانچنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مچھ واقعے پر کہا کہ ہم نے ہزارہ برادری کے تمام مطالبات مان لیے ہیں لیکن کسی بھی وزیراعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کیا جاتا کہ آپ آئیں گے تو ہم تدفین کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ شاید سب سے زیادہ ظلم ہزارہ برادری کے لوگوں پر ہوا، خاص طور پر گزشتہ 20 برسوں میں 11 ستمبر 2001 کے بعد ان کے اوپر دہشت گردی، ظلم اور قتل کیا گیا وہ کسی اور برادری پر نہیں ہوا۔

وزیر اعظم کے سخت جملوں کے نتیجے میں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے تنقید کی اور پاکستان میں ٹوئٹر پر #ApatheticPMIK ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

وزیر اعظم کے تازہ تبصروں پر کچھ ردعمل مندرجہ درج ذیل ہیں:

صحافی اور ڈان اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین نے وزیر اعظم کے بیان پر کہا کہ 'بہت ہی نامناسب الفاظ کا انتخاب'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کی فریمنگ میں ہمدردی کا فقدان ہے اور جو پہلے ہی سانحہ سے تباہ حال ہیں ان کی توہین کی جائے'۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے الفاظ واپس لینا چاہیے۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ گیارہ لاشوں نے اپنی تدفین سے پہلے اُس 'احساس' کو دفن کر دیا جو ایک خصوصی پروگرام کی صورت میں بڑے بڑے دعووں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'جو لوگ لاشوں کے ساتھ دھرنے میں بیٹھے ہیں وہ تو خود کسی لاش سے کم نہیں وہ کسی کو کیا بلیک میل کریں گے'۔

مصنف اور کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ حکومت نے دراصل تجویز دی ہے کہ 'ایک محصور برادری کی جانب سے ہمدردی کی مانگ دراصل بلیک میل کرنے کے مترادف ہے'۔

تجزیہ کار اور کالم نگارشریف زیدی نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنے ریمارکس کے ذریعے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کی طرف سارا ملبہ گرادیا۔

انہوں نے طنزیہ کہا کہ کتنی بڑی بات چیت ہے، کیا ہمدردی ہے، وزیر اعظم کے لیے کتنا عمدہ نظارہ ہے۔ صحافی صائمہ محسن نے بھی عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہزارہ برداری کو بلیک میل کررہے ہیں اور انہیں 'کرپٹ سیاستدانوں' کی صف میں کھڑا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'کون انہیں مشورہ دے رہا ہے اور خود ان کا اپنا ضمیر کہاں ہے؟'

مصنف سجاد ایچ چنگیزی نے وزیر اعظم کے ریمارکس پر احتجاج کے لیے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔

صحافی اور ٹی وی کے میزبان ضرار کھوڑو نے ٹوئٹ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے تبصرے میں 'رتی بھر ہمدردی نہیں۔ صرف نرگسیت معلوم ہوتی ہے، 2012 کے سخت لہجے میں کیا کمی ہے۔

کالم نگار عمیر جاوید نے کہا کہ وزیر اعظم ان کا بیان 'واقعی سنگدل' ہے 'ہمدردی کی بھی توثیق نہیں کر سکتے'۔

ممتاز عالم دین علامہ شاہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ عمران خان نے مظلوموں کے سامنے ڈٹ گئے۔

وکیل اور کارکن جبران ناصر نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اکثر تدفین کے لیے گھر کے بڑے کا انتظار کیا جاتا ہے مگر ہمارے گھر کا بڑا اتنا کم ظرف ہے کہ اسے یہ انتظار بلیک میل لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'تم پر دوسرا اور کوئی کیا الزام ثابت کرے وزیراعظم @ImranKhanPTI تم تو اب خود اپنا اصلی چہرہ عوام کو دکھا دیا۔

صحافی اور اینکر ثنا بوچا نے کہا کہ بے جان جسموں سے وہ لوگ بلیک میل ہوتے ہیں جو زندہ ہوں

پالیسی تجزیہ کار اور مواصلات کے مشیر داوڑ بٹ نے وزیر اعظم عمران کا موازنہ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جیکنڈا آرڈرن سے کیا جنہوں نے 2019 کے مسجد حملوں کے فورا بعد ہی کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ جیکنڈا آرڈرن کو بلیک میل ہوگئیں لیکن ہم نہیں ہوں گے۔

فلمساز اور صحافی حسن زیدی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعظم ‘معیشت کا انتظام نہیں کر سکتے، حکمرانی نہیں کر سکتے، اب وہ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اصل نقطہ نظر کیا ہے مجھے دوبارہ یاد دلائیں؟