Dawnnews Television Logo

عہدِ کورونا میں فضائی صنعت کی بپتا

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایئر بلو کی کراچی سے لاہور پرواز کا کرایا 4500 روپے تھا، یہ ٹکٹ وبا سے قبل تقریباً 36 ہزار روپے کا تھا۔
شائع 10 مارچ 2022 10:58am

سفر کو بہت سے کہانی نویسوں نے ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کردار عموماً جسمانی سفر پر نکلتے ہیں اور اس دوران روحانی سفر بھی کرلیتے ہیں۔ سفر کے نتیجے میں ان کی دنیا یا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔

کورونا کی کہانی بھی سفر اور خاص طور سے فضائی سفر کے بغیر نہیں سنائی جاسکتی۔ اس کا آغاز چین سے ہوا اور بے خبر مسافروں کی وجہ سے یہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔ سال 2020ء میں قمری سال کا جشن منانے کے لیے لاکھوں افراد نے ووہان سے باہر سفر کیا، تاہم ان کا جشن ماند پڑگیا۔ ووہان میں جشن شروع ہونے سے محض 2 روز قبل ہی سخت پابندیاں لگا دی گئی تھیں لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا، مگر یہ تو کہانی کا آغاز ہی تھا۔

نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی کہ ہزاروں لوگ ووہان سے دنیا بھر میں سفر کرتے اور سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں نیویارک اور سڈنی شامل ہوتے۔ نیویارک میں ہر ماہ 900 لوگ اور 2 ہزار 200 افراد سڈنی کا رخ کرتے۔ یہی نہیں بلکہ سب سے مقبول مقام تو بینکاک ہوتا جہاں 15 ہزار افراد جاتے۔ یہی وہ شہر تھا جہاں جنوری کے وسط میں چین سے باہر کورونا کے پہلا کیس سامنے آیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تحقیق کے مطابق کورونا سے متاثرہ تقریباً 85 فیصد مسافروں کی تو شناخت ہی نہیں ہوسکی لیکن پھر بھی وہ کسی دوسرے کو وائرس لگا سکتے تھے۔

وائرس کے پھیلنے کا سلسلہ جاری رہا اور لاک ڈاؤن اور سفری پابندیوں کا آغاز ہوگیا۔

جس دوران دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹ ویران تھے اس دوران پاکستان میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی کہ آگے کیا کیا جائے۔ لیکن اس دوران غیر ملکی مسافر پاکستان آتے رہے۔

ہم شاید یہ کہنا چاہیں کہ باقی جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ایک جاری حقیقت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فضائی صنعت اب تک اس وبا کے تباہ کن اثرات کا شکار ہے۔

اگرچہ گزشتہ 2 سال سے دنیا کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں تاہم سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا فضائی صنعت نے کیا ہے۔ وائرس کی ابتدا میں جب معمولاتِ زندگی متاثر ہونا اور لاک ڈاؤن لگنا شروع ہوئے تو فضائی کمپنیوں نے اپنے جہاز گراؤنڈ کردیے۔ گلف ایئر لائنز نے اپنے ملازمین کو برخاست کردیا کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ دیگر ممالک میں جہاں وبا کے درمیان ملازمین کو نوکری سے برخاست کرنا ممکن نہیں تھا وہاں عملے کو چھٹی پر بھیج دیا گیا یا عارضی طور پر نوکری سے نکال دیا گیا۔

ایک موقع پر تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ دبئی ورلڈ سینٹرل ایئرپورٹ جو عالمی سطح پر ایوی ایشن حب بننے کی جانب گامزن تھا وہاں سوائے چند کارگو ایئر لائنز کے کوئی فلائٹ نہیں آئی۔ وائرس کے باعث لوگ اپنے گھروں میں بند تھے اور اس وجہ سے ایئر لائز کے سامنے ایک بڑی مشکل آگئی، یہ مشکل تھی اتنے جہازوں کو پارک کرنے کی۔ یوں جہازوں کو رن ویز، ٹیکسی ویز اور ویران ایئر فیلڈز میں پارک کیا گیا۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر سینیٹیشن کا عمل—تصویر:محمد عاصم/ وائٹ اسٹار
اسلام آباد ایئرپورٹ پر سینیٹیشن کا عمل—تصویر:محمد عاصم/ وائٹ اسٹار

یہ کام آسان بھی نہیں تھا۔ 2020ء کے موسمِ گرما میں لفتھانسا ایئر لائن نے اپنے 6 بوئینگ 400-747 ایس کو ایک چھوٹے سے ڈچ ایئرپورٹ ٹوئٹے ایئرپورٹ پر پارک ہونے کے لیے بھیج دیا۔ تاہم ایک سال بعد یہ طیارے واپس مانگے گئے تو نیدر لینڈ کے ہیومن انوائرمنٹ اینڈ ٹرانسپورٹ انسپیکٹوریٹ نے کہا کہ ایئر پورٹ کا انفرااسٹرکچر اتنے بڑے جہاز کے ٹیک آف کے قابل نہیں ہے۔ بہرحال ایک خصوصی معاہدے کے تحت ان جہازوں کو ٹیک آف کی اجازت ملی۔

پاکستان میں مارچ 2020ء میں اس وقت پروازیں معطل ہونا شروع ہوئیں جب حکومت نے سخت اقدامات کے تحت فضائی سفر پر پابندی عائد کردی۔ ایئر بلو وہ پہلی پاکستانی ایئر لائن تھی جس نے اپریل 2020ء میں اپنی پروازیں مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) اور سرین ایئر نے بھی ایسا ہی کیا۔

بعد ازاں سرین ایئر اور پی آئی اے نے سخت حفاظتی قوانین کے تحت اپنا فلائٹ آپریشن رفتہ رفتہ دوبارہ بحال کیا، اس وقت ایئر لائنز کے کیبن کریو کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ جہاز کے بجائے کسی آپریشن تھیٹر میں جارہے ہیں۔ پاکستان کی ایک نئی ایئر لائن ایئر سیال نے بھی پہلے تو اپنے آغاز کو مؤخر کیا اور پھر دسمبر 2020ء میں فلائٹ آپریشن کا آغاز کیا۔

گزشتہ 2 سال عالمی فضائی صنعت کے لیے بہت سخت تھے۔ ویکسینیشن، بوسٹر خوراک اور اضافی تحقیق سے اس صنعت کی بحالی میں مدد ملی ہے۔ لیکن ویکسین لگوانے میں جھجھک، وائرس کی نئی اقسام اور ایئر لائنز پر پڑنے والا معاشی دباؤ مستقبل میں مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

جب وقت اڑنے سے انکار کردے

سیکریٹری ایوی ایشن اسلام آباد ایئرپورٹ پر اسکریننگ انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے—محمد عاصم/وائٹ اسٹار
سیکریٹری ایوی ایشن اسلام آباد ایئرپورٹ پر اسکریننگ انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے—محمد عاصم/وائٹ اسٹار

چونکہ دنیا بھر کی ایئر لائنز کورونا وائرس کے اثرات کا شکار تھیں اس وجہ سے حکومتوں نے فرلو اسکیموں میں توسیع اور ایئر لائنز کے واجبات معاف کرکے ان ایئر لائنز کی مدد کی، کچھ ممالک نے تو ایئر لائنز کو سرکاری مدد بھی فراہم کی۔ تاہم پاکستانی ایئر لائنز حکومت کی جانب سے ایسی کسی بھی مدد سے محروم رہیں۔

ایک نجی ایئر لائن کے سینیئر ملازم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس تھی‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وبا کے دوران معمول کے امور بھی مشکل ہوگئے اور ان میں تاخیر ہونے لگی۔

کورونا وبا سے پہلے بھی اس صنعت سے وابستہ افراد مایوسی کا شکار تھے۔ قومی ایئر لائن ویسے ہی جون 2020ء میں اسمبلی میں کی گئی تقریر کی قیمت ادا کررہی تھی جس کے بعد یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پی آئی اے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک میں فلائٹ آپریشن پر پابندی عائد کردی۔

اور جب کہ پی آئی اے کورونا سے متعلق پالیسیوں سے قطع نظر، یورپی یونین کے رکن ممالک میں فلائٹ آپریشن سے قاصر تھی اس دوران وبائی مرض نے مالی تحفظ کا احساس بھی چھین لیا۔ پاکستانی کی فضائی صنعت سعودی عرب کی پروازوں پر ہی چلتی ہے۔ یہ روٹ تمام ہی بین الاقوامی پاکستانی ایئر لائنز کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش روٹ ہے۔ تاہم 2020ء کے دوران بین الاقوامی مسافروں کو حج کی ادائیگی سے بھی روک دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان سے عمرہ پروازیں بھی نہیں جارہی تھیں۔

خلیج میں کام کرنے والے مزدور جو عموماً خلیجی ممالک اور پاکستان کے درمیان سفر کرتے تھے انہیں بھی یکطرفہ ٹکٹ پر گھر بھیج دیا گیا جس سے ایئر لائنز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ معاملات اس حد تک خراب ہوگئے تھے کہ کچھ لوگوں کے مطابق تو اس سے نمٹنے کے لیے پی آئی اے کی صلاحیت کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

اپریل 2020ء میں پاکستان کے سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے ایئر لائنز کو کورونا سے پہلے کے شیڈول کی 60 فیصد پروازیں چلانے کی اجازت دے دی۔ ایئر لائنز نے صرف 40 سے 45 فیصد گنجائش کے ساتھ اندرونِ ملک پروازوں کا آغاز کیا اور باقی سیٹیں خالی رکھیں۔ یہ ایک اور مالی مسئلہ تھا کیونکہ ایئر لائنز ویسے بھی اندرونِ ملک پروازوں سے زیادہ نہیں کماتیں۔ لیکن چونکہ عملے کو ویسے بھی تنخواہیں دی جارہی تھیں اور جہازوں کی لیز کی رقم بھی باقاعدگی سے ادا کی جارہی تھی اس وجہ سے فلائٹ آپرشن شروع کرنا مالی طور پر ایک درست فیصلہ تھا۔

ایئر بلو نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے پاس کھڑے 10 طیاروں سے کام لینا شروع کردیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایئر بلو کراچی اسلام آباد روٹ پر روزانہ 5 اور کراچی لاہور روٹ پر روزانہ 4 پروازیں چلارہی تھی۔ ان پروازوں کے کرائے بھی بہت کم تھے اور ان کا آغاز 4 ہزار 500 روپے سے ہورہا تھا (وبا سے قبل یہی یکطرفہ ٹکٹ تقریباً 36 ہزار روپے کا تھا)۔ اس سے قیمتوں میں ایک مقابلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے ناصرف مسافروں کو فائدہ ہوا بلکہ اس سے ایئر لائنز کو ضروری کیش فلو بھی فراہم ہوا۔

اندرونِ ملک پروازوں کے علاوہ پی آئی اے نے دنیا بھر میں پھنسے پاکستانیوں کو بھی وطن واپس لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ ایک طویل مرحلہ تھا جس میں امریکا اور آسٹریلیا سمیت کئی ایسے ممالک سے بھی پاکستانیوں کو ملک واپس لایا گیا جہاں پی آئی اے کا جہاز پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔ ان جہازوں پر کئی کریو اراکین ہوتے تھے تاکہ پرواز کریو کو اتارے بغیر واپس آسکے۔

بلآخر بین الاقوامی فضائی سفر پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی ہوگئی۔

ناکام آغاز

نیپالی کوہ پیما اسلام آباد ایئرپورٹ پر—تصویر: محمد عاصم/وائٹ اسٹار
نیپالی کوہ پیما اسلام آباد ایئرپورٹ پر—تصویر: محمد عاصم/وائٹ اسٹار

احتیاط اور ہچکچاہٹ کے ساتھ بین الاقوامی فضائی سفر شروع تو ہوا لیکن ایئر لائنز کی مشکلات حل نہ ہوئیں۔ ایئر لائنز اور خاص طور سے کیش سے محروم ایئر لائنز کے لیے قرنطینہ پابندیوں کے اخراجات ایک بڑا چیلنج تھے۔ ان اخراجات میں واپسی پر قرنطینہ کے لیے مخصوص ہوٹلوں میں طویل دورانیے تک ٹھہرنے کے اخراجات بھی شامل تھے۔ ’ڈاؤن ٹائم کے دوران‘ عملے کو ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے رہنے کے پیسے دیے جاتے تھے۔ جو پائلٹ جہاز اڑا کر کسی غیر ملکی ایئرپورٹ تک لے جاتے وہ 2 ہفتے کے قرنطینہ کے بعد ہی دوبارہ جہاز اڑا سکتے تھے۔

اس کے علاوہ آغاز میں تو ایئر لائنز کو صرف 60 فیصد مسافر ہی لے جانے کی اجازت تھی اور باقی سیٹیں خالی رکھی جاتی تھیں جبکہ صرف 20 فیصد پروازیں چلانے کی ہی اجازت دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ناصرف پروازوں اور مسافروں کی تعداد کم ہوئی بلکہ آمدن میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا کیونکہ کرائے وہی تھے جو کورونا سے پہلے تھے۔

کرایوں میں بالآخر اضافہ ہوا۔ اس وبا نے فضائی سفر کو کئی طریقوں سے تبدیل کردیا ہے، سب سے اہم تبدیلیوں میں سے ایک بین الاقوامی سفر کی قیمت میں ہونے والا اضافہ ہے۔ سخت قرنطینہ کا مطلب یہ تھا کہ مسافروں کو ہوٹلوں کے کرائیوں پر ہزاروں ڈالر اضافی خرچ کرنے پڑتے تھے جس کے بعد ہی وہ اپنی منزل پر قدم رکھ کر سکون کی سانس لے سکتے تھے (اپنے ماسک کے پیچھے سے)۔

کورونا وائرس کی ایک کے بعد ایک لہر کی وجہ سے یہ پابندیاں بھی تبدیل ہوگئیں۔ کورونا کے کیس بڑھنے پر قرنطینہ کی شرائط بھی سخت کردی جاتیں اور مسافر اپنی پرواز تبدیل کروانے بھاگتے تاکہ نئی پابندیوں کے نافذ ہونے سے پہلے سفر کرسکیں۔

پھر یہ پابندیاں یکساں بھی نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب نے پاکستان کو ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کیا ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستانی مسافر پہلے کسی ’تیسرے ملک‘ جاکر قرنطینہ پورا کریں اور وہاں کے ویزا اور ہوٹل کے لیے اضافی رقم خرچ کریں اور اپنے سفر کو طویل کریں۔

اس کے نتیجے میں پی آئی اے نے بشکیک اور کرغزستان تک پرواز کی اجازت لی۔ کچھ دن بعد جب شارجہ کو ’محفوظ‘ شہر تصور کیا جانے لگا تو پی آئی اے نے 300 سے زائد سیٹوں والے جہازوں کو شارجہ کے لیے مختص کردیا جہاں 180 سیٹوں والے اے 320 کو لے جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان ان پابندیوں کے صرف نقصانات اٹھانے والے ممالک میں ہی شامل رہا۔

لندن کا ہیتھرو ایئرپورٹ—تصویر: رائٹرز
لندن کا ہیتھرو ایئرپورٹ—تصویر: رائٹرز

دوسری جانب پاکستان میں ان غیر ملکی ایئر لائنز کے لیے دروازے کھولے دیے گئے جو ان ممالک سے آرہی تھیں جہاں کورونا کی ڈیلٹا قسم تیزی سے پھیل رہی تھی۔ دسمبر 2020ء سے جنوری 2021ء تک ہزاروں مسافروں کو برطانیہ سے پاکستان آنے کی اجازت دی گئی جن کی بڑی تعداد برٹش ایئر ویز اور ورجن اٹلانٹک کے ذریعے پاکستان آئی تھی۔ ان مسافروں کی اکثریت کسی ہنگامی دورے پر نہیں آرہی تھی بلکہ یہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔

پی آئی اے کے ایک سینیئر ملازم نے ایسے فیصلوں کے بارے میں الجھن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) برطانوی ایئر لائنز پر اس قدر مہربان کیوں تھے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی تو برطانیہ فوری طور پر پاکستان پر سفری پابندی لگا دیتا۔

سال 2021ء میں کچھ اچھی خبریں بھی فضائی راستے سے پاکستان پہنچیں۔ جیسے جیسے دنیا بھر میں ویکسینیشن پروگرام شروع ہوئے تو پی آئی اے کی خصوصی پروازوں کے ذریعے چین سے ویکسینز پاکستان پہنچیں۔ امریکا جیسے دیگر ممالک کی جانب سے عطیہ کی گئی ویکسینز بھی کوویکس پروگرام کے تحت پاکستانی آتی رہیں۔

ویکسین نے فضائی سفر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ لیکن یہ دور اپنے ساتھ مختلف تقاضے لے کر آیا جیسے کہ پی سی آر (پولیمریز چین ری ایکشن) ٹیسٹ۔ کچھ ممالک میں مسافروں کو ٹیسٹ کروانے کے لیے پرواز سے کئی گھنٹے پہلے ہوائی اڈوں پر پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پھر بھی یہ ایک اچھی خبر ہی ہے کہ فضائی سفر دوبارہ بحال ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے سال 2022ء کورونا کے اومیکرون ویرینٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ شروع ہوا۔ جس دوران دنیا بھر میں لوگ کرسمس پر اپنے پیاروں سے ملنے کی تیاریاں کررہے تھے اس دوران دسمبر 2021ء کے آخری ہفتے میں تقریباً 8 ہزار پروازیں منسوخ ہوئیں۔

یہ نئی قسم بہت تیزی سے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلی۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کے بیان کے مطابق اس سے بہت زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ بیان میں کہا گیا کہ ’اگرچہ اومیکرون قسم دیگر تمام حالات میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود جہاز کے کیبن ’اس حوالے سے کم خطرناک ہیں‘۔

ایسا لگتا ہے کہ کچھ پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں، یورپی یونین کے رکن ممالک نے کورونا سے متعلق سفری قوانین کے اطلاق کے طریقے کو تبدیل کرنے کی سفارش کی ہے۔

یورپین کونسل کے بیان کے مطابق نئی تجاویز کے تحت کورونا سے متعلق اقدامات کے نفاذ میں کسی خطے کی صورتحال کے بجائے افراد کی صورتحال کو دیکھا جائے۔ تاہم ’جن علاقوں میں وائرس بہت تیزی پھیل رہا ہوگا‘ وہاں اس طریقے پر عمل نہیں کیا جائے۔

امید ہے کہ اس کے نتیجے میں ان پاکستانی مسافروں کے لیے اچھی خبر آئے گی جو ویکسین لگوا چکے ہیں۔

وہ مواقع جو ضائع ہوگئے

شاہ خالد ایئرپورٹ، ریاض—تصویر: رائٹرز
شاہ خالد ایئرپورٹ، ریاض—تصویر: رائٹرز

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وبا عالمی فضائی صنعت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے، لیکن پاکستان میں فضائی صنعت کی موجودہ حالت کا ذمہ دار صرف اس وبا کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ایئر لائن کے ملازمین کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت جس خرابی کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے۔ ایک ملازم نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے متعدد ہوائی اڈے اب رن وے کی اپ گریڈیشن کے کام سے گزر رہے ہیں۔ اگرچہ پائلٹ اور عملہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کام بہت اہم ہے، لیکن وہ حیران ہیں کہ یہ کام ان مہینوں میں کیوں نہیں کیا گیا جب ہوائی اڈے عملی طور پر غیر فعال تھے۔

گزشتہ سال افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک اور مثال سامنے آئی۔ کابل یا اسلام آباد سے ہزاروں افغانوں کو نکالنے کے لیے دنیا بھر سے ایئر لائنز پاکستان آئیں۔ اس دوران ہماری ایئر لائنز مسابقتی قیمتیں فراہم کر سکتی تھیں اور ان پروازوں سے ضروری آمدنی حاصل کرسکتی تھیں لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں۔

یقیناً صرف قیمتوں کے تعین کا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک (محتاط) اندازے کے مطابق افغان مسافروں کو یورپ پہنچانے کے لیے 50 پروازیں پاکستان آئیں اگر پاکستانی ایئر لائنز ان مسافروں کی نصف تعداد کو بھی پاکستان کے راستے یورپ پہنچاتیں تو اس سے لاکھوں ڈالر کی آمدن ہوتی۔

ایک نجی ایئر لائن کے افسر کا کہنا تھا کہ ’ہم اسلام آباد ایئرپورٹ پر بیٹھے مختلف ممالک کے رنگ برنگے جہازوں کو آتے اور مسافروں کو لے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے لیکن ہم خود کچھ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ہمیں [یورپ جانے کی] اجازت نہیں تھی‘۔

دنیا بھر میں ایئر لائنز کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب حالات دوبارہ بہتری کی جانب جارہے ہیں۔

کئی ایئر لائنز کو وبا سے نمٹنے کے لیے اپنے عملے کی تعداد کم کرنا پڑی۔ ایمیریٹس ایئر لائنز کے پاس پہلے ہی کاکپٹ اور کیبن کریو کم تھا لیکن پھر بھی اس نے وبا کے آغاز میں ہی عملے کے کئی ارکان کو نکال دیا۔ اس ایئر لائن کے پاس موجود ایئر بس اے 380 کا مکمل بیڑا گراؤنڈ ہوچکا تھا اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید یہ دوبارہ اڑان نہ بھر سکے۔ تاہم اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایمیریٹس، قطر اور برٹش ایئرویز اپنے فضائی بیڑے کو فعال کررہے ہیں۔

پاکستان میں نقصانات بنیادی طور پر کم آمدنی، منسوخی کے اخراجات، لیز، سود کی ادائیگی اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے ہوئے۔ پھر افرادی قوت کو برقرار رکھنے کی بھی ایک قیمت تھی۔ یہ اخراجات دیگر ممالک میں بھی تھے لیکن بہت سے ممالک میں ایئر لائنز نے انہیں حکومتی تعاون سے برداشت کرلیا تاہم پاکستان میں ایئر لائنز نے ان اخراجات کو اپنے بل بوتے پر ہی برداشت کیا۔ مثال کے طور پر ایئر بلو نے تنخواہوں میں کمی کی اور اس ضمن میں سینیئر عملے کی تنخواہوں میں 40 فیصد تک کٹوتی ہوئی۔

چونکہ ایئر لائنز اب تک کوسٹ ایڈجسٹمنٹ سے فائدہ اٹھارہی ہیں اس وجہ سے ان کی آمدن بہتر ہوئی ہے۔ پی آئی اے نے اس موقع کو ناصرف تنخواہوں کے نظام کو بہتر کرنے بلکہ افرادی قوت کے مناسب انتظام کے لیے بھی استعمال کیا۔ ایئر لائن نے رضاکارانہ علیحدگی کی اسکیم (وی ایس ایس) متعارف کروائی جس سے عملے میں 2 ہزار افراد کی کمی ہوئی۔

جب پی آئی اے کے عملے کے ایک رکن سے وبا کے ابتدائی 2 سالوں کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایئر لائن نے بمشکل ہی وہ وقت گزارا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسی ایئر لائن جو دیوالیہ ہے اس کے تناظر میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے واپسی کی پروازوں سے ہونے والی کثیر آمدن سے ابتدائی خسارے پر قابو پایا، لیکن اب ہمارے سامنے اپنے بیڑے کو دوبارہ فعال کرنے کا بڑا ہدف موجود ہے لیکن ہمارے پاس ان جہازوں کی مرمت اور ان میں جدت لانے کے لیے نہ ہی وقت ہے اور نہ ہی پیسہ‘۔

(دوبارہ) اڑنے کی کوشش

ڈاکٹر فیصل سلطان نور خان ایئربیس پر چین سے آنے والی کورونا ویکسین وصول کرتے ہوئے—تصویر:تنویر شہزاد/وائٹ اسٹار
ڈاکٹر فیصل سلطان نور خان ایئربیس پر چین سے آنے والی کورونا ویکسین وصول کرتے ہوئے—تصویر:تنویر شہزاد/وائٹ اسٹار

دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کی طرح پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بھی کورونا وائرس کو نئے معمول کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اومیکرون نے پھیلنا شروع کیا تو ایئر لائنز نے سخت پابندیاں نہیں لگائیں اور عبداللہ حفیظ خان کے خیال میں یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ فضائی صنعت نے وائرس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اومیکرون اس خیال کا اصل امتحان تھا، آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس مرتبہ 2020ء جیسی افراتفری نظر نہیں آئی۔ یعنی ایئر لائنز خود کو نئی صورتحال کے مطابق ڈھال رہی ہیں اور اپنے فضائی بیڑے کو فعال کررہی ہیں‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی آئی اے، ای اے ایس اے کی جانچ پڑتال کے لیے تیار ہے تاکہ اسے یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن بحال کرنے کی اجازت مل سکے۔ وہ پُرامید ہیں کہ اس ضمن میں بہت جلد کچھ اہم پیشرفت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان طیاروں کے فلائٹ ٹیسٹ کرنے میں مصروف ہیں جو ایک عرصے سے استعمال نہیں ہورہے تھے۔ ہمیں امید ہے کہ سعودی عرب کے لیے پروازوں کی بحالی سے ایئر لائن کو ضروری مدد ملے گی‘۔

اس مضمون کے لیے ایئر لائنز کے جن افسران کے انٹرویو کیے گئے وہ پُرامید تھے کہ رواں سال کی تیسری سہ ماہی سے حالات کورونا سے پہلے والی سطح پر جانا شروع ہوجائیں گے۔

جیسے جیسے ہم کورونا کے تیسرے سال میں داخل ہورہے ہیں ویسے ویسے عالمی رہنماؤں سے سفری پابندیوں پر نظرثانی کرنے کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے آئی اے ٹی اے نے زور دیا کہ حکومتوں کو سفری پابندیوں میں تیزی سے نرمی کرنی چاہیے کیونکہ اب کورونا کے اثرات میں بھی کمی آرہی ہے۔ اس تنظیم نے ان لوگوں کے لیے قرنطینہ اور ٹیسٹنگ سمیت سفری پابندیوں کو ختم کرنے پر زور دیا جنہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منظور شدہ ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی تھی کہ ممالک کورونا سے متعلق سفری پابندیوں میں نرمی یا انہیں ختم کرسکتے ہیں۔

عالمی فضائی صنعت تو اب دوبارہ سے اڑان بھر رہی ہے۔ اس تناظر میں ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی فضائی صنعت بھی پھلے پھولے اور خود کو اس نئی دنیا کے مطابق ڈھال لے۔


یہ مضمون 30 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔