ملک میں ’کنگز‘ اور ’کنگ میکر‘ پارٹیوں کے بننے اور بکھرنے کی داستان

پاکستان میں سیاسی جماعت کا قیام تو قدر آسان ہے لیکن اس کی عوامی سطح پر پذیرائی ایک انتہائی کٹھن عمل ہے۔ اسی وجہ سے کئی سیاسی جماعتیں قائم تو رہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ 'تانگہ پارٹی' بن گئیں۔
اپ ڈیٹ 14 جون 2023 10:36am

پاکستان میں سیاسی جماعت کا قیام تو قدرے آسان ہے لیکن اس کی عوامی سطح پر پذیرائی ایک انتہائی کٹھن عمل ہے۔ اسی وجہ سے کئی سیاسی جماعتیں قائم تو رہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ’تانگہ پارٹی‘ بن گئیں۔

سیاست دانوں اور جرنیلوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سیاسی جماعتیں تو بنائی لیکن ان میں سے بڑی تعداد کو عوامی سطح پر کوئی کامیابی نہ مل سکی بلکہ یہ جماعتیں صرف الیکشن کمیشن کے رجسٹریشن ریکارڈ کا حصہ بننے کے سوا کوئی خاص کام نہ کرسکیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب فہرست کے مطابق کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد 168 ہے۔

گزشتہ دنوں لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک نئی سیاسی جماعت کا جنم ہوا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی نامی یہ جماعت وہ دوسری سیاسی جماعت ہے جس کا باضابطہ اعلان کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا۔ اس سے پہلے 1997ء میں سابق صدر سردار فاروق خان لغاری نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے اپنی سیاسی جماعت ملت پارٹی کی بنیاد بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھی تھی۔ اتفاق سے اُس وقت بھی یہی ہوٹل اور یہی ہال تھا۔

البتہ ملت پارٹی کو کنگز پارٹی نہیں کہا جاسکتا ہے جیسے استحکام پاکستان کے بارے میں ایک عمومی رائے ہے۔ ملک میں کنگز پارٹی کی نہ تو اصطلاح کوئی نئی ہے اور نہ ہی اس کا تجربہ نیا ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا عمل شروع ہوگیا۔ اس پر مرحلہ وار کام ہوا اور شروع میں مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے یا اس سے ناراض رہنماؤں نے ایک ہم خیال گروپ بنایا جسے مسلم لیگ ہم خیال کا نام دیا گیا لیکن جلد ہی وہ ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہوا۔ شروع میں اس مسلم لیگ کے کرتا دھرتا سابق گورنر پنجاب میاں اظہر رہے پھر اس گجرات کے چوہدری بردارن یعنی چوہدری شجاعت حسین نے اس کی باگ ڈور سنبھال لی۔

   مسلم لیگ (ق) کے رہنما میاں اظہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے— تصویر: ڈان
مسلم لیگ (ق) کے رہنما میاں اظہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے— تصویر: ڈان

اس طرح مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ قائد اعظم یعنی (ق) لیگ وجود میں آئی۔ اس کنگز پارٹی نے 2002ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پیپلز پارٹی کے 10 ارکان کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنالی۔ پیپلز پارٹی کے الگ ہونے والے 10 ارکان نے اپنے گروپ کو پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا نام دیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے راؤ سکندر اقبال وزیر دفاع اور سید فیصل صالح حیات وزیر داخلہ بن گئے۔

اسے ایک اتفاق کہیں یا پھر نام کی کرامات کہ جنرل پرویز مشرف کے علاوہ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق نے بھی سرکاری سطح پر جس سیاسی جماعت کی سرپرستی کی وہ مسلم لیگ ہی تھی۔ البتہ ان کے ساتھ لاحقے مختلف رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں اسے مسلم لیگ کنونشن تو جنرل ضیا الحق کے دور میں صرف پاکستان مسلم لیگ ہی کہا گیا۔

جنرل ضیا الحق کے بعد مسلم لیگ تقسیم در تقسیم ہوئی۔ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ جونیجو ، مسلم لیگ جناح اور پھر مسلم لیگ ضیا وجود میں آئیں۔ اس سب کے علاوہ پہلے سے موجود مسلم لیگ فنکشنل بھی قائم ہے۔

جنرل ایوب خان نے مسلم لیگ کنونشن تخلیق کی جس کے مقابلے میں مسلم لیگ کونسل رہی۔ پھر پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ سامنے آئی اور اس کے ایک رکن محمد خان جونیجو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم بنے اور پھر ایک اور مسلم لیگ وجود آئی۔ 1992ء میں مسلم لیگ (ن) کی داغ بیل ڈالی گئی اور پھر اس نے 1993ء میں انتخابات میں حصہ لیا۔ اس سب کے علاوہ سیاست دان ملک قاسم اپنے نام سے ایک مسلم لیگ یعنی مسلم لیگ (قاسم) کے ذریعے سیاست میں متحرک رہے۔

  1992ء میں مسلم لیگ (ن) کی داغ بیل ڈالی گئی— تصویر: حسن بوزئی
1992ء میں مسلم لیگ (ن) کی داغ بیل ڈالی گئی— تصویر: حسن بوزئی

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) کا ظہور ہوا تھا لیکن عہدے سے الگ ہونے کے بعد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کا حصہ رہنے والے سیاست دان شیخ رشید احمد نے اپنی خود کی جماعت عوامی مسلم لیگ قائم کی۔

  سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ قائم کی
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ قائم کی

کسی ایک سیاسی جماعت کے زیر عتاب آنے پر اس کی تقسیم بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد پیپلز پارٹی براہ راست نشانے پر تھی۔ پیپلز پارٹی سے بھی اس کے جانے مانے رہنما الگ ہوئے بلکہ نئے نام سے پیپلز پارٹی کا دوبارہ جنم ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر جب کڑا وقت آیا تو ان کے قریبی ساتھی اور اُن کی کابینہ کے ارکان اُن کا ساتھ چھوڑ گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے رکن مولانا کوثر نیازی نے علیحدگی اختیار کرکے پروگریسو پیپلز پارٹی پارٹی بنائی۔ پھر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے لاہور میں مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس طرح 1986ء میں پیپلز پارٹی کے دو اہم اور بڑے نام سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفٰی جتوئی اور سابق گورنر غلام مصطفٰی کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی۔

    مولانا کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلز پارٹی پارٹی قائم کی
مولانا کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلز پارٹی پارٹی قائم کی

پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر میں کئی دھڑے بنے۔ ان میں ایک دھڑا بے نظیر بھٹو کے بھائی نے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے نام سے بنایا۔ اس کے علاوہ زیڈ اے شہید بھٹو کی بنیاد پیپلز پارٹی کے ایک رہنما رانا شوکت محمود نے رکھی جس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پرانے رہنما شریک ہوئے لیکن بعد میں یہ پارٹی شہید بھٹو میں ضم ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے پیٹریاٹ اور شیر پاؤ کے لاحقہ سے بھی دو دھڑے وجود میں آئے۔ 2002ء میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن کی کسی قسم کی تادیبی کارروائی سے محفوظ رہنے کے لیے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین تشکیل دی اور اسی نئے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کروائی تاکہ سال 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں۔ پیپلز پارٹی اب بھی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے بیک وقت دو عہدے رکھنے یعنی صدر مملکت اور پارٹی صدارت رکھنے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے روبرو درخواست کی سماعت کے دوران آصف علی زرداری کے وکیل اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے یہ بیان دیا تھا کہ اب پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت نہیں رہی اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ صرف پیپلز پارٹی پارلیمٹرین ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور صدر آصف علی زرداری کے پاس اس کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔

1970ء کی دہائی میں سیاست میں قدم رکھنے والی ایک شخصیت ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں زیادہ سیاسی جماعتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ لیکن ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی سیاسی زندگی میں دو جماعتیں بنائیں۔ انہوں نے پہلے جسٹس پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور پھر اسے دیگر 3 سیاسی جماعتوں کے ساتھ ضم کرکے نئی سیاسی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی بنالی۔ اس اتحاد میں سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی جماعت نظام اسلام پارٹی، سابق ڈپٹی وزیراعظم نور الامین کی قومی محاذ اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی عوامی لیگ اس سیاسی جماعت کا حصہ تھے اس پارٹی کی صدارت بعد میں نواب زادہ نصر اللہ خان کو مل گئی۔

  ایئر مارشل اصغر خان— فائل فوٹو
ایئر مارشل اصغر خان— فائل فوٹو

ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے پھر نئی جماعت تحریک استقلال قائم کی یہ جماعت کبھی انتخابات میں کامیاب تو نہیں ہوئی البتہ اس جماعت سے نواز شریف نے دیگر مشہور شخصیات نے سیاست شروع کی جبکہ اعتراز احسن اور محمود قصوری بھی کچھ عرصے کے لیے اس کا حصہ رہے۔ محمود علی قصوری نے جب تحریک استقلال میں شمولیت کی تو پھر یہ کہا گیا کہ تحریک استقلال کو پارلیمنٹ میں نشست مل گئی کیونکہ وہ اُس وقت رکن اسمبلی تھے۔ ایئر مارشل اصغر خان نے سیاست سے کنارہ کشی کی تو اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کر دیا لیکن آج بھی تحریک استقلال اسی نام اور اس سے ملتے جلتے نام سے قائم ہے۔

ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان عسکری حلقے سے اکیلے نہیں تھے جنہوں نے اپنی جماعت قائم کی۔ ان کے علاوہ سابق آرمی چیف جنرل مزرا اسلم بیگ نے 1996ء میں عوامی قیادت پارٹی کی بنیاد رکھی۔ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی یعنی جنرل نیازی نے جماعت عالیہ مجاہدین بنائی اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے سیاسی جماعت تحریک اتحاد تو قائم کی لیکن اس کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن نہیں کروائی۔

پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور سابق صدر فاروق لغاری نے بھی ایک سیاسی جماعت بنائی۔ اس کا نام ملت پارٹی رکھا گیا اور اس میں ان کے قریبی دوستوں اور پیپلز پارٹی کے ناراض لوگوں نے شمولیت کی لیکن پھر اس جماعت کا وجود ختم ہوگیا کیونکہ فاروق لغاری نے اپنی زندگی میں ہی اسے اُس وقت کی کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) میں ضم کر دیا تھا۔

ایم کیو ایم نے نہ صرف اپنا نام تبدیل کیا بلکہ یہ بھی دھڑے بندی کا شکار رہی۔ پہلے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوئی۔ اسی جماعت کا حقیقی گروپ بھی سامنے آیا اور اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن بھی ہیں۔ اسی جماعت نے ایک رہنما اور سابق سینیٹر مصطفٰی کمال نے پاک سر زمین پارٹی بھی بنائی تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی بھی اُن جماعتوں میں سے ایک ہے جو دھڑے بندی کا شکار ہو کر دو حصوں میں تقسیم ہوئیں۔ اس کے ایک دھڑے کی صدارت عبدالولی خان کے حصہ میں آئی لیکن 1975ء میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلٰی آفتاب شیرپاو کے بھائی حیات شیرپاو کے قتل کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی اور سپریم کورٹ نے اس سلسلے موصول ہونے والے ریفرنس پر کارروائی کی۔ اس دوران وہ بغاوت کے مقدے میں جیل چلے گئے۔ 1986ء میں عبد الولی خان نے ایک نئی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی سیاست میں سرگرم عمل ہے۔

  سابق صدر فارق لغاری کی جماعت مسلم لیگ (ق) میں ضم ہوئی
سابق صدر فارق لغاری کی جماعت مسلم لیگ (ق) میں ضم ہوئی

دینی جماعتوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی میں 1956ء کے ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے سوا کوئی بڑی تقسیم نہیں ہوئی جب جماعت اسلامی کے امین احسن اصلاحی سمیت کئی رہنماؤں نے اس سے راہیں الگ کرلی۔ جماعت اسلامی نے 1993ء کے انتخابات جماعت اسلامی کے بجائے پاکستان اسلامی فرنٹ کے نام پر انتخاب لڑے لیکن کامیابی نہ ملی۔

جے یو آئی کے دو دھڑے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) اور جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق) کی شکل میں موجود ہیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے بھی نورانی گروپ اور نیازی گروپ رہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی جماعت بنائی اور ایک مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

سابق فلم اسٹار مسرت شاہین نے تحریک مساوات کے نام سے سیاسی جماعت رہی جو صرف خبروں کی حد تک رہی اس کے علاوہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری نے پاکستان جسٹس ایک ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے پیلٹ فارم سے ایک آدھی پریس کانفرنس ہوئی۔

1993ء کے عام انتخابات کے بعد اس بات پر چرچا ہوا کہ ملک نے ٹو پارٹی سسٹم یعنی دو جماعتوں کی سیاست کی طرف سفر شروع کر دیا ہے لیکن یہ تجزیے بھی ریت کی دیوار کی طرح ثابت ہوئے اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔

سیاست دانوں نے سب سے زیادہ شاید گزشتہ 20 برس میں سیاسی جماعتوں کو خیر باد کہا اور ایک جماعت سے دوسری اور پھر تیسری جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔