Dawnnews Television Logo

پاکستان میں جیل سے انتخاب لڑنے اور کامیاب ہونے والے سیاست دان

ملک کی سابق دو حکمران جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی جیل سے انتخاب لڑنے والوں میں شامل ہیں۔
شائع 05 جنوری 2024 12:55pm

رواں سال 8 فروری کو ہونے والے قومی انتخابات کے لیے ایسی سیاسی شخصیات بھی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں جو کسی نہ کسی مقدمے میں جیل میں ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے بہت سے ایسے رہنما شامل ہیں جو اپنے خلاف مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے لیکن ابھی ان کے پاس اپیل کا حق ہے۔

ماضی میں تو اکا دکا کوئی ایسا امیدوار ہوتا تھا جو جیل سے عام انتخابات میں حصہ لیتا تھا لیکن اس مرتبہ انتخابات کے لیے ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ اسیر سیاسی رہنما انتخابی میدان میں اترنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اب تک جیل سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں میں دو کے علاوہ باقی سب امیدوار کامیاب ہوئے اور انہیں اسمبلی کی رکنیت ملی۔ جو دو سیاسی شخصیات اسمبلی نہیں پہنچیں ان میں سے ایک کو شکست ہوئی جبکہ دوسری شخصیت کے معاملے میں انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

ملک کی سابق دو حکمران جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی جیل سے انتخاب لڑنے والوں میں شامل ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال 1970ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوارں کی تھی اور اب 8 فروری کے انتخابات نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں اور ایک بڑی تعداد جیل سے انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہے۔

1970ء میں ایک شہری، ایک ووٹ کی بنیاد پر پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں نومولود سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے جیل سے نہ صرف انتخاب لڑا بلکہ کامیاب بھی ہوئے۔ ان انتخابات سے پہلے مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی سے اپنی راہیں الگ کیں اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ مولانا کوثر نیازی کا تعلق میانوالی سے تھا لیکن انہیں قومی اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ سیالکوٹ سے ملی۔ مولانا کوثر نیازی نے جیل سے انتخاب لڑا اور وہ کامیاب ہوئے بلکہ ریکارڈ ووٹ لیے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کوثر نیازی کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور وزیر اطلاعات کا قلم دان دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد مولانا کوثر نیازی نے پیپلز پارٹی پروگریسیو کے نام اپنی جماعت بنالی۔

  1970ء کے انتخابات میں مولانا کوثر نیازی نے جیل سے انتخاب لڑا
1970ء کے انتخابات میں مولانا کوثر نیازی نے جیل سے انتخاب لڑا

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رانا مختار اور شمیم احمد خان نے بھی 1970ء کے انتخابات میں جیل سے حصہ لیا۔ دونوں امیدوار فیصل آباد، جس کا اُس وقت نام لائل پور تھا، سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ رانا مختار قومی اسمبلی اور شمیم احمد خان پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار تھے۔ پیپلز پارٹی کے یہ دونوں رہنما کامیاب ہوئے بلکہ شمیم احمد خان پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی چنے گئے۔ ایک طرح سے مولانا کوثر نیازی، رانا مختار اور شمیم احمد خان پہلے امیدوار تھے جنہوں نے جیل سے انتخاب لڑا۔

پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دوست اور بعد میں ان کڑے مخالف چوہدری ظہور الٰہی نے بھی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود انتخاب لڑا جنرل ایوب خان کی کنونشن لیگ میں ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی ایک وقت میں اکٹھے تھے لیکن بعد میں رقابت بڑھی۔ 1977ء کے انتخابات میں چوہدری ظہور الٰہی پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار تھے اور حکومت کے سیاسی عتاب کی وجہ سے جیل میں تھے لیکن انہوں نےجیل سے انتخاب لڑا۔ ان کی انتخابی مہم اُن کے بیٹے چوہدری شجاعت حسین اور بھتیجے چوہدری پرویز الٰہی نے چلائی اور جلسے میں چوہدری ظہور الٰہی کی تصویر کرسی پر رکھی جاتی تھی۔

  1977ء کے انتخابات میں چوہدری ظہوری الٰہی نے جیل سے الیکشن لڑا— تصویر: کتاب ’سچ تو یہ ہے‘
1977ء کے انتخابات میں چوہدری ظہوری الٰہی نے جیل سے الیکشن لڑا— تصویر: کتاب ’سچ تو یہ ہے‘

پاکستان قومی اتحاد نے 1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس طرح چوہدری ظہور الٰہی کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا البتہ حکومت کی برطرفی کے بعد چوہدری ظہور الٰہی کو رہائی مل گئی۔ اب لگ بھگ 47 برس کے بعد دوبارہ گجرات کے چوہدری خاندان سے ایک رکن یعنی چوہدری ظہور الٰہی کے بھیجتے اور داماد چوہدری پرویز الہیٰ جیل سے انتخاب لڑنے کی کوشش میں ہیں۔

1985 میں اُس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے ملک میں 8 برس کے بعد انتخابات کروائے اور یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے بجائے سماجی شخصیات اور علاقے کی بااثر شخصیات نے بھی حصہ لیا۔ انہیں میں سے ایک شیخ روحیل اصغر ہیں جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے جانے مانے رہنما ہیں۔ روحیل اصغر اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ شکیل نے بھی 1985ء کے انتخابات ایک ایسے وقت میں لڑے جب یہ دونوں بھائی ایک تنازع کی وجہ سے جیل میں تھے دونوں بھائیوں میں سے ایک انتخاب جیت کر قومی اسمبلی اور دوسرا پنجاب اسمبلی پہنچا۔

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت نومبر 1996ء میں صدر سردار فاروق لغاری نے برطرف کی تو معزول وزیر اعظم کے شوہر آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1997ء کے انتخابات کے بعد جب سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کی طرف آصف علی زرداری نے جیل سے سینیٹ کا انتخاب لڑا اور منتخب ہوئے اس کے بعد سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آصف علی زرداری کو جیل سے لایا جاتا۔ تاہم 2002ء کا انتخاب بینظیر بھٹو بیرون ملک جلاوطنی اور آصف علی زرداری جیل میں ہونے کی وجہ سے نہ لڑ سکے۔

  سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی جیل سے سینیٹ کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی جیل سے سینیٹ کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے

2002ء کے انتخابات میں تین امیدواروں نے جیل سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان میں دو کامیاب ہوئے جبکہ ایک اسمبلی میں نہیں پہنچ سکے۔ شریف خاندان کی سعودی عرب جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت جنوبی پنجاب کے سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی کو ملی۔ وہ جماعت کے قائم مقام صدر نامزد کیے گئے۔ جاوید ہاشمی کو نیب نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ جاوید ہاشمی نے اسیری کے دوران انتخاب لڑا اور لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتحب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے۔ ان کے رکن اسمبلی بنے کے بعد ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے۔

انہیں انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر نے اُس وقت لاہور سے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کروائے جب ان کو نیب نے دو مخلتف الزامات میں گرفتار کیا تھا اور وہ پابند سلاسل تھے۔ جہانگیر بدر نے اپنی انتخابی مہم کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں رہائی کے لیے درخواست دائر کی لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ جہانگیر بدر نے جاوید ہاشمی کی طرح جیل سے انتخاب لڑا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

  جہانگیر بدر (بائیں) اور جاوید ہاشمی (بائیں سے دوسرے) اے آر ڈی کے اجلاس میں شریک ہیں— تصویر: ڈان
جہانگیر بدر (بائیں) اور جاوید ہاشمی (بائیں سے دوسرے) اے آر ڈی کے اجلاس میں شریک ہیں— تصویر: ڈان

2002 کے انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا اعظم طارق نے جیل سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے۔ مولانا اعظم طارق نے جھنگ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا۔ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم کے امیدوار ظفر اللہ خان جمالی کو ووٹ دیا۔ مولانا اعظم طارق 2006ء میں قاتلانہ حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔

قومی انتخابات کی طرح بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی جیل سے انتخاب لڑنے کی ریت رہی ہے۔ 2005ء میں پیپلز پارٹی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی چوہدری اصغر کائرہ کے بیٹے ندیم اصغر کائرہ نے جیل سے تحصیل ناظم لالہ موسیٰ کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وکیل رہنما آصف خان کے مطابق ان کی انتخابی مہم میں ندیم کائرہ کی ہتھکڑیوں والی تصویر سے انہیں بہت شہرت ملی اور ان کی کامیابی میں ان کی تصویر کا بھی کردار رہا۔ پنجاب بار کونسل کے رکن اور ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے مبشر الرحمٰن ایڈووکیٹ کے بقول ندیم کائرہ کی انتخابات میں جیت کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس بلال خان نے اینٹی کرپشن کے مقدمے میں اُن کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہائی ملی۔

ندیم کائرہ کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے جیل سے بلدیاتی انتخاب لڑا اور ایک نئی تاریخ رقم کی وہ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ 2016ء میں وسیم اختر اپنے خلاف مقدمات کی وجہ سے جیل میں تھے اور انہوں نے جیل سے میئر کا انتخاب لڑا اور انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے جیل سے لایا گیا۔ وسیم اختر نے اپنے مدمقابل سے واضح برتری سے کامیابی حاصل کی۔

  ایم کیو ایم کے وسیم اختر بھی جیل سے الیکشن لڑ کر کراچی کے میئر منتخب ہوئے— تصویر: رائٹرز
ایم کیو ایم کے وسیم اختر بھی جیل سے الیکشن لڑ کر کراچی کے میئر منتخب ہوئے— تصویر: رائٹرز

مسلم لیگ (ن) نے 2018ء کے انتخابات میں جماعت سے ناراض رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری ثنار علی خان کے مقابلے میں انجینیئر قمر اسلام کو راولپنڈی سے ٹکٹ دیا۔ قمر اسلام کو نیب نے صاف پانی کے اسکینڈل میں گرفتار کرلیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کے بچوں نے ایک ریلی کی شکل میں ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوکر اپنے والد کی جانب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے سرٹیفکیٹ داخل کروائے۔

اب آئندہ ماہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، سینیٹر اعجاز چوہدری، سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد اور میاں محمود الرشید کے علاوہ عالیہ حمزہ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید سمیت دیگر جیل سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔