Dawnnews Television Logo

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (دوسری قسط)

بھٹو نے کہا کہ چھ نکات پر سمجھوتے کے بغیر اگر ڈھاکا میں اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں مغربی پاکستان سے کوئی جاتا ہے تو ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔
شائع 22 جنوری 2024 04:00pm

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان پچھلی بار ہم نے تذکرہ کیا تھا کہ فروری میں جو الیکشن ہونے جارہے ہیں اس کی تاریخی جڑیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم نے تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں ہونے والے 46-1945ء کے آخری انتخابات سے ذکر شروع کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی پہلی مجلس قانون ساز اور پھر دوسری وجود میں آئی تھی اور پھر اسی نے 1956ء کا آئین بنایا تھا اور 1956ء کے آئین کے تحت ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر وفاقی سطح پر الیکشن ہونے تھے۔

جب حکمران طبقے نے دیکھا کہ جو اس سے پہلے صوبائی انتخابات ہوئے ہیں ان میں نتائج ان کی مرضی کے خلاف نکلے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اب بوریا بستر لپیٹنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ عوام مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کے لیے ٹرینڈ نہیں ہیں۔ پہلے انہیں جمہوریت کے اسکول میں داخل کیا جائے اور انہیں خوب پڑھایا جائے اور کنٹرولڈ جمہوریت کے ذریعے جب وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ روایتی مغربی جمہوریت کے مثبت نتائج اور مثبت استعمال سیکھ لیں تب ہم جاکے ان کو اختیار دیں گے۔

جب اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لا لگا تو اس کے بعد ہم نے تذکرہ کیا تھا کہ جو نظام حکومت کی لیبارٹری ہے اس میں بیسِک ڈیموکریسی یعنی بنیادی جمہوریت کا سسٹم تیار ہونا شروع ہوا اور 1959ء میں اس ملک میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات ہوئے اور 80 ہزار کونسلرز مشرقی و مغربی پاکستان سے منتخب ہوئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جنرل صاحب نے ساری سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی تھی۔ سیاستدان اندر تھے۔ ایوب خان روایتی سیاستدانوں سے الرجک تھے تو انہوں نے اپنا نیا الیکٹورل کالج بنایا اور اس کی شکل یہ تھی کہ بلدیاتی کونسلرز الیکٹورل کالج ہوں گے، وہی صوبائی اور قومی اسمبلی منتخب کریں گے اور وہی صدر کا انتخاب بھی کریں گے۔

یہ سب 1962ء کے آئین میں رو دیا گیا۔ چنانچہ 1959ء میں جو کونسلر بنے تھے انہوں نے 1960ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک ریفرنڈم میں سویلین چہرہ دیا اور انہیں ایک بھاری اکثریت سے صدر منتخب کر لیا۔ 1962ء کا آئین نافذ ہوگیا پھر اسی الیکٹورل کالج نے 1964ء میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کا انتخاب کیا اور پھر 1965ء میں صدارتی انتخابات کے لیے بھی یہی الیکٹورل کالج کام آیا۔ اس وقت ایک طرف جنرل ایوب خان تھے اور دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان سے جیت گئی تھیں لیکن مغربی پاکستان میں وہ ہار گئی تھیں۔ بہرحال کسی بھی طرح سے جیسے تیسے فیلڈ مارشل صاحب نے صدارت کا الیکشن جیت لیا۔

اس الیکشن کے کچھ عرصے بعد ستمبر میں 1965ء کی جنگ شروع ہوگئی، جنوری میں الیکشن ہوئے تھے ستمبر 1965ء میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ شروع ہوگئی۔ 1965ء کی جنگ ایک واٹر شیڈ تھا، اسے پہلے کا پاکستان بالکل مختلف تھا اور 1965ء کے بعد پاکستان جس طرح معاشی، سیاسی، اور سفارتی پٹڑی سے اترا، آہستہ آہستہ اس کے اثرات ہمارے سامنے آتے رہے۔

1965ء کی جنگ سے پہلے پاکستان کا جو معاشی اشاریہ تھا وہ لوگ بتاتے ہیں کہ اوپر کی طرف جارہا تھا لیکن 1965ء کی جنگ کے بعد صورتحال زگ زیگ ہوگئی، سیاسی صورتحال بھی اور معاشی صورتحال بھی، اور پاکستان آج تک اس سے سنبھل نہیں پایا۔ پھر جو مزید کام دکھا دیا وہ 1968ء کی طلبہ تحریک تھی، اس لیے کہ ایوب خان آزادی اظہار سے الرجک تھے لہٰذا مخالف آوازیں وہ برداشت نہیں کرتے اس کی وجہ سے سماجی اور سیاسی گھٹن ہوتی ہے اور پھر 1965ء کی جنگ ہوئی اور اس کا بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا، معاہدہ تاشقند لوگوں نے قبول نہیں کیا تو اس کی وجہ سے ایوب خان کی اگر کوئی مقبولیت تھی تو وہ بھی گرتی چلی گئی۔

  1965ء کی جنگ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا
1965ء کی جنگ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا

اس کا ثبوت ہمیں مشرقی اور مغربی پاکستان میں 1968ء کی طلبہ تحریک کی صورت میں ملتا ہے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کا ظہور ہوا، ایک تازہ اور ایک توانا آواز روایتی سیاست کے میدان میں داخل ہوئی۔ نوجوانوں کے لیے بھٹو اس زمانے میں خاصے مقبول تھے اور رول ماڈل تھے۔

اس کے بعد جب حالات قابو سے باہر ہوگئے، بجائے اس کے کہ ایوب خان اپنے ہی بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کے تحت اپنی ہی اسمبلی کے اسپیکر کو قائم مقام صدر بناتے وہ اپنے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر استعفیٰ دے کر چلے گئے اور ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ ہوگیا۔

لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جنرل یحییٰ خان نے آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ون یونٹ جو 1955ء میں بنا تھا وہ توڑ دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جو بھی آئندہ الیکشن ہوں گے وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر تو ہوں گے لیکن جس صوبے کی جتنی آبادی ہے اس کی نشستیں اتنی ہی ہوں گی۔ تو اس تصویر میں پھر مشرقی پاکستان جس کی آبادی ظاہر ہے کہ مغربی پاکستان کے صوبوں سے زیادہ تھی اس کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ پھر ایوب خان نے عوامی لیگ پر بھی پابندی لگائی ہوئی تھی اور اس لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن ان کو انڈین ایجنٹ اور غدار وغیرہ قرار دے کے ’اگرتلہ سازش کیس‘ کے لیے ٹریبیونل بھی بنا تھا اور شیخ مجیب الرحمٰن پر مقدمہ بھی چلا تھا، نئی مارشل لا گورنمنٹ نے وہ اگرتلہ سازش کیس بھی ختم کردیا۔بلکہ ایوب خان نے اپنے آخری ہی دنوں میں اس سارے ٹریبیونل کو لپیٹ دیا اور شیخ مجیب الرحمٰن دوبارہ سے مین اسٹریم پالیٹکس میں آگئے۔

پھر ایک اچھا کام یہ ہوا کہ تقسیم کے بعد سے بلوچستان کو صوبائی حیثیت نہیں ملی ہوئی تھی جب ون یونٹ ٹوٹا تو پہلی بار 1970ء میں بلوچستان کو ایک صوبے کے طور پر ابھرنے کا موقع ملا تو اس اعتبار سے 1970ء میں پاکستان کے پانچ صوبے ہوگئے چار مغربی پاکستان میں اور ایک مشرقی پاکستان میں۔

پھر یحییٰ خان حکومت نے یہ کیا کہ جنوری 1970ء میں اعلان کیا کہ اگلے الیکشن اکتوبر میں یعنی دس مہینے بعد ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر قومی سطح پر ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ تھا اس لیے کہ اس سے پہلے پاکستان میں جتنے بھی الیکشن ہوئے تھے وہ بالواسطہ ہوتے تھے کبھی بلدیاتی کونسلروں کے ذریعے کبھی صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے۔ بلاواسطہ انتخاب یہ پہلے تھے تو ان کی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے۔

اکتوبر میں الیکشن ہونے تھے لیکن اکتوبر میں مشرقی پاکستان میں شدید سیلاب آیا تو اس کی وجہ سے الیکشن دو مہینے آگے کردیے گئے اور 7 دسمبر نئی تاریخ قرار پائی۔ اس وقت جو تاثر دیا گیا حکومت کی طرف سے وہ یہ تھا کہ جو دونوں بازو ہیں پاکستان کے ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کو کلیئر کٹ مینڈیٹ نہیں ملے گا جو حساس ادارے تھے، جو ایجنسیاں تھی ان کا اپنا اسسمٹنٹ بھی یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو قطعی اکثریت نہیں ملے گی بلکہ مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کو بھی اچھی خاصی نشستیں مل جائیں گی۔ اگرچہ عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی لیکن وہ قطعی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔

  7 دسمبر 1970ء کو ملک میں عام انتخابات ہوئے
7 دسمبر 1970ء کو ملک میں عام انتخابات ہوئے

مغربی پاکستان کے بارے میں ایجنسیوں کی پیشگوئی یہ تھی کہ پیپلزپارٹی، قیوم لیگ اور جماعت اسلامی ٹاپ 3 جماعتیں ہوں گی اور باقی جماعتوں کو بھی تھوڑی سیٹیں مل جائیں گی۔ تو انہوں نے ایک فریکچرڈ مینڈیٹ کی رپورٹ دی۔ سنا یہ گیا ہے کہ ایجنسیوں نے کچھ جماعتوں کو بوسٹ اپ کرنے کے لیے پیسہ بھی تقسیم کیا تھا تو یہ تب سے کہانی چل رہی ہے، یہ ہمارے لیے کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔

مشرقی پاکستان میں جو انتخابی مہم چلی اس کا ایک ہی نکتہ تھا، وہ یہ تھا کہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کو لوٹ رہا ہے، اس کا استحصال کررہا ہے تو عوامی لیگ اس استحصال سے بنگال کو نجات دلائے گی جبکہ مغربی پاکستان میں الیکشن مہم کفر اور اسلام کی جنگ میں تبدیل کردی گئی۔ جو دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں تھیں ان کے نزدیک بھٹو کافر تھا۔ مجھے یاد ہے 120 علما نے اجتماعی فتویٰ بھی دیا کہ جو الیکشن میں پیپلز پارٹی کو یا بھٹو کو ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اس کے باوجود جب الیکشن رزلٹ آئے تو سب سے بڑی پارٹی مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بن کر اُبھری، اللہ جانے کتنے لاکھ لوگوں نے اپنا نکاح تڑوالیا لیکن بھٹو کو ووٹ دیا۔

بھٹو صاحب کا نعرہ تھا روٹی، کپڑا اور مکان اور سوشلسٹ معیشت تو جو مذہبی طبقہ تھا وہ یہ سمجھا کہ بس جیسے بھٹو جیتے گا پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب آجائے گا لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ اسی بھٹو نے متفقہ طور پر 1973ء کا آئین بنایا تو جو علمائے کرام تھے ان کی رائے کو خاصی اہمیت دی اور جو 1970ء کے الیکشن میں کمیونسٹ تھا اور ہندو ایجنٹ تھا اور لادین تھا جب اس نے آئین بنایا تو اس کے قصیدے بھی یہی علما گارہے تھے۔

1970ء میں جنوری میں یحییٰ حکومت نے الیکشن کا اعلان کیا 30 مارچ کو لیگل فریم ورک آرڈر کا اجرا ہوا یعنی الیکشن کے نتیجے میں جو قانون ساز اسمبلی بنے گی اس پر لازم ہوگا کہ وہ ایک سو بیس دن میں نیا آئین بنائے کیونکہ جب مارشل لا لگا تھا تو 1962ء کا آئین ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی شرط لگائی کہ نہ صرف 120 دن میں آئین بنائیں گے بلکہ اگر آپ نے نہیں بنایا تو یہ اسمبلی ٹوٹ جائے گی پھر الیکشن ہوں گے، پھر کچھ اور ہوگا اور اگر آئین بنا لیا تو اس کی توثیق صدر مملکت عرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان کریں گے اس کے بغیر یہ آئین نافذ نہیں ہوگا۔

  مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کلین سوئیپ کیا
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کلین سوئیپ کیا

اس زمانے کے مبصرین کہتے ہیں کہ یہ شرط رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یحییٰ صاحب الیکشن کے بعد بھی وردی اتار کے ایک سیاسی لیکن طاقتور صدر رہنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس قوم پر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں کہ ون مین ون ووٹ کا حق دے رہے ہیں تو ہمارا بھی کچھ حصہ بنتا ہے اس لیے انہوں نے شاید یہ شرط رکھی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو تان ٹوٹی وہ عوامی لیگ کے چھ نکات پر ٹوٹی۔ یہ چھ نکات شیخ مجیب الرحمٰن نے 1966ء میں پیش کیے تھے اور ڈھاکا میں نہیں لاہور میں۔ پھر الیکشن کے بعد ان کا ہوّا بنا دیا گیا۔

یہ چھ نکات کیا تھے پہلا نکتہ یہ تھا کہ مرکز کے پاس صرف ڈیفینس، کرنسی اور فارن پالیسی کے محکمے ہونے چاہیے اور باقی سارے فیصلے صوبوں کے پاس ہونے چاہیے۔ معاشی فیصلے بھی صوبے کریں، اچھا ہوگا کہ دو کرنسیاں ہوں ایک مشرقی پاکستان کے لیے مغربی پاکستان کے لیکن اگر دو کرنسیاں ممکن نہ ہوں اور ایک کرنسی رکھنی ہے تو اس صورت میں جو فارن ایکسچینج اکاؤنٹ ہے وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگا ایک میں وہ پیسہ جمع ہوگا جو مغربی پاکستان نے کمایا ہوگا اور دوسرا مشرقی پاکستان کا کیونکہ مشرقی پاکستان کا خیال تھا کہ ہمارا جو پٹسن ہے اس کی جو بھی آمدنی ہے وہ مغربی پاکستان پر لگ رہی ہے ہمیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔ پھر ایک نکتہ یہ تھا کہ ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو ہوگا اور صوبے طے کریں گے کہ وفاقی حکومت کو ملک کے دفاع اور فارن پالیسی چلانے کے لیے کتنے پیسے دیے جائیں یعنی مرکزی حکومت ایک طرح سے صوبوں کی محتاج ہو جائے گی اور پھر ایک نقطہ یہ تھا کہ جو مغربی پاکستان ہے اس کی اپنی ایک پیراملٹری فورس ہوگی، گویا شیخ صاحب نے اس وقت کہا تو نہیں لیکن وہ فیڈریشن کو کنفیڈریشن میں بدلنا چاہتے تھے۔

اس وقت کسی کو یہ اعتراض نہیں ہوا نہ یحییٰ خان کو نہ الیکشن کمیشن کو نہ سیاسی جماعتوں کو کہ بھائی جو پارٹی چھ نکات کی بنیاد پر الیکشن لڑ رہی ہے اگر وہ جیت گئی تو کیا ہوگا تو عوامی لیگ نے ایک جائز جمہوری قوت کے طور پر الیکشن لڑا اور اسے پوری اجازت دی گئی، جب وہ جیت گئی تو اس کے بعد پتا چلا کہ نہیں بھائی وہ تو اچھے پاکستانی نہیں ہیں۔

  عوامی لیگ جب جیت گئی تو اس کے بعد پتا چلا کہ نہیں بھائی وہ تو اچھے پاکستانی نہیں ہیں—تصویر: ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز
عوامی لیگ جب جیت گئی تو اس کے بعد پتا چلا کہ نہیں بھائی وہ تو اچھے پاکستانی نہیں ہیں—تصویر: ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز

ایک اور بڑی مزیدار بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں جو کہ اکثریتی صوبہ تھا اس میں ایک امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا۔ یہ بڑی حیرت ناک بات ہے اور عوامی لیگ جو پورے پاکستان میں کی دعوے دار تھی اس نے سارے کے سارے امیدوار مشرقی پاکستان میں کھڑے کیے صرف آٹھ امیدوار تھے مغربی پاکستان میں جنہیں عوامی لیگ کا ٹکٹ ملا۔

اب اللہ جانے کے اس میں کیا راز تھا کہ دونوں سب سے بڑی جماعتیں تھیں انہوں نے یکسر، ایک نے ایک بازو کو اور دوسری نے دوسرے بازو کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ جو نئی پارلیمنٹ منتخب ہونی تھی اس میں 300 جنرل سیٹیں تھیں تو مشرقی پاکستان میں 56 فیصد اکثریت تھی تو انہیں اس حساب سے 300 سیٹوں میں سے 162 جنرل سیٹیں الاٹ کی گئیں اور 138 سٹیں مغربی پاکستان کے صوبوں کو آبادی کے تناسب سے الاٹ کی گئیں۔

خواتین کے لیے 13 نشستیں مخصوص کی گئی تھیں ان میں سے 7 مشرقی پاکستان کے لیے اور 6 مغربی پاکستان کے لیے۔ جب الیکشن کے نتائج آئے تو عوامی لیگ 162جنرل سیٹوں میں سے 160 سیٹیں لے گئی۔ جو دو سیٹیں بچی تھیں ایک پر نورالامین منتخب ہوئے تھے جن کا عوامی لیگ سے تعلق نہیں تھا اور دوسرے تھے چکما قبیلہ کے سردار راجہ تری دیو رائے جو اپنی آزادانہ حیثیت میں منتخب ہوئے تھے۔ باقی عوامی لیگ نے جھاڑو پھیر دی، صفایا کردیا اور کسی کو نہیں جیتنے دیا۔

مغربی پاکستان کی جو 138 جنرل سیٹیں تھیں ان میں سے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کو 81 سیٹیں ملیں اور سب سے زیادہ پنجاب میں ملیں یعنی 62 پھر سندھ میں یعنی 18 سیٹیں ملیں اور خیبر پختونخوا جو اس زمانے میں صوبہ سرحد کہلاتا تھا وہاں سے ایک سیٹ ملی۔ مغربی پاکستان میں جو دوسرے نمبر پر جماعت آئی وہ تھی خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ اس کو 9 سیٹیں ملیں، جمعیت علمائے اسلام جس کی قیادت مفتی محمود کے پاس تھی اور جمعیت علمائے پاکستان جس کی قیادت نورانی میاں کررہے تھے اور کونسل مسلم لیگ ان کو 7، 7 نشستیں ملیں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو 6 سیٹیں ملیں۔

اس الیکشن میں عوامی لیگ کے بعد سب سے زیادہ جس پارٹی نے امیدوار کھڑے کیے تھے وہ تھی جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی نے الیکشن کمپین کے دوران مجھے یاد ہے یوم شوکت اسلام منایا، میلوں لمبے جلوس نکالے مطلب ہزاروں جھنڈے، جھنڈیاں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سوئیپ کرجائیں گے جب رزلٹ آئے تو جماعت اسلامی کو صرف 4 سیٹیں ملی تھی دونوں طرف سے، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی ملا کے 4 سیٹیں ملی تھیں۔

ووٹر ٹرن آؤٹ البتہ اچھا رہا لوگوں میں جوش تھا، ٹرن آؤٹ اوسطاً ساٹھ فیصد رہا پنجاب میں سب سے زیادہ 69 فیصد ٹرن آؤٹ رہا اور اس کے بعد مشرقی پاکستان میں 57 فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔ اب ظاہر ہے کہ الیکشن ہوگئے اور عوامی لیگ زبردست اکثریت لے کے آگئی ادھر بھٹو صاحب آگئے۔ عوامی لیگ کا حق تھا کہ آئین بنانے میں پہل کرے تو انہوں نے کہا کہ جو ہمارے 6 نکات ہیں ان کے فریم میں ہم آئین سازی کریں گے۔ یہاں پر جو بھٹو صاحب تھے اور بھٹو صاحب کے ساتھ جو یحییٰ حکومت تھی ان کو خاصے تحفظات تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگر ان 6 نکات کی بنیاد پر آئین بنتا ہے تو پاکستان فیڈریشن نہیں رہے گا بلکہ ایک لوز کنفیڈریشن بن جائے گا۔

چناچہ یحییٰ خان اور بھٹو نے کہا کہ ہم آپ کے چار نکات تو مان سکتے ہیں لیکن ان میں سے دو نکات نہیں مان سکتے تو آپ تھوڑا سا اپنے رویے میں لچک پیدا کریں۔ بھٹو نے کہا کہ یہ بنیادی نقطہ ہے کہ چھ نکات پر سمجھوتے کے بغیر اگر ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں مغربی پاکستان سے کوئی جاتا ہے تو ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ اس کے باوجود بہت سے ارکان اسمبلی جو نئے نئے منتخب ہوئے تھے وہ ڈھاکہ گئے۔

تاریخ طے کی گئی کہ یکم مارچ کو نئی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوگا لیکن جب ان تین کھلاڑیوں یعنی مجیب، یحییٰ اور بھٹو، ان میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا 6 نکات کے بارے میں تو پھر جو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا بدقسمتی سے اس کو ملتوی کر دیا گیا اور اس کے بعد مشرقی پاکستان میں حکومت کے خلاف عام بغاوت شروع ہوگئی۔

اس دوران یحییٰ خان اور بھٹو ڈھاکہ بھی گئے اور انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بیٹھ کے کوششیں بھی کیں لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کا ایک ہی نکتہ تھا کہ اگر آپ مجھ سے واقعی کوئی لچک کی امید رکھ رہے ہیں اور میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے انہیں قائل بھی لوں تو مجھے یہ بتائیے کہ ایک طرف بات چیت کر رہے ہیں اور دوسری طرف مشرقی پاکستان میں فوج کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے تو یہ کیا مسئلہ ہے۔ اس کا ظاہر ہے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن اس کا جواب مل گیا۔

25 مارچ کو بھٹو صاحب کراچی میں اترے اور مشرقی پاکستان میں ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ بھٹو صاحب جب ایئرپورٹ پر اترے تو ان کا کہنا تھا کہ ’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘۔ پھر یہ ہوا کہ معلومات کا بلیک آؤٹ ہوگیا۔ روئیداد خان صاحب اس زمانے میں سیکریٹری اطلاعات تھے، مارشل لا حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مشرقی پاکستان کی کوئی منفی خبر مغربی پاکستان کے اخبارات میں ناچھپے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی، اس کو غداری، قوم پرستی اور پاکستانیت کی روئی میں لپیٹ کے لوگوں کو پیش کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے باخدا مغربی پاکستانیوں کو آخر تک معلوم نہیں تھا۔

  25 مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا
25 مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا

پھر ایک اور بھی ذہانت کا مظاہرہ یہ کیا گیا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کی اکثر لیڈر شپ اور جو پارلیمنٹ کے لیے منتخب ارکان تھے وہ ظاہر ہے کہ سرحد پار انڈیا چلے گئے تو ان کی نشستیں جو خالی تھیں ان میں سے 78 سیٹوں پر ستمبر میں آپریشن کے دوران انہوں نے کہا ہے کہ ہم اس پر ضمنی انتخاب کروائیں گے، وہ ضمنی انتخاب کیا تھا؟ کتابوں میں لکھا ہے کہ ڈھاکہ چھاؤنی میں راؤ فرمان علی کے دفتر میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کو جو کہ پرو پاکستان سیاسی جماعتیں تھیں انہیں جمع کیا اور ان سے کہا کہ یہ 78 سیٹیں ہیں تو آپ کو کتنی چاہیے؟، آپ کو کتنی چاہیے؟ یوں کیلوں کی طرح سیٹیں وہیں پر بانٹ دی گئیں اور یہ فرض کرلیا گیا کہ اب عوامی لیگ کی سیٹیں پوری ہوگئی ہیں تو ہم جمہوریت جمہوریت کھیل سکتے ہیں۔

لیکن ظاہر ہے کہ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی تھی اور نومبر میں انڈیا نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا پھر تین دسمبر کو مغربی پاکستان پر بھی حملہ ہوگیا اور پھر آپ کو پتا ہی ہے کہ کیا ہوا۔ 17، 18 دن کی یہ جنگ تھی اور 16 دسمبر کومشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے گئے اور 17 کو یہ جنگ بند ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ جنگ بند ہونے کے بعد بھی شام کو یحییٰ خان صاحب قوم سے خطاب کر رہے تھے کہ ہم نے ایک لڑائی ہاری ہے، جنگ تو نہیں ہاری ہے ہم کھیتوں میں لڑیں گے کھلیانوں لڑیں گے پتا نہیں کہاں کہاں لڑیں گے لیکن اسی دن جنگ بندی ہو چکی تھی۔

اس کے بعد حکومت کی لیجیٹیمیسی ختم ہوگئی کہ آپ کس بنیاد پر آپ حکومت میں ہیں۔ چنانچہ جو بھٹو صاحب تھے انہیں عبوری طور پر نائب وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح جنگ بندی ہو جائے، انہیں ہنگامی طور پر بلوایا گیا اور وہ 19 کو پاکستان پہنچے اور 20 کو انتقال اقتدار ہو گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار منتقل کردیا بھٹو صاحب کو۔ بھٹو صاحب پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور عبوری صدر بن گئے۔ یہ ایک طرح سے نامکمل اسمبلی تھی اس لیے کہ اس میں مشرقی پاکستان والے تو تھے ہی نہیں وہ تو الگ ہو چکے تھے تو جو باقی اسمبلی تھی اس نے باقی پاکستان کے لیے آئین بنایا۔ حزب اختلاف آئین کے نفاذ کے بعد یہ کہتی رہی کہ دوبارہ الیکشن کروائے جائیں تاکہ ایک لیجیٹمیٹ اسمبلی وجود میں آسکے، یہ ایک کتری ہوئی اسمبلی ہے، یہ آدھی ہے لیکن ظاہر ہے کہ بھٹو صاحب نے اس کو مسترد کردیا۔

یہ تھی 1970ء کے الیکشن کی کہانی جس نے آدھے پاکستان کی شکل میں اپنی قیمت وصول کرلی، الیکشن تو ہم نے کروادیے لیکن الیکشن کے نتائج کو ہم ہضم نہیں کرسکے تو پھر صورتحال نے ہمیں ہضم کرلیا۔ اگلی قسط میں ہم بات کریں گے ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر مارچ 1977ء میں ہونے والے انتخابات کی۔