Dawnnews Television Logo

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (تیسری قسط)

مجھے یاد ہے کہ جب 5 جولائی کو ضیاالحق نے پہلی تقریر کی تھی تب انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ فوج ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی اقتدار میں نہیں رہے گی اور 90 دنوں میں انتخابات کروا کر بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔
شائع 26 جنوری 2024 06:01pm

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ گزشتہ قسط میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ 1970ء کے انتخابات پہلی بار ون مین ون ووٹ کے یونیورسل اصول کے تحت ہوئے تھے اور ہم ان کے نتائج کو نہیں سنبھال سکے، اس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔

پھر مغربی پاکستان نیا پاکستان بن گیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہوئی۔ اب آزمائش یہ تھی کہ ان الیکشن کے نتائج کو سنبھالتے ہوئے 5 سالہ آئینی مدت کیسے پوری ہوگی؟ آئینی مدت پوری ہونے کے بعد جو انتخابات ہوں گے ان میں اندازہ ہوگا کہ اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں کتنی مضبوط ہوئی ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ 1970ء کے انتخابات فوجی انتظام سے سویلین نظام کی جانب ایک سفر تھا، لیکن بدقسمتی سے ہم 1977ء کے انتخابات نتائج بھی نہیں سنبھال سکے اور ملک ایک بار پھر فوجی بوٹوں تلے دب گیا۔

1973ء کا متفقہ آئین تھا جب بنایا گیا تو اس میں خصوصی طور پر آرٹیکل 6 شامل کیا گیا تھا تاکہ آئندہ کے لیے بالائے آئین اقدامات کا راستہ بند ہوجائے۔ اس شق کے تحت اگر کسی نے غیر قانونی طریقے سے آئین کو پامال کرنے کی کوشش کی، جزوی طور پر آئین کو معطل کرنے کی کوشش کی یا اس سازش میں جو بھی شریک ہوا، ان سب کو زیادہ سے زیادہ سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ لیکن آئندہ جو کچھ ہوا، یہ آرٹیکل اس کو نہیں روک سکا اور آج آئین کی دیگر شقوں کی طرح خود آرٹیکل 6 بھی اپنے آپ کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔

اس آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدت جوکہ 14 اگست 1977ء میں ختم ہونا تھی، اس سے تقریباً 7 ماہ پہلے یہ سوچ کر انتخابات کا اعلان کردیا کہ میں خاصا مقبول ہوں اور یہ الیکشن آسانی سے جیت جاؤں گا۔ یعنی انہوں نے 10 جنوری 1977ء کو اچانک اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا۔ بھٹو صاحب کا یہ تاثر کہ وہ انتخابات آسانی سے جیت جائیں گے، بے بنیاد نہیں تھا کیونکہ سب سے پہلے تو انہوں نے 1973ء کا آئین بنایا تھا جوکہ زیادہ جمہوری تھا اور اس میں فیڈریشن کے جذبات سموئے گئے تھے۔

دوسرا یہ کہ 1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان بدحالی کی کیفیت سے گزر رہا تھا، بھٹو کی حکومت نے عوام کو اس سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت کے قبضے میں جو علاقے تھے اور ہمارے تقریباً 90 ہزار قیدیوں کو چھڑوانے کے لیے شملہ معاہدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھٹو صاحب نے اقتصادی، تعلیمی اور روزگار کے میدان میں اہم عوام دوست اصلاحات بھی کی تھیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے صنعتیں اور ادارے نیشنلائز کرنے یعنی قومیانے کی پالیسی اپنائی تھی۔ اس زمانے میں تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں نیشنلائزیشن کی پالیسی کا رجحان تھا کیونکہ گمان یہ تھا کہ نیشنلائزیشن وہ گیڈر سنگھی ہے جس سے عوام کے مسائل راتوں رات حل ہوسکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جب اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات پر ضرب لگتی ہے تو وہ بظاہر تو مسکراتے رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ چُھریاں بھی تیز ہونے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وہ خوش آمدی ٹولے، پروفیشنل ٹیکنوکریٹ میں غیر محسوس طریقے سے گِھرتے چلے گئے۔ ان کا سرکاری رپورٹس پر انحصار بڑھنے لگا کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور یوں وہ رفتہ رفتہ عوام سے کٹتے چلے گئے۔ چونکہ انتخابات جمہوریت کے شہر میں داخل ہونے کا پہلا راستہ ہیں اس لیے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں توقع کی گئی تھی منتخب حکومت اب جمہوریت کو پنپنے کا پورا موقع فراہم کرے گی۔

  آئین کے نفاذ کے باوجود 1965ء میں لگنے والی جنگی ایمرجنسی کے ایک بڑے حصے کو برقرار رکھا گیا
آئین کے نفاذ کے باوجود 1965ء میں لگنے والی جنگی ایمرجنسی کے ایک بڑے حصے کو برقرار رکھا گیا

لیکن ہوا یہ کہ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے چند ہی ماہ بعد صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں قوم پرست حکومتیں قائم تھیں، بھٹو صاحب نے انہیں برطرف کردیا۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان میں شورش شروع ہوگئی۔ ناخوش اور اُکتائے ہوئے لوگوں نے بندوقیں سنبھالیں اور وہ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ بھٹو صاحب نے بلوچستان اور سرحد کی قیادت کو غداری، تخریب کاری، دہشت گردی کی دفعات لگا کر حیدر آباد سازش کیس میں ملوث کردیا۔

حالانکہ بھٹو صاحب مقبول آدمی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آئین کے نفاذ کے باوجود 1965ء کی جنگ کے دوران نافذ ایمرجنسی کا بہت ساحصہ انہوں نے برقرار رکھا حالانکہ آئین کے نفاذ کے بعد اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میڈیا پر بھی سختی ہوئی۔ حکومت مخالف جرائد یا اخبارات کے ڈیکلیریشن بھی منسوخ ہوئے، صحافیوں کو پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ پیپلز پارٹی جب نئی نئی بنی تھی تب ان میں اندرونِ جماعت مشاورت کا عمل ہوتا تھا لیکن جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو کچن کیبنٹ میں بھی غیر منتخب عناصر شامل ہوتے چلے گئے۔ اس سے پارٹی کے اندرونی ڈھانچے سے اوپر کی قیادت منقطع ہوتی چلی گئی۔

شاید یہ دوبارہ مارشل لا لگنے کا خوف تھا کہ انہوں نے ایک نیم فوجی ادارے تشکیل دیا جسے فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کا نام دیا گیا۔ جب نواب محمد احمد خان کے قتل کا الزام بھٹو صاحب پر لگایا گیا تھا تو اس میں ایف ایس سی کے ڈی جی کو بھی ملوث قرار دیا گیا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ ایف ایس ایف کی تشکیل پر اس وقت کی فوجی قیادت کو تحفظات تھے اور وہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے مطابق جب پولیس اور مسلح افواج موجود ہیں تو ایک نیم فوجی ادارے کی تشکیل کی کیا ضرورت ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی پیچیدگیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ مثلاً 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے جب فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا سودا کیا تو امریکا نے زور و شور سے اس کی مخالفت کی۔ اس کے علاوہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھٹو صاحب نے کھل کر عربوں کا ساتھ دیا اور انہیں تکنیکی مدد بھی فراہم کی۔ اس دوران سعودی عرب اور ایران کی قیادت میں مغربی ممالک کے لیے تیل کی جو پابندی لگی تھی، اس میں بھی بتایا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے فعال کردار ادا کیا۔ انہوں نے فروری 1974ء میں اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنے کے لیے لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی تھی۔ اس کے علاوہ خلیجی ریاستوں بشمول سعودی عرب سے خصوصی اقتصادی اور سفارتی مراسم بھی قائم کیے جس سے اقتصادی فوائد حاصل ہوئے اور پہلی بار پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک بکثرت جانے لگے۔

  ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا
ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا

تو اس پس منظر میں 10 جنوری 1977ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو اچانک سے حزب اختلاف کا ایک 9 جماعتی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) سامنے آیا۔ اگر آپ اس زمانے کے اخبارات دیکھیں تو پی این اے کا قیام حکومت کے لیے دھچکا تھا۔ غالباً اس اتحاد کے بارے میں ایجنسیز نے پوری معلومات فراہم نہیں کی تھیں کہ اپوزیشن کے کیمپ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ یوں بھٹو صاحب کی آنکھوں کے سامنے راتوں رات پی این اے تشکیل پاگیا اور بھٹو صاحب کا یہ حساب کہ ہم آسانی سے جیت جائیں گے، اس میں تھوڑی سی گڑ بڑ ہوگئی۔

پی این اے میں 9 جماعتیں تھیں۔ اصغر خان کی تحریک استقلال، میاں طفیل محمد صاحب کی جماعت اسلامی، مفتی محمود صاحب کی جمیعت علمائے اسلام، شاہ احمد نورانی صاحب کی جمیعت علمائے پاکستان تھی، پیر پگاڑا کا مسلم لیگ کا دھڑا بھی اس میں شامل تھا۔ شیرباز مزاری کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جوکہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد ظہور میں آئی تھی وہ بھی اس اتحاد میں شامل تھی۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے نوابزادہ نصراللہ خان جیسے بزرگ سیاستدان جن کا تمام سیاسی حلقوں میں احترام کیا جاتا تھا، وہ بھی اس اتحاد میں شامل تھے۔ خاکسار تحریک اور سردار عبدالقیوم کی کشمیر کی مسلم کانفرنس بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ تو یہ وہ نو ستارے تھے جن میں سے بیشتر جماعتیں وہ تھیں جو 1975ء میں بھی پیر صاحب پگاڑا کی قیادت میں یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا چکی تھیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ 1973ء کے آئین کے مطابق انتخابات کروائے جائیں لیکن بھٹو صاحب نے ان کے اس مطالبے سے انکار کردیا تھا۔

  حکومتی اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے دور کا منظر۔ دائیں جانب پی این اے رہنما مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصر اللہ خان براجمان ہیں جبکہ بائیں جانب حکومتی رہنما کوثر نیازی، ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ موجود ہیں
حکومتی اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے دور کا منظر۔ دائیں جانب پی این اے رہنما مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصر اللہ خان براجمان ہیں جبکہ بائیں جانب حکومتی رہنما کوثر نیازی، ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ موجود ہیں

پی این اے میں دائیں بازو کی مذہبی سیاسی سوچ کافی نمایاں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جو انتخابی منشور پیش کیا تھا اس میں ایک نعرہ تھا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد 1970ء کی قیمتیں واپس لائیں گے۔ لیکن دوسری جانب پیپلز پارٹی کو یقین تھا کہ وہ جیت جائے گی۔اس وقت قومی اسمبلی کی 216 نشستیں ہوا کرتی تھیں، 200 جنرل، 10 خواتین جبکہ 6 اقلیتوں کی نشستیں تھیں۔ لیکن ہوا یہ کہ 7 مارچ کو ہونے والے انتخابات سے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ سمیت تقریباً 19 پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے متنازع حالات میں خود کو بلامقابلہ منتخب کروا لیا اور یہیں سے گڑ بڑ شروع ہوئی۔ الیکشن کا انعقاد ہونے والا تھا اور اگر ایسے حالات میں اتنی بڑی تعداد میں کلیدی عہدوں پر فائز لوگ خود کو بلامقابلہ منتخب کروالیں تو انتخابات کی ساکھ پر دھبہ لگ جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہے کہ یہ اس حکومت کی پہلی سیاسی غلطی تھی۔

اس کے بعد 7 مارچ کی پولنگ میں بظاہر پیپلز پارٹی نے 151 نشستیں جبکہ پی این اے نے 36 نشستیں جیتیں۔ بلامقابلہ انتخاب کی وجہ سے تاثر یہ تھا کہ سرکاری مشینری کو استعمال کیا گیا ہے اور مقامی سطح پر سیاسی غنڈہ گردی کے نتیجے میں شاید پیپلز پارٹی کو یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس زمانے کے میڈیا نے بھی رپورٹ کیا کہ پولنگ کے دن بہت سے مقامات پر بیلٹ بکس چھینے گئے اور ان میں ووٹ میں بھرے گئے اور دیگر متعدد بےقاعدگیاں بھی ہوئیں۔ پی این اے حیران تھی کہ انہیں صرف 36 نشستیں ملی ہیں تو انہوں نے 10 مارچ 1977ء کو منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

11 مارچ کو مبینہ دھاندلی کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے اور پہیہ جام ہڑتالیں شروع ہوگئیں۔ چونکہ پی این اے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ زیادہ تھا تو پاکستان کی بیشتر مساجد بالخصوص کراچی اور پنجاب کی مساجد بھٹو مخالف تحریک کا گڑھ بنتی چلی گئیں۔ پھر اس تحریک کا رخ بدلنے لگا۔ پہلے تو اس کا نعرہ تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے انتخابات دوبارہ کروائے جائیں لیکن تقریباً 2 ہفتے گزرنے کے بعد ایک نیا نعرہ سامنے آیا کہ ملک میں نظام مصطفیٰ لایا جائے گا۔ یہ تحریک شہروں کی حد تک خاصی مؤثر ثابت ہوئی کیونکہ میڈیا شہروں میں تھا اور میڈیا بھٹو حکومت سے تنگ تھا، اپوزیشن سخت گیری سے تنگ تھی، تاجر طبقہ نیشنلائزیشن سے تنگ تھا۔ اس تحریک کو تاجر طبقہ کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ مذہبی مدارس کے طلبہ اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے اسٹوڈنٹ ونگز نے اسٹریٹ پاور کے طور پر کافی فعال کردار ادا کیا اور ان کی دیکھا دیکھی وکلا کی بھی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہوگئی۔

  بھٹو، پی این اے کے رہنماؤں سے بات چیت کرتے ہوئے
بھٹو، پی این اے کے رہنماؤں سے بات چیت کرتے ہوئے

حکومت کو جس وقت لچک دکھانی چاہیے تھی اس وقت نہیں دکھائی اور جب وقت گزرنے لگا تب لچک دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ نتیجتاً ابتدائی طور پر لاہور، کراچی اور حیدرآباد میں حالات قابو میں کرنے کے لیے مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاستدانوں کی اس لڑائی میں فوج بھی ایک پارٹی بن گئی اور پھر رفتہ رفتہ طاقت کا توازن سیاستدانوں سے کھسکتا ہوا فوج کی طرف جھکتا چلا گیا۔ اس زمانے میں یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ پی این اے کے سرکردہ رہنما اصغر خان نے فوجی قیادت کو خط لکھ کر کہا کہ وہ ملکی انتظام سنبھال لیں۔

اس دوران پاکستان کی تاریخ میں جو پیش رفت ہوئی وہ دوست ممالک کی مداخلت تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس زمانے کے لوگوں کو شاید یاد ہو کہ سعودی سفیر ریاض الخطیب صاحب نے جب یہ دیکھا کہ سیاستدان ملک کو کسی اور جانب لے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ بالکل اچھا نہیں تو انہوں نے ایک برادر ملک کے سفیر کے طور پر اپنی ثالثی کی خدمات پیش کیں۔ حکومت اور حزب اختلاف نے یہ پیشکش قبول کی۔ لہٰذا بہت حد تک ان کی کوششوں سے پی این اے اور حکومت بات چیت کرنے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر رضامند ہوگئیں۔

تقریباً سوا مہینے تک یہ مذاکرات چلتے رہے۔ ان میں کبھی تیزی آجاتی تھی، کبھی یہ سست ہوجاتے تھے لیکن سڑکوں پر یہ تحریک نہیں رکی۔ بلآخر انتخابات کروانے کی تاریخ پر اتفاق ہوگیا۔ پاکستان میں دوبارہ انتخابات کے لیے اکتوبر کی کسی تاریخ پر اتفاق کیا گیا۔ اس سمجھوتے کے بعد سب توقع کررہے تھے کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے لیکن اچانک 4 اور 5 جولائی کی درمیانی شب ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں آئی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاالحق نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

پی این اے جسے احتجاج اور یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ ہمارا تو سمجھوتا ہوگیا کہ آپ کیوں آئے ہیں؟ انہوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ پہلی مارشل لا کابینہ میں پی این اے نے وزارتیں حاصل کیں۔ ضیاالحق نے اپنے حق میں فضا بنانے کے لیے سب سے پہلے بھٹو صاحب کی جانب سے بلوچستان اور صوبہ سرحد کی حکومت میں قائم ہونے والے حیدرآباد ٹربیونل کو توڑ دیا۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن روک دیا گیا۔ اکثر مخالفین بھٹو کا سر چاہتے تھے اور ضیاالحق نے ان جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ خود کو مضبوط کیا۔

مجھے یاد ہے کہ جب 5 جولائی کو ضیاالحق نے ریڈیو اور ٹی وی پر پہلی تقریر کی تھی تب انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ فوج ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی اقتدار میں نہیں رہے گی اور انشااللہ 90 دنوں میں انتخابات کروا کر بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔ لیکن پھر جب انسان کرسی پر بیٹھتا ہے تو دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ کرسی تو اچھی چیز ہے اور میرے لیے کیا برا ہے کہ میں جب تک اقتدار سنبھال سکتا ہوں سنبھالے رکھوں۔ ضیاالحق صاحب کے ذہن میں بھی یہ خیال آیا ہوگا تب ہی جب انتخابات نزدیک آئے تو انہوں نے احتساب کا نعرہ لگا کر کہا کہ پہلے پچھلی حکومتوں کا چھوڑا ہوا سیاسی گند صاف کیا جائے گا، سب کا احتساب ہوگا پھر جب پانی صاف ستھرا ہوجائے گا تب ہم انتخابات کروادیں گے۔

اس دوران سیاست اور آئین معطل ہوچکے تھے اس لیے کسی کی طرف سے بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی آواز بلند نہیں کی گئی۔ اس دوران پیپلزپارٹی سب سے بڑی دشمن تھی، سب جانتے تھے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی دو تہائی تو نہیں لیکن سادہ اکثریت ضرور لے لے گی۔ لہٰذا مکڑی کا جال بننا شروع کیا گیا۔ 1974ء میں نواب محمد احمد خان جو احمد رضا قصوری صاحب کے والد تھے ان کا لاہور میں قتل ہوا تھا، اس کی ایک پرانی ایف آئی آر نکالی گئی اس میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت چند لوگوں کا نام تھا، اس ایف آئی آر کو زندہ کیا گیا اور اس کے بل بوتے پر لاہور ہائی کورٹ میں کہ جس کے چیف جسٹس مولوی محمد مشتاق تھے، یہ مقدمہ دوبارہ چلایا گیا۔

حالانکہ ذوالفقارعلی بھٹو براہِ راست قتل میں ملوث نہیں تھے لیکن دوبارہ مقدمہ چلنے کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بھی سزائے موت سنا دی۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ نے بھی صرف ایک جج کی اکثریت سے یہ فیصلہ برقرار رکھا اور سب کو نظر آگیا تھا کہ بقول ولی خان ’قبر ایک ہے مردے دو ہیں‘۔ لہٰذا سب کو اندازہ تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوجائے گی اور بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی۔

  پرانی ایف آئی آر کو زندہ کرکے بھٹو کو بھانسی دی گئی
پرانی ایف آئی آر کو زندہ کرکے بھٹو کو بھانسی دی گئی

اس کے نتیجے میں شروع میں تو خاموشی رہی لیکن پھر رفتہ رفتہ سیاست میں مسلح عسکریت پسندی کا فروغ ہوا۔ 1981ء میں پی آئی اے کے طیارے کی ہائی جیکنگ ہوئی۔ کابل میں ناراض پیپلز پارٹی کے کارکنان اور مرتضیٰ بھٹو کی جانب سے ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ کام ’الذوالفقار‘ نے کیا ہے۔ اس وقت پہلی بار الذوالفقار کا نام سنا گیا۔ جب یہ نام سامنے آیا تو گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور مارشل لا حکومت پوری قوت سے حرکت میں آگئی۔ جو قانونی سیاسی تحریک تھی اسے بھی الذوالفقار کا لیبل لگا کر ختم کرنا شروع کردیا گیا۔

  بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سیاست میں مسلح عسکریت پسندی کا فروغ ہوا
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سیاست میں مسلح عسکریت پسندی کا فروغ ہوا

ہم دیکھتے ہیں کہ 1983ء میں ضیاالحق کے خلاف تحریکِ بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) چلی جس کا سندھ میں سب سے زیادہ زور تھا، اس کے بعد یہ 1986ء میں بھی چلی لیکن اس کو سختی سے کچل دیا گیا۔ ضیاالحق صاحب کو دراصل افغان خانہ جنگی سے مدد ملی۔ افغانستان میں 1977ء میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد ضیاالحق برسرِ اقتدار آئے۔ ایسے میں امریکا یعنیٰ مغرب چونکہ سوویت یونین کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا، اس نے وہاں سے امداد پہنچانا شروع کی تو ضیاالحق ان کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ڈالرز کی بہار شروع ہوجاتی ہے، معاشی استحکام نظر آنے لگا، نیشنلائزیشن کی پالیسی ریورس ہوگئی۔ یوں ضیاالحق ایک نئے اعتماد سے پہلے 1979ء میں بلدیاتی الیکشن کرواتے ہیں اور ایک نیا پرو ضیاالحق طبقہ ظہور میں آتا ہے جس نے بعد میں رفتہ رفتہ 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی جس کا ذکر ہم اگلی قسط میں کریں گے، اس میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔

1979ء کے پہلے غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ضیاالحق کا لگایا ہوا پودا اب ایک گھنا تن آور درخت بن چکا ہے۔ اس کے 7 برس بعد 1985 میں پہلی بار ون مین ون ووٹ بنیاد پر ہی لیکن غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات تو کروائے گئے لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ بکری نے دودھ تو دیا لیکن مینگنیاں ڈال کر۔ یہ کیا ماجرا تھا اس کا احوال ہم آپ کو اگلی قسط میں بتائیں گے۔