Dawnnews Television Logo

’سیاست کا حال مت پوچھو‘

کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، گمان ہے کہ دماغ بھی نہیں ہوتا ورنہ سیاسی تاریخ اتنی عبرت ناک نہ ہوتی ہے۔
شائع 29 جنوری 2024 10:22am

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

آغا شورش کاشمیری کا یہ شعرانہ تبصرہ اس وقت کا ہے جب سیاست ’سربازار می رقصم‘ کا منظر پیش کررہی تھی، پھر ہوا یوں کہ تماشا دیکھنے اور تالیاں پیٹنے والے اس رقاصہ جلوہ فروش کے جلوے میں اُس بازار کے زینے تک جا پہنچے جہاں پاپوش سے پہلے پوشاک اور اس سے قبل عزت اتر جاتی ہے۔ ایسے میں اگر آج آغا صاحب زندہ ہوتے تو اپنے کہے کو کافی نہ پاتے اور پکار اٹھتے ’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیان کے لیے‘۔

انتخابات کو اگر سیاست کا موسم برسات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ برساتی مینڈکوں یا موسمی سیاستدانوں کے دم قدم سے ڈیروں اور بیٹھکوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں، خوشی و غمی کی محفلیں اور مجلسیں ان سیاست دانوں کے نشانے پر ہوتی ہیں کہ ’ووٹر‘ ہے بڑی چیز جہانِ دگ و دو میں’۔

سیاسی بالیدگی یا بالغ نظری موضوع سے خارج ہے کہ سردست انتخابی سیاست میں پیش آنے والے دلچسپ و عجیب ہی نہیں عبرتناک واقعات کا بیان بھی مقصود ہے۔ ماضی قریب و بعید کے انتخابی قصائد کا قصد کرنے سے قبل قیام پاکستان سے قبل کی سیاست کا ورق الٹتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ برطانوی ہند میں 1937ء کے صوبائی انتخابات کے بعد جو نقشہ تشکیل پایا اس میں متحدہ پنجاب کی حکمرانی یونیونسٹ پارٹی کے حصے میں آئی اور صوبائی پریمیئر (وزیراعلیٰ) کا تاج سردار سکندر حیات کے سر سجا۔ سردار سکندر حیات متحدہ پنجاب کے پریمیئر بنے تو انہوں نے چاہا کہ کسی نہ کسی طرح مولوی غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ کو بھی اس صوبائی الیکشن میں ممبر چن لیا جائے۔

    سردار سکندر حیات— تصویر: وکی پیڈیا
سردار سکندر حیات— تصویر: وکی پیڈیا

مولوی صاحب بڑے پائے کے مقرر اور قومی خدمات میں پیش پیش ہونے کے باوجود ووٹ مانگنے کے فن سے ناآشنائے محض تھے۔ اب جبکہ سردارسکندر حیات طے کرچکے تھے کہ غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ کو رکن منتخب کروانا ہے تو انہوں نے اپنے پروگرام کو شطرنج کی دو آسان چالوں کی طرح اس طور ترتیب دیا کہ ان کے دام فریب میں آنے والوں کو خبر تک نہ ہوئی کہ انہیں ’شہ مات‘ ہوگئی ہے۔

پہلے مرحلے میں سردار سکندر حیات نے شیخوپورہ کی ایک دیہی نشست سے غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ پھر انہوں نے انگریزی زبان کے معروف مترجم قرآن اور کئی علمی کتابوں کے مصنف علامہ عبداللہ یوسف علی کو اسمبلی میں مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی کے نام پر اس انتخابی عمل کا حصہ بنے پر راضی کیا۔ اس کے بعد سردار سکندر حیات نے علاقے کے ایک بااثر زمیندار کو بھی کاغذات جمع کروانے پر آمادہ کر لیا۔

جب ایک ہی نشست پر سردار سکندر حیات کی حسبِ منشا تینوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروادیے تو دوسری چال چلتے ہوئے سردار سکندر حیات، زمیندار کے پاس جا پہنچے اور اسے یہ کہہ کر انتخابی معرکے سے دستبردار کروالیا کہ تمہاری خوش نصیبی ہے کہ علامہ عبداللہ یوسف علی جیسی عالمی شہرت کی حامل علمی شخصیت آپ کے علاقے سے الیکشن لڑرہی ہے، اگر یہ یہاں سے ہار گئے تو آپ کے علاقے کے معززین کی بہت سُبکی ہوگی۔

سردار سکندر حیات یہاں سے فارغ ہوئے تو علامہ عبداللہ یوسف علی کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ ہماری تو بہت خواہش تھی کہ آپ جیسا لائق آدمی اسمبلی میں موجود ہو لیکن آپ کے مقابلے میں علاقے کا یہ جو بڑا زمیندار آگیا ہے اس کو ہرانا بہت مشکل ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ آپ ہار جائیں گے اس سے آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے علمی وقار کو بھی دھچکا لگے گا۔ لہٰذا ہمارا خیال ہے آپ اپنا نام واپس لے لیں۔ علامہ عبداللہ یوسف علی عزت بچانے کے خیال سے اپنا نام واپس لینے پر راضی ہوگئے۔ جب اس انتخابی معرکے کے تین امیداروں میں سے دو نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تو نتیجتاً مولوی غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوگئے۔ کہنے والے نے بالکل درست کہا ہے،

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم
تو نہ سمجھے گا سیاست، تو ابھی نادان ہے

  علامہ عبداللہ یوسف علی عزت بچانے کے خیال سے اپنا نام واپس لینے پر راضی ہوگئے—تصویر: وکی پیڈیا
علامہ عبداللہ یوسف علی عزت بچانے کے خیال سے اپنا نام واپس لینے پر راضی ہوگئے—تصویر: وکی پیڈیا

آگے بڑھنے سے قبل یہ بات سمجھ لیں کہ یونیونسٹ پارٹی ابن الوقت قسم کے افراد کا ٹولہ تھا اور اس ٹولے کا سرخیل سردارسکندر حیات جیسا کائیاں سیاستدان تھا جن کے کارناموں کی ایک جھلک آپ نے ملاحظہ کی۔ جب اس گروہ نے پاکستان کا قیام نوشتہِ دیوار جانا تو گروہ در گروہ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگا، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کے بعض سنجیدہ فکر افراد میں یہ تشویش پیدا ہوگئی کہ کہیں اتنی بڑی تعداد میں جاگیرداروں کی مسلم لیگ میں شمولیت سے مسلم لیگ ’زمیندارہ لیگ‘ نہ بن جائے گی۔

کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، گمان ہے کہ دماغ بھی نہیں ہوتا ورنہ سیاسی تاریخ اتنی عبرتناک نہ ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست کے دو رُخ قابل ذکر ہیں۔ اول موروثیت و اقربا پروری اور دوم اقربا دشمنی۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کہیں قریبی رشتے دار پہلو بہ پہلو انتخابی معرکے میں اترے ہیں تو کہیں سگا خون اپنوں کے خلاف میدان سیاست میں تلوار سونتے کھڑا ہے۔

اقربا پروری

دنیا میں جدید جمہوریتوں کا رجحان پرانی سیاست گری کے خوار اور عوام کے میر و سلطان سے بیزار ہونے کا نتیجہ تھا مگر پھر ہوا یہ کہ جمہوریت کے نام پر میدان سیاست میں اترنے والی پارٹیاں موروثیت کی دلدل میں اتر گئیں۔ خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو 1980ء کی دہائی میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے بعد ان کے بیٹے اسد جونیجو اس پارٹی کے وارث قرار پائے۔

  محمد خان جونیجو اور ان کے بیٹے اسد جونیجو
محمد خان جونیجو اور ان کے بیٹے اسد جونیجو

مسلم لیگ (ن)

جونیجو لیگ کی کوکھ سے نواز لیگ نے جنم لیا اور جب نوازشریف وزیراعظم بنے تو پنجاب کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے نگاہِ انتخاب اگر کسی پر پڑی تو وہ بھائی شہباز شریف تھے اور جب ماضی قریب میں عدالتی نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تو پارٹی کی سربراہی اپنے اسی بااعتماد بھائی کے سپرد کردی۔ حالات نے کسی قدر کروٹ لی تو شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ جبکہ نوازشریف کی دختر نیک اختر مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر بنا دی گئیں۔

  شریف برادران اور مریم نواز قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات لڑیں گی
شریف برادران اور مریم نواز قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات لڑیں گی

مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2024ء میں حصہ لینے کے لیے جن امیدواروں کو اہل جانا ان میں ایک قابلِ ذکر تعداد باپ بیٹا، بھائی بھائی، چچا بھتیجا حتیٰ کے میاں بیوی جیسے قریبی رشتوں پر مشتمل ہے۔ اس صورتحال کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

  • میاں نواز شریف، ان کی سیاسی وارث بیٹی مریم نواز قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
  • پھر نوازشریف کے بھائی شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابی میدان میں ہیں۔
  • ڈیرہ غازی خان سے سابق وزیر اویس لغاری جبکہ ان کے بیٹے عمار لغاری کو راجن پور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا ہے۔
  • لاہور سے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی اور ان کے بھائی سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
  • مظفر گڑھ سے سابق وزیر سید باسط بخاری اور ان کی صاحبزادی سیدہ شہر بانو بخاری کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
  • وہاڑی سے بیگم تہمینہ دولتانہ اور ان کے صاحبزادے عرفان عقیل دولتانہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے.
  • شیخوپورہ سے سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف قومی اسمبلی جبکہ ان کے بھائی میاں امجد لطیف صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔
  • راجن پور سے سابق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو صوبائی اور ان کے چچا ریاض مزاری کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔
  • فیصل آباد سے رانا ثنا اللہ خان کو قومی اسمبلی اور ان کے داماد رانا احمد شہریار کو صوبائی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔

ایسی صورتحال میں سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’قیاس کن ز گلستان من بہار مرا‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی

  پیپلز پارٹی موروثی سیاست کی مثال ہے
پیپلز پارٹی موروثی سیاست کی مثال ہے

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کے بعد ان کی جانشینی ان کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو کے حصے میں آئی اور جب وہ بھی نہ رہیں تو پی پی کے راج سنگھاسن پر بھٹو کے داماد آصف علی زرداری اس شان سے جلوہ افروز ہوئے کہ 2008ء میں بننے والی حکومت میں کچھ اس طرح صدر مملکت تھے کہ انہوں نے ’فضل الہٰی چوہدری‘ کے دامن پر لگا ’افسر بےکار‘ کا داغ دھو دیا۔ یوں پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے بھی ملکی معاملات عملاً ایوان صدر سے چلتے رہے۔

آصف علی زرداری نے اپنے حین حیات ہی بلاول بھٹو کو نہ صرف پارٹی کا چیئرمین بنادیا ہے بلکہ عمران حکومت کی رخصتی پر برسرِ اقتدار آنے والی اتحادی حکومت میں انہیں وزراتِ خارجہ جیسے اہم عہدے پر بھی تعینات کروادیا۔ اب ایسے وقت میں جبکہ بلاول بھٹو زور و شور سے انتخابی مہم چلارہے ہیں، گاہے ان کی دختر صغریٰ آصفہ بھٹو بھی اس مہم میں نظر آجاتی ہیں۔

  پی پی کے راج سنگھاسن پر آصف زرداری شان سے جلوہ افروز ہیں
پی پی کے راج سنگھاسن پر آصف زرداری شان سے جلوہ افروز ہیں

جمیعت علمائے اسلام (ف)

جمعیت علمائے اسلام کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ دین پسند جماعت ہے مگر اس حقیقت کے باوجود کہ موروثیت کو اسلام میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، اس جماعت کے سربراہ کا گھرانہ اس باب میں ’ہمہ خانہ آفتاب است‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسمعٰیل خان اور بلوچستان کے علاقہ پشین سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دو بھائی مولانا عبید الرحمٰن اور مولانا لطف الرحمٰن ڈیرہ اسمٰعیل خان سے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کے دو فرزند مولانا اسد محمود نے ٹانک جبکہ مولانا اسجد نے لکی مروت سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر خواہر نسبتی شاہدہ اختر علی کو قومی اسمبلی جبکہ ریحانہ اسمٰعیل کو صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ جاری کیا ہے۔

اس صورتحال پر غالب کے کہے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ ’ناطقہ سربہ گریبان کہ اسے کیا کہیے‘۔

  مولانا فضل الرحمٰن کا پورا گھرانہ ہی انتخابات میں حصہ لے گا
مولانا فضل الرحمٰن کا پورا گھرانہ ہی انتخابات میں حصہ لے گا

بات مولانا فضل الرحمٰن تک محدود نہیں کہ خیبرپختونخوا میں اور کئی سیاستدان ہیں جنہیں پارٹی کی خاطر ڈنڈے کھانے کے لیے ورکرز جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت اپنے پیارے یاد آجاتے ہیں۔ مثلاً اکرم خان درانی، پرویز خٹک، اسد قیصر، امیر مقام نے اپنے بچوں، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹوں سے نوازا اور کارکنوں کو نظرانداز کردیا۔

جے یو آئی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی قومی اور صوبائی اسمبلی سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اکرم درانی کے دو صاحبزادے سابق ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی اور زوہیب درانی کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک خود قومی اسمبلی سمیت دو صوبائی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا چکے ہیں۔ ان کے بیٹے ابراہیم خٹک اور اسمعٰیل خٹک نوشہرہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ داماد عمران خٹک بھی قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔

  پرویز خٹک اور ان کے صاحبزادے اسمعیٰل اور ابراہیم خٹک—تصویر: ایکس
پرویز خٹک اور ان کے صاحبزادے اسمعیٰل اور ابراہیم خٹک—تصویر: ایکس

سابق وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر (مرحوم) کے فرزند سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر دونوں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ارباب عالمگیر نے قومی اسمبلی کی نشست پر پشاور سے کاغذات جمع کروائے جبکہ پیپلزپارٹی نے ارباب عاصمہ عالمگیر کو قومی اسمبلی میں خواتین کی نشست پر ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ارباب فیملی سے ارباب زرک خان نے بھی صوبائی کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کیے ہیں۔

خاندانی سیاست کی مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما، علی امین گنڈاپور نے بھی اپنوں ہی میں ٹکٹ تقسیم کیے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے بھائی عمر امین ڈیرہ سٹی کے میئر بھی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام خود قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرواچکے ہیں۔ دوسری جانب ان کے بھائی ڈاکٹر عباد اور بیٹے نیاز احمد خان نے بھی شانگلہ سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور ان کے بیٹے چارسدہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر قومی اور ان کے بھائی عاقب بھی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر حصہ لینے کے لیے انتخابی میدان میں ہیں۔

  سابق اسپیکر اسد قیصر کے بھائی بھی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات لڑیں گے
سابق اسپیکر اسد قیصر کے بھائی بھی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات لڑیں گے

عہد جدید میں موروثی سیاست

سچی بات تو یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ چند گھرانوں کا تذکرہ تو مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق دیگ کے چند چاولوں جیسا ہے، ورنہ پاکستان میں ’الیکٹیبلز‘ کی راہ سے در آنے والی موروثیت کا رنگ پاکستان سیاست پر خاصا چوکھا چڑھا ہے، اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور موجود ہوگی۔

موروثی سیاست پر یہ تبصرہ برائے تبصرہ نہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے زیراہتمام کی جانے والی تحقیق کے نتائج اس بات کے ثبوت ہیں کہ پاکستان نے اس باب میں خاصا نام کمایا ہے۔

لیکن اس تحقیق پر نظر ڈالنے سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ ’الیکٹیبلز‘ کیا چیز ہیں۔

’الیکٹیبلز‘ کون ہیں؟

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ پاکستان میں موروثی سیاست ’الیکٹیبلز‘ کے دم قدم سے آگے بڑھی اور انہیں ان حلقوں نے بھی قبول کرلیا جو خالصتاً نظریاتی سیاست کے علمبردار یا کاروباری ذہنیت کے حامل تھے، اس کی مثال نوازشریف و بھٹو خاندان کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن کی ذات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں ایک ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’الیکٹیبلز‘ آخر ہوتے کون ہیں؟’

’الیکٹیبلز‘ کی اصطلاح ان افراد یا خاندانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ذاتی زور و دبدبے کی بنیاد پر اپنے علاقے میں حکومت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کا ووٹ بینک کسی سیاسی جماعت کا محتاج نہیں ہوتا۔

  الیکٹیبلز کا ووٹ بینک کسی سیاسی جماعت کا محتاج نہیں ہوتا
الیکٹیبلز کا ووٹ بینک کسی سیاسی جماعت کا محتاج نہیں ہوتا

’وفادار مسلمان‘

ہندوستان پر برطانوی دور حکومت میں ایسے بااثر افراد یا خاندانوں کو تاج برطانیہ کی حمایت کے بدلے زرعی زمینیں، وظائف اور القابات سے نوازا گیا اور ساتھ ہی نمبرداری اور ذیلداری نظام قائم کیا گیا جس کے ذریعے اس طبقے کا مقامی سیاست میں کردار اہم ہوگیا۔

سرکار برطانیہ اپنے رعایا سے انہیں ان لوگوں کے ذریعے اپنی اطاعت کرواتی رہی، اس نظام کے مؤثر ہونے کی وجہ ہی سے بہت سی جگہوں پر ان بااثر افراد کو مجسٹریسی کے اختیارات بھی دیے گئے، ان کے خاندانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے اور یوں یہ طبقہ وفادار مسلمان (loyal Muhammadan) کہلایا۔

یوں پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ ’الیکٹیبلز‘ موجود ہیں مگر اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو سردار جعفر خان لغاری اس کی اچھی مثال ہیں۔ آپ اول جنرل ضیاالحق کی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے، پھر پیپلز پارٹی میں آئے، ق لیگ کو پیارے ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے ہمسفر بنے اور پھر پاکستان تحریک انصاف کا مزا چکھا اور ان میں سے ہر پارٹی میں رہتے ہوئے کامیابی سمیٹتے رہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ ووٹ کسی پارٹی کا نہیں بلکہ ان کا اپنا تھا۔

ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے تحقیقی نتائج

لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے زیرِاہتمام پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند ممالک سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ امریکی کانگریس میں 1996ء میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010ء تک 28 فیصد جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔

  پاکستان میں موروثی سیاست کا تناسب بہت زیادہ ہے
پاکستان میں موروثی سیاست کا تناسب بہت زیادہ ہے

ظاہر ہے کہ یہ نتائج کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے تباہ کُن ہیں کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ اختیارات و وسائل کا چند خاندانوں تک محدود ہوجانا ہوتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بالخصوص پنجاب میں ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کی تحقیق کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے مطابق 1985ء سے 2008ء کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے تاحال یہ حالات نہیں بدلے۔ اور اس وقت موروثی سیاست کا جو نقشہ تشکیل دیا گیا ہے اس کے مطابق زیادہ تر خاندانی سیاست میں بیٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، پھر بھتیجوں کا نمبر ہے اور سب سے کم دامادوں کا حصہ ہے اور کہیں بہت دور جا کر بیٹیاں اس کی حصے دار بنتی ہیں۔

انتخابی سیاست میں موروثیت کا حصہ

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے مطابق مجموعی طور پر یہ موروثی یا خاندانی سیاست دان 2008ء کے انتخابات تک قومی اسمبلی کا 50 فیصد رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’الیکٹیبلز‘ امیدوار ڈھونڈے اور اس طرح نئی جماعتیں بھی موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہیں۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سیاسی رحجان بلکہ بحران سے گلوخلاصی کسی طور ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ جواب ہے کہ سیاسی عمل میں غیرسیاسی قوتوں کی عدم مداخلت اور تعلیم کا فروغ ایسے دو عوامل ہیں جو اس سیاسی منظر نامے کو بدل سکتے ہیں ورنہ بقول رئیس امروہوی،

گلہ نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا
یہی جو ہے، یہی ہوگا، یہی رہا ہوگا