Dawnnews Television Logo

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (آٹھویں قسط)

نواز شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے کسی جنرل کو بالکل ایسے تلاش کرتے ہیں جیسے لڑکی کا رشتہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ سب کرکے جب اسے سپہ سالار تعینات کردیتے ہیں تو اسی سے ان کی لڑائی ہوجاتی ہے۔
شائع 07 فروری 2024 06:57pm

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ ہم پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کی ٹرین میں بیٹھے ہیں اور گزشتہ قسط میں ہم 1997ء کے انتخابات کے اسٹیشن تک پہنچے تھے۔ ہم نے یہ دیکھا تھا کہ 1997ء کے انتخابات میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تھی، سینیٹ میں ان کی سادہ اکثریت تھی پھر بھی انہوں نے پوری توجہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر مرکوز کی۔ اللہ جانے وہ اپنی پوزیشن اور کتنی مضبوط کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس سے پہلے تک کسی سویلین حکومت کو دو تہائی اکثریت نہیں ملی تھی۔

انہیں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اپنی جماعت کو ڈسیپلن میں رکھنے کے لیے انہوں نے 13 ویں اور 14 ویں ترامیم پیش کیں جو اکثریت ہونے کی وجہ سے منظور بھی ہوگئیں۔ ان ترامیم کا مقصد یہ تھا کہ اگر ایوان کے اندر کوئی رکن اسمبلی پارٹی لائن سے الگ مؤقف رکھے یا کسی قانونی بل کی رائے شماری میں پارٹی کے فیصلے کے برعکس اپنے طور پر ووٹ دینا چاہے تو اسے نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ دو تہائی اکثریت سے البتہ یہ فائدہ ہوا کہ نواز شریف نے اٹھاون ٹو (بی) کی تلوار ایک دن اچانک صدر فاروق لغاری سے واپس لے لی۔

اب جب دو تہائی اکثریت مل گئی تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کے ساتھ آپ برداشت کا ثبوت دیتے، دل بڑا کرتے کیونکہ اکثریت بڑی ملی تھی تو دل بھی بڑا ہونا چاہیے تھا لیکن اکثریت بڑی مل گئی مگر دل وہی چھوٹا رہ گیا۔ ایک احتساب بیورو قائم کیا گیا جو اپنی حکومت کا نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں اور اپوزیشن کے لوگوں کا احتساب کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ چلیں اگر آپ نے احتساب بیورو قائم کر ہی دیا ہے تو اس کا سربراہ کسی غیر جانبدار شخصیت یا جس کا ماضی بےداغ ہو اسے بنانا چاہیے تھا لیکن احتساب بیورو کا سربراہ حکمران جماعت کے رکن اور شریف خاندان کے وفادار سینیٹر سیف الرحمٰن کو بنایا گیا۔ احتساب بیورو کو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو نشانہ بنانے کے لیے چھوڑ دیا گیا کہ جو چاہے کرے۔

میڈیا کو لگام دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ آپ کو دو تہائی اکثریت ملی ہوئی تھی تو میڈیا سے آپ کو بھلا کیا خطرہ ہے لیکن میڈیا بھی وفادار ہونا چاہیے تھا۔ پھر عدالت عظمیٰ بھی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ان کا چھپن کا آنکڑہ ہوگیا اور ان کی برطرفی کے معاملے پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ افسوسناک واقعہ ہوا کہ نہ صرف سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھائی ہوئی بلکہ سپریم کورٹ کے ججز باقاعدہ طور پر دو عدالتوں میں تقسیم ہوگئے یعنی ایک دن ایسا بھی تھا کہ ملک میں دو سپریم کورٹس کام کر رہی تھیں۔

اس دوران آرمی چیف جہانگیر کرامت نے کسی سیمینار میں ایک تجویز پیش کی تھی کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل بھی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد شریف حکومت نے کہا کہ آپ نے ایسی بات کیوں کی ہے، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں وغیرہ۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت بےچارے شریف آدمی تھے تو انہوں نے اپنے طور پر استعفیٰ دے دیا۔ پھر ظاہر ہے کہ فاروق لغاری بھی تنہا رہ گئے اور اٹھاون ٹو (بی) کی تلوار تو پہلے ہی ان کے ہاتھ سے نکل گئی تھی اور پیپلزپارٹی پہلے ہی انہیں غدار سمجھتی تھی تو انتہائی تنہائی کے عالم میں انہیں بھی استعفیٰ دینا پڑگیا اور ان کی جگہ نواز شریف نے ایک سادہ طبیعت سپریم کورٹ کے سابق جج اور اپنے وفادار رفیق تارڑ صاحب کو صدر مملکت بنا دیا۔

15ویں آئینی ترمیم بھی پیش کی گئی جس میں وزیراعظم نے امیرالمومنین بننے کی کوشش کی کہ بس میں ہی میں ہوں، وہ ایک مصرعہ ہے ناں ’گلیاں ہوجان سنجیاں وچ رانجھا یار پھرے‘۔ تو ہمارے حکمرانوں کو یہ شوق ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے آئے ہیں اور پھر اس کے بعد ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔

پھر کارگل کا واقعہ پیش آیا۔ جہانگیر کرامت کی جگہ انہوں نے خود ہی آرمی چیف پرویز مشرف کو نامزد کیا اور پھر خود ہی ان کے ساتھ پنگے بازی شروع کردی۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نواز شریف کی یہ خاص خوبی ہے کہ پہلے وہ اپنی مرضی کے کسی جنرل کو بالکل ایسی چھان پھٹک کر تلاش کرتے ہیں جیسے لڑکی کا رشتہ تلاش کیا جاتا ہے کہ داماد میں یہ خوبیاں ہونی چاہئیں اور یہ نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ سب کرکے جب اسے سپہ سالار تعینات کردیتے ہیں تو کچھ عرصے بعد اسی سے ان کی لڑائی ہوجاتی ہے۔

  راولاکوٹ کے قریب آزاد کشمیر کے کیل سیکٹر میں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف ساتھ چہل قدمی کررہے ہیں—تصویر: اے ایف پی
راولاکوٹ کے قریب آزاد کشمیر کے کیل سیکٹر میں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف ساتھ چہل قدمی کررہے ہیں—تصویر: اے ایف پی

جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ غلط فہمیاں ہوگئیں جس میں کارگل کا بہت بڑا کردار تھا جس میں بھارت کے ساتھ جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی، امریکا کو بیچ میں کودنا پڑا، معاملہ آرمی کی قیادت کے ہاتھ سے نکلنے لگا تو انہوں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ جاکر صلح صفائی کی کوشش کریں۔ بہرحال اس دوران دونوں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھ گئیں۔

12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے تو اچانک میاں صاحب نے سیان پتی سے کام لیتے ہوئے انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہوا، اس چکر میں وزیراعظم کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے اسی رات آئین سے بالا عہدہ ایجاد کیا جسے چیف ایگزیکٹو کہا گیا۔ اس عہدے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہی آئین میں چیف ایگزیکٹو نام کا کوئی عہدہ پایا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹو تقریر کی اور اسی حیثیت سے انہوں نے جزوی طور پر آئین کو معطل کردیا۔ اگلے برس مئی 2000ء میں سپریم کورٹ نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے اس متنازعہ فیصلے کی توثیق کرکے انہیں حکم دیا کہ وہ تین برس میں الیکشن کروانے کے پابند ہیں۔

  جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1997ء کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا
جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1997ء کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا

اس کے بعد مشرف صاحب نے پاکستان کو درپیش علاقائی مسائل کا حل نکالنے پر توجہ دی اور اس میں چونکہ سرفہرست مسئلہ کشمیر چلا آ رہا ہے تو انہوں نے آؤٹ آف باکس حل کی خاطر 20 جون 2001ء کو آگرہ، بھارت جانے سے پہلے جہاں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی، رفیق تارڑ صاحب کو سبکدوش کرکے صدارت کی ٹوپی بھی اپنے سر پر رکھ لی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دہلی کس حیثیت سے جاتے کیونکہ چیف ایگزیکٹو کوئی آئینی عہدہ نہیں تھا۔ چیف آف آرمی اسٹاف سے بھارت کا وزیراعظم کیوں مذاکرات کرتا۔ لہٰذا بطور صدر مملکت وہ بھارت میں لینڈ کرنا چاہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رفیق تارڑ صاحب سے صدارت کی ٹوپی لی اور انہیں ایوانِ صدر سے سیلوٹ مار کر گھر روانہ کر دیا۔

  آگرہ میں بھارتی وزیراعظم سے ملاقات سے قبل پرویز مشرف نے صدر کا عہدہ بھی اپنے نام کرلیا
آگرہ میں بھارتی وزیراعظم سے ملاقات سے قبل پرویز مشرف نے صدر کا عہدہ بھی اپنے نام کرلیا

چیف ایگزیکٹو اور آرمی چیف کی ٹوپی تو مشرف صاحب کے پاس پہلے ہی تھی اور اب وہ صدر بھی تھے۔ آگرہ میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، واپس آئے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ جناب آپ تین سالوں میں انتخابات کروانے کے پابند ہیں تو انہوں نے ہر گزشتہ آمر کی طرح اپنی پوزیشن مستحکم کرنے، اپنا ووٹ بینک بنانے اور اپنی وفادار ایک نئی پولیٹیکل کلاس ابھارنے کے لیے بلدیاتی نظام کا سہارا لیا اور ان میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ بعض تبدیلیاں اچھی بھی تھیں مگر اس ملک میں ہمیشہ رونا عملدرآمد نہ ہونے کا ہوتا ہے تو یہاں ان تبدیلیوں پر پوری طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو پایا۔

سویلین حکومت کی تشکیل کے لیے الیکشن کروانے سے پہلے انہوں نے ضیاالحق کی طرح اپنی پوزیشن سیکیور کی۔ 30 اپریل 2002ء کو ایک ریفرنڈم کروایا اور اس میں انہوں نے الحمدللہ ضیاالحق صاحب کی طرح 97.5 فیصد ووٹ لیے اور یوں وہ اپنے تئیں پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب حلال صدر بن گئے۔

مگر وہ سیانے آدمی تھے اس لیے آرمی چیف کا عہدہ پھر بھی نہیں چھوڑا۔ 21 اگست 2002ء کو انہوں نے عبوری آئینی حکم نامہ یعنی ایل ایف او جاری کیا اور خود آئین میں تبدیلیاں کرکے قومی اسمبلی اور حکومت برطرف کرنے کے اختیارات، سروس چیفس، گورنر اور الیکشن کمیشن کی تقرری کے صوابدیدی اختیارات سمیت ہر وہ اختیار جو انہیں اہم لگا انہوں نے حاصل کر لیا۔ یعنی ایک طرح سے نواز شریف نے پچھلے صدر سے اٹھاون ٹو (بی) کی جو تلوار چھینی تھی، پرویز مشرف کے ہاتھ میں دوبارہ وہی تلوار دو دھاری کی شکل میں آگئی۔

  پرویز مشرف کو اٹھاون ٹو (بی) سے بڑھ کر صدارتی اختیارات حاصل ہوگئے
پرویز مشرف کو اٹھاون ٹو (بی) سے بڑھ کر صدارتی اختیارات حاصل ہوگئے

جنرل پرویز مشرف نے ہر حکمراں کی طرح اپنے حریفوں کو نظر میں رکھتے ہوئےکچھ مخصوص قانون سازی بھی کی اور ان کے حریف نواز شریف اور بے نظیر بھٹو تھے۔ مثال کے طور پر چونکہ نواز شریف اور بےنظیر بھٹو دو دو بار وزیراعظم بن چکے تھے تو مشرف صاحب یہ قانون لائے کہ کوئی شخص دو بار سے زیادہ وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد 10 اکتوبر 2002ء کو جنرل پرویز مشرف نے عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ضیاالحق کے زمانے میں اقلیتوں کے لیے جو جداگانہ انتخابی نظام متعارف کروایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ مرکز کی سیاست سے کٹ گئے تھے، مشرف صاحب نے یہ جداگانہ نظام ختم کردیا۔ یوں اب اقلیتیں مین اسٹریم میں امیدوار بھی بن سکتے تھیں اور وہ ووٹ بھی دے سکتے تھے۔ ایک اور اچھا کام یہ ہوا کہ ووٹر کی عمر 21 سال سے کم کرکے 18 سال کر دی گئی۔

اس کے علاوہ ایک اور اچھا کام یہ ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھائی گئیں۔ اس سے پہلے جنرل نشستیں 207 ہوتی تھیں جنہیں بڑھا کر 272 کیا گیا۔ خواتین کی مخصوص نشستیں بڑھا کر 60 جبکہ اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی 10 کر دی گئیں۔ اسی طرح سے صوبائی اسمبلیوں میں بھی نشستوں میں اضافہ ہوا لیکن انہوں نے ایک اڑچن لگا دی کہ جو بھی امیدوار کھڑا ہوگا وہ کم از کم گریجویٹ ہو یعنی ان کا خیال تھا کہ ان پڑھ لوگ یا جن کے پاس ڈگری نہ ہو وہ حکومت نہیں چلا سکتے۔ حالانکہ اگر وہ تاریخ پڑھ لیتے تو انہیں شاید اکبر اعظم کو بھی پڑھنے کا موقع ملتا جو کہ انگوٹھا چھاپ تھا لیکن اس نے 52 برس شاندار طریقے سے حکومت کی تھی۔

ظاہر ہے کہ ہر نیا آمر اپنے آئیڈیاز اپنے ساتھ لے کر آتا ہے لیکن وہ بعد میں نہیں چلتے۔ گریجویٹ ہونے کی شرط ایک الیکشن میں چلی دوسرے الیکشن میں اڑا دی گئی۔ اب بڈھا طوطا تو پڑھنے سے رہا تو ایسے میں جعلی ڈگریوں کا کام شروع ہو گیا، کوئی مدرسے کی سند لے کر چلا آرہا ہے توکوئی دو کمرے کی یونیورسٹی سے سند لے کر آرہا تھا۔ یوں دھما چوکڑی مچ گئی تو مشرف جو پانی کی صفائی کرنا چاہتے تھے، اس سے وہ مزید گندہ ہوگیا۔

روایتی سیاسی جماعتیں تو صرف دو تھیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں جماعتوں سے جنرل مشرف کو شدید قسم کا بیر تھا۔ تو اب کیا کرے تو اس کا توڑ انہوں نے یہ نکالا کہ آئی ایس آئی کی مدد سے مسلم لیگ (ن) میں سے کچھ اینٹیں نکال کر مسلم لیگ (ق) بنائی اور یوں ملک میں ایک اور کنگز پارٹی کا ظہور ہوا۔ سب کو پتا چل گیا کہ اگر اقتدار ٹرانسفر ہوگا بھی تو اسی کنگز پارٹی کو ہوگا۔ پیپلزپارٹی میں بھی تھوڑی سی ٹھوک پیٹ کے بعد تقریباً دس ارکان کو توڑا گیا اور انہیں فیصل صالح حیات کی سربراہی میں پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کے نام سے لانچ کیا گیا۔

  مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی رویتی جماعتیں تھیں، دونوں سے ہی مشرف کو بیر تھا
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی رویتی جماعتیں تھیں، دونوں سے ہی مشرف کو بیر تھا

اس وقت بےنظیر بھٹو دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہی تھیں۔ ان کے شوہر آصف زرداری نومبر 1996ء سے جیل میں تھے۔ خود شریف فیملی دسمبر 2000ء سے جدہ میں مقیم تھی اور انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کی خالی سیٹ مخدوم جاوید ہاشمی کے حوالے کر رکھی تھی۔ نئی مسلم لیگ (ق) کے لیے راستہ ہموار ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کو رجسٹریشن دینے سے انکار کیا گیا تو انہوں نے انتخابات میں شرکت کے لیے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے نام سے رجسٹریشن کروائی۔

اس دوران ایک دلچسپ پیش رفت یہ ہوئی کہ مذہبی جماعتوں کو پاکستان کے انتخابات میں کبھی بھی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی مطلب ان کی اسٹریٹ پاور یا شور شرابے سے بننے والا ان کا اورا ایک جانب لیکن الیکٹورل سیاست میں انہیں کبھی بھی بہت زیادہ سیٹیں نہیں ملیں۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ 2002ء کے انتخابات میں اچانک سے راتوں رات چھے مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنالی۔ لوگ کہتے ہیں یہ خود بخود بن گئی، میرا خیال ہے کہ خود بخود تو اس ملک میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہرحال متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن)، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق)، جمعیت اہلِ حدیث، تحریک اسلامی عرف کالعدم ٹی این ایف جے کو ملا کر ایک مذہبی اتحاد بن گیا۔

  متحدہ مجلس عمل کا اتحاد
متحدہ مجلس عمل کا اتحاد

مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے محتاط انتخابی مہم چلائی اس لیے کیونکہ انہیں پتا نہیں تھا کہ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کا موڈ کیا ہے۔ چونکہ 9/11 ہوچکا تھا اس لیے ایم ایم اے نے کھل کر امریکا مخالف راستے کا چناؤ کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایم ایم اے کو اس لیے جگہ دی گئی تاکہ مشرف صاحب امریکا کو بتا سکیں کہ بھائی صاحب یہ میں نے روک رکھا ہے ملاؤں کو، اگر میں نہ ہوا نہ تو یہ چھا جائیں گے لہٰذا آپ میری مدد کرتے رہیں۔

تو اس کام کے لیے ایم ایم اے استعمال ہوئی ہوسکتا ہے کہ ایم ایم اے کو پتا ہو، ہوسکتا ہے پتا نہ ہو۔ بہرحال جب انتخابی نتائج آئے تو 342 کے ایوان میں مسلم لیگ (ق) جو مشکل سے ڈیڑھ پونے دو سال پہلے پیدا ہوئی تھی، وہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ انہوں نے 122 نشستیں حاصل کیں۔ پیپلز پارٹی کو 80 نشستیں ملیں جبکہ متحدہ مجلس عمل کو 61 نشستیں ملیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی مذہبی سیاسی جماعت کو اتنی بڑی تعداد میں نشستیں ملیں۔ مسلم لیگ (ن) جو گزشتہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت لے چکی تھی، اسے 19 نشستیں ملیں۔ ایم کیو ایم کو 17 قومی اسمبلی کی نشستیں ملیں۔ جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ملا کر 16 نشستیں ملیں۔ ووٹر ٹرن آؤٹ اچھا تھا 42 فیصد رہا۔

پنجاب جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کو 216 جنرل نشستیں ملیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کو صرف 45 نشستیں ملیں۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ جادو ٹونے کا کام ہمارے ہاں کس قدر زوروں پر ہوتا ہے کہ کس کو بونا بنانا ہے اور پھر اسی بونے کو اگلی دفعہ دیو بنا دینا ہے۔ ہم سے اچھا یہ کام کوئی نہیں کر سکتا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو 62 جنرل نشستیں ملیں جبکہ ایم کیو ایم نے 41 نشستیں حاصل کیں۔ البتہ سرحد میں ایم ایم اے کو 66 نشستیں ملیں اور وہاں پہلی بار ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔

اب مسئلہ مرکز کا تھا جہاں مسلم لیگ (ق) سب سے بڑی پارٹی تو بن کر ابھر چکی تھی لیکن 172 کے جادوئی ہندسے کے بغیر وہ کیسے حکومت بناتی تو ادھر ادھر سے توجوڑ توڑ کرکے 10 آزاد ارکان لے لیے، چھوٹی پارٹیوں کو جمع کرلیا، یعنی کچھ کرکے 172 نشستیں حاصل کرلیں۔ ایک چلاکی یہ کی گئی کہ مشرف صاحب جب آئے تھے تو انہوں نے آئین کو جزوی طور پر معطل کر دیا تھا اور اس میں فلور کراسنگ نہ کرنے کی شق بھی تھی۔ چونکہ حکومت سازی لوگ کے لیے کم پڑ رہے تھے تو فیصل صالح حیات کی قیادت میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے 10 ارکان کو کہا گیا کہ بھائی آپ دس ہیں نا آپ ہمارے ساتھ آجائیں، ہم 10 میں سے 6 کو وزیر بنا دیں گے۔

  مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنی تو ظفراللہ جمالی نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا
مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنی تو ظفراللہ جمالی نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا

ظاہر ہے ایسی پیشکش پر وہ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے رضامند ہوگئے اور یوں حکومت تشکیل پاگئی۔ اس کے بعد فلور کراسنگ کی شق بحال کر دی گئی کہ اب جو فلور کراسنگ کرے گا وہ ایک غیر قانونی عمل کرے گا۔ بلوچستان کے ظفراللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے بعد سینیٹ کے الیکشن ہوئے جس میں بھی مسلم لیگ (ق) کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ اس کے بعد اب آئین کی تمام شقیں بحال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا لہٰذا آئین بحال ہوگیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

مشرف صاحب کا خیال تھا کہ انہوں نے ایک اسٹرکچر بنا دیا ہے ایک قلعہ بنا دیا ہے۔ ایسا ہی خیال ایوب خان صاحب کا بھی تھا اور ضیا الحق کا بھی تھا۔ مشرف صاحب کا خیال تھا کہ اب وہ جب تک چاہیں گے صدر رہیں گے۔ باقی لوگ ان کے اردگرد ایسے گھومیں گے جیسے سورج کے گرد ہمارا نظامِ شمسی گھومتا ہے۔ کیا سب ایسے ہی گھوما یا مشرف صاحب خود گھوم گئے، اس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔