Dawnnews Television Logo

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (نویں قسط)

کہتے ہیں ناں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں بلکہ ہمیشہ جوڑے کی صورت میں آتی ہے، تو مشرف صاحب کے لیے ایک طرف افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک تھی جبکہ دوسری جانب لال مسجد کا کرائسس شروع ہوگیا۔
شائع 14 فروری 2024 01:16pm

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ گزشتہ قسط میں ہم نے 2002ء کے انتخابات اور ان کے بعد کے حالات پر بات کی۔ ایک بات جو میں تواتر کے ساتھ اس سیریز میں کرنے کی کوشش کررہا ہوں، آج بھی کروں گا کہ ہر آمر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح نہ صرف قانونی حیثیت حاصل کرلے بلکہ ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ یا ایک ایسی سیاسی جماعت تشکیل دے دے جوکہ اس کے لیے ڈھال کا کام کرے گی۔

ایوب خان نے کنوینشنل مسلم لیگ بنائی جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات کے تجربے کے نتیجے میں مسلم لیگ کا ایک تازہ ایڈیشن تیار ہوا، اس کے بارے میں بھی ہم بات کرچکے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو قانونی حیثیت دینے کے لیے نہ صرف صدارتی ریفرنڈم کروایا بلکہ مسلم لیگ (ق) بھی بنائی جیسے ضیاالحق کے زمانے کی غیر جماعتی پارلیمنٹ میں مسلم لیگ کا ظہور ہوا تھا۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ یہ تجربے آمر کے زوال کے ساتھ ہی زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ ایوب خان کے ساتھ بھی یہی ہوا، کنوینشنل مسلم لیگ کا پتا نہیں چلتا، بہرحال ضیاالحق کے دور میں جونیجو صاحب آگئے اور مسلم لیگ ان کے قابو سے باہر ہوگئی۔

اسی طرح یہ بھی ہوا کہ 2002ء میں مسلم لیگ (ق) جوکہ جمعہ جمعہ 8 دن کی پیدائش تھی، اس نے انتخابات جیت تو لیے اور اس نے اپنی آئینی مدت تین وزرائے اعظم کے ساتھ پوری کرلی لیکن پرویز مشرف کے بعد یہ غائب تو نہیں ہوئی لیکن جس طرح 2002ء میں اسے ڈھال بنایا گیا تھا، وہ ڈھال ڈھے گئی اور پھر وہی قوتیں دوبارہ آگئیں جن کو روکنے کے لیے یہ ڈھال بنائی گئی تھی۔

مسلم لیگ (ق) کے ساتھ پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا تجربہ کیا لیکن اس سے کچھ نہیں ہوا اور جب 2008ء کے انتخابات کی فضا بنی تو وہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جن کو سیاست سے دور رکھنے میں پرویز مشرف نے آدھی توانائی صرف کردی تھی وہ دوبارہ سے ابھر آئیں۔ 26 دسمبر 2003ء کو پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے پچھلے سال سے جاری ایل ایف او کی توثیق کی۔ ایم ایم اے نے بھی اس کی حمایت کی۔ ایم اے کی پالیسی یہ تھی کہ شیر کے ساتھ بھی دوڑنا ہے اور شکاری کے ساتھ بھی دوڑنا ہے۔ تو اس نے بہ ظاہر مشرف صاحب کی امریکا نواز پالیسی کی مخالفت کی لیکن جب 17ویں ترمیم کا معاملہ آیا تو اس نے بھی مشرف صاحب کے اقتدار اور احکامات کو قانونی حیثیت دے دی۔

ایم ایم اے سے پرویز مشرف صاحب کو ایک وعدہ کرنا پڑا کہ میں آپ کی حمایت کے عوض 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتار دوں گا۔ ظاہر ہے کہ وردی بہت اہم چیز ہوتی ہے، وردی کے بغیر آپ اس طرح سے ایجنسیز کو قابو میں نہیں کرسکتے جس طرح آپ وردی میں کرسکتے ہیں۔ تو یہ اپنے تئیں بہت بڑا وعدہ تھا جو جنرل پرویز مشرف نے کرلیا تھا۔

20 جون 2004ء کو وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب کو کہا گیا کہ آپ استعفیٰ دے دیں کیونکہ پرویز مشرف وزیرخزانہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے کہ وہ وزیراعظم بنیں اور ملکی معیشت کو براہِ راست کنٹرول کریں۔ چونکہ شوکت عزیز صاحب اس وقت تک رکنِ قومی اسمبلی نہیں تھے تو وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ ان کی سیٹ گرم رکھنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین صاحب کو درمیانے عرصے کے لیے وزیراعظم بنایا گیا۔ ایک ماہ بعد ضمنی انتخاب ہوا اور شوکت عزیز صاحب اٹک اور تھرپارکر سے جیت گئے۔

  پرویز مشرف شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے
پرویز مشرف شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے

مجھے یقین ہے کہ انتخابی دوروں سے پہلے شاید شوکت عزیز نے تھر کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور اگر تھر کا نام سنا بھی ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی بھی وہاں کا دورہ نہیں کیا ہوگا۔ اس کے باوجود تھرپارکر اور اٹک کے عوام نے اجنبی شوکت عزیز پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، اسے کہتے ہیں جادو کی چھڑی اور پھر ظاہر ہے وہ وزیراعظم بن گئے۔ یہ تمام فیصلے جن پر مسلم لیگ (ق) کی حکومت کی چھاپ لگی ہوئی تھی، جنرل پرویز مشرف صاحب نے یہ فیصلے اپنی خواہشات کے مطابق کیے تھے اور اب تک ایسا لگ رہا تھا کہ اتنی جلدی پرویز مشرف صاحب کا سورج غروب نہیں ہوگا۔

پھر 9 مارچ 2007ء آگیا۔ صدر صاحب نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بلایا اور ان سے استعفی دینے کو کہا۔ دونوں میں بحث ہوئی، صدر کے ساتھ ان کی کور ٹیم بھی موجود تھی لیکن افتخار چوہدری صاحب اپنی جگہ پر اٹک گئے اور یوں ایک بحران کھڑا ہوگیا۔ انہیں معطل کردیا گیا۔ ان کی معطلی کو نہ عدالت، وکلا برادری نے اور نہ ہی عوام نے اچھی نظر سے دیکھا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ایک تحریک چل پڑی جو بہ ظاہر چیف جسٹس کی بحالی کے حق میں تھی لیکن دراصل ایک محاورہ ہے ناں کہ ’بیٹی کو اس لیے ڈانٹتی ہوں تاکہ بہو کو کان ہوجائے‘ تو سارے گروہ پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، رفتہ رفتہ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرنے لگی۔

پرویز مشرف صاحب کی طرف سے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوایا گیا۔ اس دوران چیف جسٹس سے پولیس کی بدسلوکی کی تصاویر بھی قومی اور بین الاقوامی پریس میں شائع ہوئیں اور پھر بدسلوکی علامت بن گئی کہ اب ان میں سے کوئی ایک ہی رہے گا۔ سپریم کورٹ پوری طریقے سے پلٹ چکی تھی۔ جولائی میں 13 رکنی بینچ نے حکومت کو بھجوایا ہوا ریفرنس خارج کرکے افتخار چوہدری صاحب کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کردیا۔ کہتے ہیں ناں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی، وہ ہمیشہ جوڑے کی صورت میں آتی ہے، تو ہوا یہ کہ ایک طرف سپریم کورٹ نے افتخار چوہدری کو بحال کردیا اور دوسری جانب لال مسجد کا کرائسز شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ایم ایم اے پوری طرح پرویز مشرف صاحب کے خلاف ہوگئی اور جہادی تنظیمیں تو پہلے ہی سے ان کی دشمن تھیں۔

  لال مسجد کے آپریشن کے بعد ایم ایم اے پوری طرح پرویز مشرف کے خلاف ہوگئی
لال مسجد کے آپریشن کے بعد ایم ایم اے پوری طرح پرویز مشرف کے خلاف ہوگئی

یہ اندازہ ہونا شروع ہوگیا تھا کہ حالات پھسل رہے ہیں۔ اگست 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کو جس طریقے سے بلوچستان میں مارا گیا اور اس کے بعد سے بلوچستان اب تک قابو میں نہیں آیا۔ نومبر 2007ء میں اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی ختم ہورہی تھی چنانچہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 6 اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف نے زبردستی ان اسمبلیوں سے 5 سالہ مدت کے لیے خود کو منتخب کروالیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کے اکرم خان درانی اس زمانے میں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے، آپ کو پتا ہے کہ صدارتی الیکٹورل کالج وفاقی پارلیمنٹ اور چاروں اسمبلیوں پر مشتمل ہوتا ہے، تو نظریہ یہ تھا کہ اگر ایک بھی صوبائی اسمبلی توڑدی جائے تو پرویز مشرف دوبارہ خود کو منتخب نہیں کروا پائیں گے اور صوبہ سرحد کی اسمبلی ایسی تھی جو ایم ایم اے کی وجہ سے ٹوٹ سکتی تھی لیکن مولانا فضل الرحمٰن صاحب عین وقت پر رکاوٹ بن گئے اور جب تک صدر مملکت نے اپنے آپ کو دوسری مدت کے لیے منتخب نہیں کروا لیا مولانا صاحب نے اسمبلی نہیں توڑنے دی اور شاید اسی وجہ سے ایم ایم اے کا اتحاد بکھر کر رہ گیا۔

صدر بننے کے بعد جنرل صاحب کو ایک نیا اعتماد مل گیا اور انہوں نے 3 نومبر کو نافرمان ججز، عدالتیں اور بدتمیز میڈیا کو لگام دینے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ پی سی او کے تحت ججوں کو نیا حلف لینے پر مجبور کیا گیا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی اکثریت کو مدعو نہیں کیا گیا لہٰذا وہ سبکدوش تصور ہوئے اور جو بحران تھا وہ ایک بار پھر پوری شدومد سے اٹھ گیا۔ اسی بے یقینی کی فضا میں 28 نومبر کو پرویز مشرف صاحب نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی کے سپہ سالار کی چھڑی پکڑائی۔ 30 نومبر کو آپ نے شیروانی پہن کر بطور سویلین صدر حلف اٹھا لیا۔ آئین میں ترامیم کی گئی اور ایمرجنسی ہٹا کر آئین کے معطل شدہ حصے بھی بحال کردیے گئے۔ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہوچکی تھی چنانچہ محمد میاں سومرو کو نگران وزیراعظم بنایا گیا اور وہ 25 مارچ 2008ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔

  پرویز مشرف نے اشفاق پرویز کیانی کو آرمی کا سپہ سالار کے عہدے پر فائز کیا
پرویز مشرف نے اشفاق پرویز کیانی کو آرمی کا سپہ سالار کے عہدے پر فائز کیا

8 جنوری 2008ء کو الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہوا لیکن 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے سبب ملک بحران کی زد میں آگیا، الیکشن کچھ عرصے کے لیے ملتوی کردیے گئے اور انتخابات کی نئی تاریخ 18 فروری دی گئی۔ جب 2002ء کے انتخابات ہوئے تو اس وقت دو سرکاری چینل ہوتے تھے اور ایک پرائیویٹ چینل ہوتا تھا لیکن 2008ء کے الیکشن تک پی ٹی وی کے علاوہ 10 نجی چینلز بھی سامنے آچکے تھے۔ تب تک ٹیکسٹ میسجنگ، موبائل فون، ویب سائٹ، ای میل، بلاگز وغیرہ بھی آچکے تھے لہٰذا پیغام رسانی کا ایک نیا اور انقلابی دروازہ کھل چکا تھا۔ چیزوں کو چھپانا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ 2008ء کے انتخابات کو دیکھنے کے لیے 21 ممالک اور یورپی یونین کے 119 مبصرین پاکستان آئے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں مقامی مبصرین نے بھی ان انتخابات پر نظر رکھی۔

25 نومبر کو اچانک سے نواز شریف ایک بار پھر پاکستان پہنچ گئے۔ اس سے پہلے 10 ستمبر کو انہیں زبردستی ڈنڈا ڈولی کرکے اسلام آباد ایئرپورٹ سے واپس جدہ روانہ کیا گیا تھا مگر اس بار وہ آرام سے اترے اور کسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مشرف صاحب میں ویسا دم خم نہیں رہا اور ان کی مٹھی سے ریت تیزی سے پھسل رہی ہے۔ اسی دوران امریکی اور برطانوی سہولت کاری سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے کئی ماہ کی بات چیت کے بعد این آر او کا فارمولہ طے پاگیا۔ مشرف صاحب کا خیال تھا کہ اگر بی بی ان سے مل جائیں تو نواز شریف کا راستہ آسانی سے روکا جاسکتا ہے۔

سیاستدان کچی گولیاں تو نہیں کھیلے ہوتے۔ 5 اکتوبر کو این آر او جاری ہوا اور اس کے تحت تحفظ یہ دیا گیا کہ یکم جنوری 1986ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور ملزموں کی غیر حاضری میں جو عدالتی فیصلے ہوئے یا احکامات جاری ہوئے وہ منسوخ کر دیے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف پیپلزپارٹی کو فائدہ ہوا بلکہ ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو بھی فائدہ ہوا لیکن اس پر بہت زیادہ تنقید ہوئی اور بعد میں سپریم کورٹ نے یہ ڈیل منسوخ کردی تھی۔

  پرویز مشرف کو لگا کہ بی بی کے ساتھ مل کر نواز شریف کا راستہ روکا جاسکتا ہے
پرویز مشرف کو لگا کہ بی بی کے ساتھ مل کر نواز شریف کا راستہ روکا جاسکتا ہے

2002ء میں جو مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے وجود میں آیا تھا وہ 2008ء سے پہلے ہی آپس کی بدگمانیوں کے سبب ٹوٹ گیا تھا لیکن اس کی جگہ ایک نیا اتحاد بنا آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، اس اتحاد میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک ساتھ موجود تھے۔ ان کے ساتھ جماعت اسلامی اور پختون ملی عوامی پارٹی بھی تھی۔ طے یہ ہوا کہ جن حالات میں یہ الیکشن ہورہے ہیں اور جس طرح بی بی کا قتل ہوا ہے، تو الیکشن کا بائیکاٹ کردیا جائے لیکن پھر آصف زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) بالخصوص نواز شریف صاحب کو سمجھایا کہ بھائی ہم سے زیادہ جذباتی تو آپ نہیں ہوسکتے، ہم اگر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تو آپ کو بھی حصہ لینا چاہیے تاکہ ان انتخابات کی ساکھ بنے۔

میاں صاحب راضی ہوگئے مگر وہ جس اتحاد کے رکن تھے وہ خفا ہوگیا تو ان کے اتحادیوں نے کہا کہ آپ حصہ لیں آپ کی مرضی لیکن ہم بائیکاٹ کریں گے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت پورے اتحاد نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی نے بھی 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں کے علاوہ باقی تین صوبوں میں بھی پہلی بار ٹکٹ دینے کا تجربہ کیا مگر سندھ کے شہری علاقوں کے علاوہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا۔

دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے الیکشن مہم خاصی سست ہوئی لیکن اسے بہانہ بنا کر الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس بار یہ ہوا کہ جو انٹیلی جنس ایجنسیز تھیں، انہوں نے بھی توڑ پھوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی کیونکہ ان کو نئے سپہ سالار نے احکامات دیے تھے کہ آپ بالکل غیر جانبدار رہیں۔ چنانچہ الیکشن ہوئے اور ان کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے 122 ارکان منتخب ہوئے، مسلم لیگ نواز کے 92، مسلم لیگ (ق) کے 53، ایم کیو ایم کے 25، اے این پی کے 13 اور 10 آزاد امیدوار منتخب ہوئے۔ ٹرن آؤٹ 44.5 فیصد رہا۔

  پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دو وزرائے اعظم آئے
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دو وزرائے اعظم آئے

25 مارچ 2008ء کو تاریخ رقم ہوئی۔ پاکستان کی پہلی خاتون اسپیکر فہمیدہ مرزا نے حلف اٹھایا۔ یوسف رضا گیلانی کو ایوان نے متفقہ طور پر وزیراعظم منتخب کرلیا۔ مسلم لیگ (ن) بھی ان کی کابینہ میں شامل تھی لیکن یہ اقتداری اتحاد بمشکل پانچ ماہ ہی چل پایا۔ اگست میں مخلوط حکومت سے مسلم لیگ (ن) علیحدہ ہوگئی۔ البتہ ایم کیو ایم، اے این پی اور آزاد ارکان بدستور گیلانی حکومت میں شامل رہے۔ اس دوران مشرف صاحب کو صدر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ سارا سیٹ اپ بدل گیا مگر یہ بھائی صاحب اب تک کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں۔

چنانچہ جب پریشر بڑھا تو میرا خیال ہے کہ آرمی کی قیادت کی طرف سے بھی دباؤ ہوگا کہ آپ جائیں کب تک رہیں گے، پھر انہوں نے سبکدوشی کا فیصلہ کیا اور 18 اگست کو انہیں ایوان صدر سے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا۔ اس کے بعد جو صدارتی انتخابات ہوئے ان میں آصف علی زرداری صاحب صدر منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) تو مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی البتہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت میں پیپلزپارٹی بدستور اگلے کچھ ماہ تک شامل رہی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت بنی۔ صوبہ سرحد میں اے این پی کی قیادت میں مخلوط حکومت بنی۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت بنی۔ مگر پس پردہ جو کردار ہوتے ہیں یا ادارے ہوتے ہیں وہ تو جانتے ہیں کہ ان کے سائے تو لہراتے ہی رہتے ہیں۔

  آصف علی زرداری نے صدر مملکت کا حلف اٹھایا—تصویر: رائٹرز
آصف علی زرداری نے صدر مملکت کا حلف اٹھایا—تصویر: رائٹرز

اس دوران دو وزرائے اعظم آئے۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے سوئس پراسیکیوٹر کو خط نہ لکھنے کے ’سنگین‘ جرم میں سزا سنائی تو وہ وزیراعظم کے عہدے پر نہیں رہ سکے۔ ان کی جگہ راجا پرویز اشرف آئے لیکن اس وقت تک اسمبلیوں کی مدت کم رہ گئی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ دو وزرائےاعظم کی قربانی دینے کے باوجود 2008 کی اسمبلیوں نے پانچ سال کی مدت مکمل کی اور 16 فروری 2013ء کو یہ وقت مقررہ پر ٹوٹ گئی۔ اس اسمبلی نے 18ویں آئینی ترمیم منظور بھی کی تھی تو اس لحاظ سے یہ اسمبلی تاریخ میں اپنا نام محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔

اگر ہم اس کے بعد بات کریں مئی 2013ء کے الیکشن کی تو میں پھر یہ بات دہراؤں گا کہ اگرچہ 2002ء کے الیکشن بھی ہوئے تھے جن کے نتیجے میں ایک منتخب سویلین حکومت آئی تھی لیکن جن حالات میں وہ الیکشن ہوئے تھے اور جس طرح مسلم لیگ (ق) کو بنایا گیا اور جتوایا گیا تو ہونا تو یہ چاہیے کہ میں یہ کہوں کہ یہ تیسری منتخب حکومت تھی جوکہ 2013ء کے الیکشن کے نتیجے میں بنی لیکن میرا جی نہیں چاہ رہا لہٰذا میں یہ تاریخ 2008ء سے شروع کررہا ہوں کہ پہلی بار ایک منتخب سویلین حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہوا۔

دہشت گردی کی لہر جس طرح 2008ء کے الیکشن پر چھائی ہوئی تھی، 2013ء میں بھی الیکشن پر پوری طرح چھائی رہی۔ لیکن ہوا یہ ان انتخابات سے پہلے جو 18ویں ترمیم منظور ہوئی اس کے تحت الیکشن کمیشن کا تقرر صدارتی دائرہ اختیار سے نکل کر قائد ایوان اور حزب اختلاف کے باہمی مشورے سے ہونا قرار پایا۔ یہی فارمولا نگران وزرائےاعظم کے ساتھ ساتھ نگران وزرائےاعلیٰ کی تقرری کے لیے بھی صوبائی سطح پر اپنایا گیا۔

  2011ء میں پی ٹی آئی ایک نئی قوت بن کر سامنے آئی
2011ء میں پی ٹی آئی ایک نئی قوت بن کر سامنے آئی

اس کے علاوہ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ پچھلے انتخابات میں تو یہ ہوتا تھا کہ امیدوار کے اثاثوں کی جانچ پڑتال ہوتی تھی لیکن اس بار یہ ہوا کہ امیدواروں کے علاوہ ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی اسکروٹنی کا بھی آغاز ہوا۔

30 اکتوبر 2011ء کو ایک واقعہ ہوا اور واقعہ یہ تھا کہ مینار پاکستان کے سائے میں تیسری قوت کاظہور ہوا اور اس قوت کا نام تھا پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے بعد کھیل کچھ اور ہوگیا۔