Dawnnews Television Logo

ڈاکٹر امجد پرویز: غزل گائیکی کا روشن باب

ڈاکٹر امجد پرویز محبت کے آدمی تھے جنہوں نے زندگی کو ہمہ جہت شخصیت کے طور پر بسر کیا، ایک منظم انداز میں اپنا وقت خرچ کیا اور بدلے میں شہرت، محبت پائی اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔
شائع 05 مارچ 2024 05:23pm

پاکستان میں نیم کلاسیکی موسیقی کی تاریخ پر طائِرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں چند نام ہی ایسے دکھائی دیں گے جنہوں نے شعبہ موسیقی میں اپنی فنی اور عملی خدمات برابر پیش کیں۔ ڈاکٹر امجد پرویز کا شمار ایسے ہی کہنہ مشق گلوکار اور دانشور کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ انتہائی ذہین اور مشاق فنکار تھے جنہوں نے علمِ موسیقی کے نظری اور عملی پہلوؤں پر بے پناہ کام کیا۔

6 دہائیوں تک شعبہِ موسیقی میں اپنی خدمات فراہم کرنے والی یہ میٹھی اور سریلی آواز اب ہم نہیں رہی۔ وہ ایک گلوکار ہونے کے علاوہ بہترین انجینئر، مدرس اور علم موسیقی کے محقق و مصنف بھی تھے۔ ان کی وفات سے پاکستان میں نیم کلاسیکی موسیقی کا ایک روشن باب اختتام پذیر ہوا۔


معروف گھرانے شام چوراسی کی شاگردی


برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے چند ہی گھرانے ایسے ہیں جن کی موسیقی اور فراہم کی گئی تربیت کو سند حاصل ہے۔ شام چوراسی کا شمار بھی انہیں گھرانوں میں ہوتا ہے جن سے پاکستان کے کئی معروف گلوکاروں نے بنیادی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں عہدِحاضر کی لیجنڈ گلوکارہ عابدہ پروین بھی شامل ہیں۔ امجد پرویز اور عابدہ پروین دونوں نے ایک ہی گھرانے سے تربیت حاصل کی۔

ڈاکٹر امجد پرویز نے شام چوراسی گھرانے کے دو بڑے سپوت استاد سلامت علی، استاد نزاکت علی سے 1976ء میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ کلاسیکی، نیم کلاسیکی، ٹھمری، کافی، لوک اور خیال گائیکی سیکھنے کے بعد انہوں نے اپنے لیے نیم کلاسیکی گائیکی کا میدان پسند کیا۔ اپنے شوق کو جلا بخشنے کے لیے مزید متعدد اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا جن میں استاد غلام جعفر خان، استاد غلام شبیر اور میاں شہریار و دیگر شامل ہیں۔

   1976ء، لاہور میں منعقدہ رسمِ شاگردی کے دوران امجد پرویز، مشتاق ہاشمی اور استاد سلامت علی خان کے ہمراہ
1976ء، لاہور میں منعقدہ رسمِ شاگردی کے دوران امجد پرویز، مشتاق ہاشمی اور استاد سلامت علی خان کے ہمراہ

  میوزک کمپوزر میاں شہریار اور گائیک شاہدہ پروین کے ساتھ یادگار تصویر
میوزک کمپوزر میاں شہریار اور گائیک شاہدہ پروین کے ساتھ یادگار تصویر

ان کے علاوہ وہ مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، غلام علی، روشن آرا بیگم اور افشاں بیگم کی گائیکی کو بھی بہت پسند کرتے تھے اور ان کی مذکورہ شخصیات سے نیاز مندی بھی رہی۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے دو دہائیوں تک، ہفتے کے چھے دن، دفتری اوقات کے بعد تین گھنٹے اپنی ریاضت کے لیے وقف کیے اور اس عرصے میں وہ اپنی اس مشق پر قائم رہے حتیٰ کہ ان کے بیوی بچوں نے بھی اس جنون کی قدر کی اور انہیں وقت دیا۔

  امجد پرویز، گلوکارہ فریدہ خانم کے ساتھ
امجد پرویز، گلوکارہ فریدہ خانم کے ساتھ


پی ٹی وی کے ابتدائی گلوکاروں میں شامل ہونے کا اعزاز


پاکستان میں جب سرکاری سطح پر ٹیلی وژن کی نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوا تو موسیقی کے شعبے میں جن نئے چہروں کو سامنے آنے کا موقع ملا، ان میں سے ایک ڈاکٹر امجد پرویز تھے۔ اس وقت کے معروف میوزک پروڈیوسر فضل ملک نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور امجد پرویز اور مشتاق ہاشمی کو جوڑی کی صورت میں پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیا۔ اس دور میں یہ جوڑی ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں کامیاب رہی۔ پی ٹی وی میں انہوں نے معروف لوک گلوکار حامد علی بیلا سے بھی موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے اور کالے خان جیسے گھنی موسیقاروں سے بھی گیان لیا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر مشہور گیت لوک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں جن میں ’سسی اے لٹیا تیرا شہر بھنبور نی‘ اور ’چل میلے نو چلیے‘ شامل ہیں۔ ان گیتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اپنے کریئر میں امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، ناروے، ڈنمارک، مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، میانمار اور بھارت میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے انہیں 2000ء میں صدارتی تمغہ حُسنِ کاکردگی سے بھی نوازا گیا۔

  امجد پرویز کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا
امجد پرویز کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا


معروف شعرا کے کلام پر مبنی چند مقبول غزلیں


ان کی آواز میں مقبول عام ہونے والی چند غزلوں میں میر تقی میر کی غزل ’رنج کھینچے تھے داغ‘ جیسی شہرہ آفاق غزل بھی شامل ہے۔ دیگر غزلیات میں امجد اسلام امجد کی غزل ’محبت کا پھیلاؤ‘، ڈاکٹر وزیر آغا کی غزل ’دن ڈھل چکا ہے‘ اور ڈاکٹر صفی حسن کی غزل ’کیا کیا ہوئی آنکھوں سے خطا‘ شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے شاعر حفیظ جالندھری کی غزل’ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات’ کے علاوہ فیض احمد فیض کا کلام ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ بھی ان کی شیریں بیاں گائیکی کا مرکز رہیں۔


1970ء کی دہائی کے معروف پاپ بینڈ کے خالق


ڈاکٹر امجد پرویز کی تخلیقی صلاحیتیں انتہائی حیران کن ہیں۔ ایک طرف وہ کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کررہے تھے تو دوسری طرف نیم کلاسیکی موسیقی ان کے دل میں گھر کررہی تھی۔ اسی عرصے میں وہ لوک موسیقی سے بھی متعارف ہورہے تھے جبکہ ان کا دل جدید طرزِ موسیقی کے لیے بھی دھڑک رہا تھا۔ ایسے میں انہوں نے جو سوچا وہ کردکھایا۔

پی ٹی وی کے کلاسیکی دور میں جب وہ بطور نیم کلاسیکی گلوکار شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اسی عرصے میں انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر اپنا پاپ بینڈ ’اےجیز‘ تشکیل دیا۔ اس بینڈ نے جدید انداز میں متعدد گانے گائے، ان گیتوں کی سیریز پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی کئی سال تک نشر ہوتی رہی اور نئی نسل میں بھی ان کی پسندیدگی کا تناسب بڑھنے لگا۔

   امجد پرویز نے اپنے دوستوں کے ساتھ پاپ بینڈ ’اے جینز‘ تشکیل دیا
امجد پرویز نے اپنے دوستوں کے ساتھ پاپ بینڈ ’اے جینز‘ تشکیل دیا

یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر وہ صرف نیم کلاسیکی موسیقی کے ہوکر رہ گئے اور غزل گائیکی میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ اسی تناظر میں دو دہائیوں تک انہوں نے ہر ماہ پروگرام ’آہنگِ خسروی‘ کے لیے ایک راگ پیش کیا اور خیالی شکل میں 50 سے زیادہ راگ پیش کیے۔ اس کے علاوہ وہ سینٹرل پروڈکشن یونٹ، ریڈیو پاکستان میں پریکٹس کرنے والے گلوکار تھے جہاں انہوں نے 1970ء کی دہائی سے اپنی ماہانہ پرفارمنس میں سیکڑوں غزلیں، گیت اور دیگر گانے ریکارڈ کروائے۔

  سینٹرل پروڈکشن یونٹ میں ترنم ناز اور غلام عباس کے ساتھ گائیکی کرتے ہوئے
سینٹرل پروڈکشن یونٹ میں ترنم ناز اور غلام عباس کے ساتھ گائیکی کرتے ہوئے


بہادر شاہ ظفر اور خراج کی روایت کے امین


ڈاکٹر امجد پرویز کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہیں سفیرِ پاکستان ’جاوید حافظ‘ کی دعوت پر میانمار کے شہر ینگون میں مدعو کیاگیا جہاں ان کے کنسرٹ میں ہزاروں سامعین نے شرکت کی۔ اس محفلِ موسیقی میں وہ بہادر شاہ ظفر کا کلام گھنٹوں گاتے رہے اور برصغیر کے عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا، اسی سرزمین پر جہاں وہ مدفون ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’یہ وہ دور تھا جب میانمار میں ہر طرف صرف ہریالی، پرندوں کی چہچہاہٹ اور پگوڈا کا لطیف احساس فضا میں گھلا ہوا تھا۔‘

  میانمار کے شہر ینگون میں ان کا خصوصی کانسرٹ ہوا
میانمار کے شہر ینگون میں ان کا خصوصی کانسرٹ ہوا

بہادر شاہ ظفر کے لیے یہ خراج، ان کی زندگی کی چند حسین اور لطیف یادوں میں سے ایک ہے۔ انہیں اپنی اس پرفارمنس پر بہت فخر تھا اور وہ اسے اپنی زندگی کے حسین دنوں میں سے ایک تصور کرتے تھے جب انہوں نے مغل بادشاہ کی مدفن سرزمین پر ان کا کلام سرکاری سطح پر گایا اور مقامی افراد کے دل موہ لیے۔

   پرویز امجد نے بہادر شاہ ظفر کا کلام گا کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا
پرویز امجد نے بہادر شاہ ظفر کا کلام گا کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا


تعلیم یافتہ ڈاکٹریٹ گلوکار


انہوں نے موسیقی کے نظریات اور افکار کو بھی بھرپور توجہ دی۔ ایک طرف عملی تعلیم حاصل کی تو دوسری طرف علمی طور پر آگاہی کے درجات طے کرتے رہے اور پھر ایک موقع پر منکشف ہوا کہ وہ لکھنے پر بھی قادر ہیں۔ انہوں نے انگریزی اور اردو کے موقر روزناموں میں موسیقی کے تناظر کے حوالے سے مضامین و کالم لکھے، کتابوں پر تبصرے کیے اور ساتھ ساتھ اپنے خطابات کے ذریعے، طلبہ پر علمی روشنی نچھاور کی۔

انہوں نے اپنے اشاعتی سفر میں کل دس کتابیں لکھیں جن میں ’رینبو آف ریفلیکشنز (2006ء)‘ اور ’رینبو آف ریفلیکشنز (2011ء)‘ جیسی معروف کتب شامل ہیں لیکن بطور قلم کار ان کی شہرت میں کتب سیریز ’میلوڈی سنگرز‘ نے اضافہ کیا جسے پاکستان میں عالمی شہرت یافتہ ناشر ’سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور‘ نے انگریزی اور اردو میں شائع کیا۔

اس سیریز کی کتابیں انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں۔ ان کتابوں کو پڑھ کر ہم برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کی تاریخ، ادوار، اقسام اور گلوکاروں و موسیقاروں کے بارے میں تفصیل سے جان سکتے ہیں۔ یہ کتابیں تیز ترین فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہیں۔

امجد پرویز اپنے پیشہ ورانہ شعبے میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے واحد گلوکار تھے۔

  امجد پرویز کی کتاب انگریزی زبان میں
امجد پرویز کی کتاب انگریزی زبان میں

   امجد پرویز کی کتاب ’میلوڈی سنگرز‘ اردو زبان میں بھی شائع ہوئی
امجد پرویز کی کتاب ’میلوڈی سنگرز‘ اردو زبان میں بھی شائع ہوئی


’ہم نے ان کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی‘


ڈاکٹر امجد پرویز کی رحلت نے جہاں ان کے چاہنے والوں کو افسردہ کیا وہیں ان کے ناشر اور سنگ میل پبلی کیشنز کے روح رواں افضال احمد بھی اداس ہیں اور انہیں یقین نہیں ہورہا کہ ڈاکٹر امجد پرویز اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ ان کے صرف مصنف ہی نہیں بلکہ بہترین دوست بھی تھے۔ اس موقع پر ڈان ڈیجیٹل نے افضال احمد سے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

’ڈاکٹر صاحب کی رحلت ایک صدمہ ہے، ایک ہنستا کھیلتا شخص اچانک ہم سے بچھڑ گیا۔ وہ صرف ایک لکھاری نہیں تھے بلکہ بہت عمدہ شخصیت بھی تھے۔ وہ علم دوست انسان تھے اور خوش مزاج بھی، یہی وجہ ہے وہ میرے دل سے بہت قریب تھے۔ ان کی کتابوں کا ہمارے ہاں تیز ترین فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ایک گلوکار کے تعلیم یافتہ ہونے کے تصور کو فروغ دیا۔ خواہ وہ عوام میں بطور گلوکار زیادہ مقبول نہ ہوئے ہوں مگر وہ موسیقی کے حلقے میں ایک گراں قدر شخصیت تھے جنہوں نے موسیقی کے مستند اصولوں کے مطابق اپنا تخلیقی سفر طے کیا۔ اگرچہ ہم نے ان کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی لیکن وہ زندگی میں اپنی آخری سانس تک گائیکی سے جڑے رہے اور کبھی شکوہ کناں نہیں ہوئے‘۔


تعلیم و تربیت اور ذاتی زندگی کے زاویے


ڈاکٹر امجد پرویز کی پیدائش لاہور کی ہے۔ وہ ایک گلوکار ہونے کے علاوہ ایک مصنف، مدرس، انجینئر بھی تھے۔ ان کے والد پروفیسر شیخ عبدالکریم اسلامیہ کالج لاہور میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے جبکہ ان کی والدہ بھی شعبہ تدریس سے وابستہ تھیں۔ ان کے نانا معروف شاعر ’خواجہ دل محمد‘ تھے۔ والد کی طرف سے بھی شاعری سے رغبت ورثے میں ملی اور یوں ان کے اندر تخلیقی جہتیں بیدار ہوئیں۔

انہوں نے جماعت چہارم تک کنیرڈ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ پانچواں سال رنگ محل اسکول میں گزارا، پھر اپنی بنیادی تعلیم سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے 1960ء میں مکمل کی جبکہ انہوں نے پورے پنجاب میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے 1967ء میں مکینیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ مکینیکل انجینئرنگ کی فیکلٹی یو ای ٹی میں شمولیت کے بعد وہ 1968ء میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف برمنگھم گئے جہاں انہوں نے 1969ء میں کوالٹی اینڈ ریلائیبلیٹی انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری اور 1972ء میں انجینئرنگ پروڈکشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔


پیشہ ورانہ حیات کے اوراق


انہوں نے نیسپاک (نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان) میں تقریباً 30 سال اپنی خدمات انجام دیں۔ جنرل مینجر اور نائب صدر کے عہدوں پر بھی فائز ہوئے اور 2005ء میں مینجنگ ڈائریکٹر اور صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مینجنگ ڈائریکٹر کے طور پر اپنے دور میں وہ نیسپاک کے لیے ایک اہم سالانہ کاروبار لائے۔ نیسپاک سے ریٹائرمنٹ کے بعد پرویز امجد نے یو ای ٹی میں بطور پروفیسر شمولیت اختیار کی اور صنعتی اور مینوفیکچرنگ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تدریس اور تحقیق میں مصروف عمل رہے۔

وہ ایک فعال شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے یو ای ٹی کے لیے ’انجینئرنگ سروسز یو ای ٹی پاکستان لمیٹڈ‘ کے نام سے ایک مشاورتی کمپنی بھی قائم کی۔ 2011ء سے 2013ء تک انہوں نے لاہور یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کے شعبہ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ لاہور لیڈز یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی ممبر تھے۔ انہیں پیشہ ورانہ خدمات کے سلسلے میں 1976ء میں صدارتی گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔

  انہوں نے نیسپاک میں تقریباً 30 سالوں تک اپنی خدمات سرانجام دیں
انہوں نے نیسپاک میں تقریباً 30 سالوں تک اپنی خدمات سرانجام دیں


حرف آخر


ڈاکٹر امجد پرویز محبت کے آدمی تھے جنہوں نے زندگی کو ہمہ جہت شخصیت کے طور پر بسر کیا۔ انہوں نے ایک منظم انداز میں اپنا وقت خرچ کیا اور بدلے میں شہرت، محبت پائی اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔

انہیں دنیا بھر میں رہنے کے مواقع ملے مگر انہوں نے پاکستان میں رہنا ہی پسند کیا، یہی ان کی حب الوطنی کا تقاضا تھا۔ انگریزی اور اردو میں ہونے والی علم موسیقی کی تحقیق میں ڈاکٹر امجد پرویز کا نام بطور حوالہ زندہ رہے گا اور وہ یہی چاہتے تھے اور اپنی گفتگو میں اکثر اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔

ان کا نام پاکستانی موسیقی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ہمارے تہذیبی ورثے کی روشن علامت تھے جن کے چلے جانے سے دل اداسی سے بھرگیا ہے مگر یہ یقین دلاسا بھی ہے کہ وہ ہمارے درمیان اپنے حروف، آواز اور سنہری یادوں کی بدولت موجود ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر صفی حسن کی ایک غزل میں اس کیفیت کو جس طرح بیان کیا ہے، اس میں ان کے یہ تمام احساسات منعکس ہیں۔

کہیں عکس چشمِ حیا کے ہیں
کہیں نقش دستِ صبا کے ہیں
مجھے فکرِ رختِ سفر نہیں مجھے ڈوبنے کا خطر نہیں
میری کشتیاں ہیں یقین کی میرے بادبان دعا کے ہیں