Dawnnews Television Logo

ایکس کی بندش: حکومت کب تک ’سب ٹھیک ہے‘ کا دکھاوا کرے گی؟

'یہ گمان ہوتا ہے کہ گویا ایکس کی بندش کے حوالے سے حکام کی نئی حکمت عملی یہ ظاہر کرنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور آزادی اظہارِ رائے کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا'۔
شائع 21 مارچ 2024 01:56pm

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی غیراعلانیہ بندش کے خلاف عدالتوں کی پوچھ گچھ کے بعد حکومت نے ایک نیا حربہ اپنا لیا ہے اور وہ ہے کہ اس طرح دکھاوا کرو کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

’وہ ہمیں بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔۔۔ ایکس کی بندش نہ صرف غیرآئینی اور غیر قانونی ہے بلکہ یہ معاملہ پُراسرار بھی ہے‘، یہ کہنا تھا عبدالمعز جعفری کا جو بندش کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ اس درخواست کی سماعت گزشتہ روز بدھ کو ہونا تھی۔

عبدالمعز جعفری نے گزشتہ سماعت کے بارے میں بتایا کہ کس طرح پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے نمائندے نے عدالت میں اپنے موبائل پر ایکس کی ایپلیکیشن کھول کر دکھائی اور یہ دکھاوا کیا کہ کوئی بندش نہیں ہے۔ یوں انہوں نے عدالت کو گمراہ کیا۔

وہ کہتے ہیں، ’یہ گمان ہوتا ہے کہ گویا یہ ان کی نئی حکمت عملی ہے یہ ظاہر کرنے کی کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ وہ عدالت کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا اور اسے وسوسہ قرار دے رہے ہیں‘۔

لیکن جب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ عقیل احمد عباسی نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا پی ٹی اے کا دعویٰ درست ہے تو درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ بلاشبہ حکام ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال کرکے اس ویب سائٹ کا استعمال کررہے ہیں جس تک عوام کی بڑی تعداد کو رسائی حاصل نہیں۔

’عوام کو گمراہ کرنا‘

عبدالمعز جعفری کے مطابق، ’پاکستان کے عوام کی اکثریت اسے حکومت کی جانب سے گمراہ کرنے اور تاریکی میں رکھنے کے اقدام کے طور پر دیکھتی ہے۔ اور عوام کی بڑی تعداد کی اب بس ہوچکی ہے‘۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایکس کی بندش کو ایک ماہ سے زائد وقت گزر چکا ہے۔ ایکس کی غیرسرکاری پابندی کا آغاز اس وقت ہوا جب راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پر 8 فروری کے عام انتخابات کی دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

نو منتخب حکومت نے ایکس کی بندش کے معاملے پر بھی خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ نئے وزیراطلاعات عطا تارڑ نے اعتراف کیا کہ ایکس بند ہے لیکن اس کی بندش کے حوالے سے کوئی سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

جب اس حوالے سے مؤقف لینے کے لیے ڈان نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا تو پی ٹی اے نے وزارت داخلہ سے ایکس سے متعلق سوالات پوچھنے کو کہا۔ زور دیا گیا تو انہوں نے ہدایات کو حکومت سے منسوب کیا۔

لیکن ڈیجیٹل رائٹس کے سرگرم کارکنان اس بات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ فریحہ عزیز نے زور دیا کہ ’پروینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 37 کے مطابق ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا قانونی اختیار صرف پی ٹی اے کے پاس ہے۔ اس کے منافی کوئی بھی تجویز قانونی طور پر درست نہیں‘۔

عبدالمعز جعفری وضاحت کرتے ہیں کہ ’واضح طور پر قانون میں کسی بھی آن لائن مواد پر پابندی لگانے کے لیے کچھ حدود ہیں۔ پابندی ایسے مواد کے لیے ہوتی ہے جو ریاست کی سالمیت کو متاثر کرے، اسلامی اعتبار سے قابلِ قبول نہ ہو یا ایسا کوئی مواد جو فساد اور بے امنی کا باعث بنے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی ’قانونی صورتحال نہیں جس میں ریگولیٹر کسی ویب سائٹ پر پابندی لگائے‘۔

موجودہ قوانین جیسے پیکا کی سیکشن 37 میں بھی سینسر شپ کا طریقہ کار ہے۔ وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس کے سرگرم کارکن اسامہ خلجی کہتے ہیں ’پی ٹی اے کو ویب سائٹ کو نوٹس بھیجنا چاہیے، اپیل کا آپشن ہونا چاہیے، وضاحت ہونی چاہیے اور بندش کا پبلک نوٹس ہونا چاہیے لیکن اس میں سے کسی پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے‘۔

ایکس کے معاملے میں پی ٹی اے کی جانب سے کوئی نوٹیفکیشن یا حکومت کا کوئی رسمی بیان موجود نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ اس بندش سے سوشل میڈیا کو پروفیشنل مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے افراد زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

تخلیق کار اور صحافی کس طرح متاثر ہورہے ہیں؟

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی 2023ء کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی آئندہ سات سے آٹھ سالوں میں پاکستان کی معیشت میں 60 ارب ڈالرز تک کا حیران کُن اضافہ کرسکتی ہے۔

کانٹینٹ کریئیٹر صبا بانو ملک کہتی ہیں، ’بہت لوگوں کے کاروبار اور ملازمتوں کے لیے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بہت ضروری ہیں بالخصوص کانٹینٹ کریئیٹرز کے لیے جو اپنا مواد بنانے اور شائع کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر کافی حد تک منحصر ہوتے ہیں‘۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بار بار پابندی لگائی جاتی ہے تو اس سے صارفین اور کانٹینٹ کریئیٹرز دونوں کے تسلسل میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’بندش سے پوسٹنگ اور اینگیجمنٹ کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جس سے تخلیق کاروں کے لیے اپنے صارفین کی دلچسپی برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے‘۔

صبا مزید کہتی ہیں، ’بندش کی وجہ سے ڈیڈلائنز پر کام مکمل نہ کرپانے اور نتائج نہ دینے سے کانٹینٹ کریئیٹرز کے برینڈز کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں‘۔

ایک اور طبقہ جو اس سب سے متاثر ہورہا ہے، وہ صحافی ہیں۔ آئی بی اے کے سینٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم کی سربراہ اور سندھ ہائی کورٹ دائر پٹیشن کی درخواست گزاروں میں سے ایک عنبر رحیم شمسی کے مطابق یہ پابندی درحقیقت فیکٹ چیکرز کے کام میں مداخلت کررہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جب آپ فیکٹ چیکنگ یعنی حقائق کی جانچ پرتال کررہے ہوتے ہیں تو اس میں ایک معیار یہ جانچنا ہوتا ہے کہ متعلقہ مواد کتنا وائرل ہوا ہے۔ ایکس کو عوام کی بڑی تعداد استعمال کرتی ہے (واٹس ایپ سب سے مقبول ایپلیکیشن ہے لیکن یہ ایکس کے مقابلے میں ذاتی استعمال کے لیے ہوتا ہے) اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات یا خبروں کے وائرل ہونے نہ ہونے کا اندازہ ایکس سے لگایا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ کام وی پی این کے ذریعے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ٹھیک سے کام نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ غلط معلومات کو آن لائن ٹریک کرنے کے بعد متعدد پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس میں معلومات کے پھیلاؤ کا موازنہ کیا جاتا ہے۔

لہٰذا غیراعلانیہ بندش نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ بنیادی طور پر فیکٹ چیک کرنے والوں کے لیے یہ باعثِ پریشانی ہے اور یوں کسی چیک اینڈ بیلنس کے آزاد نظام کی عدم موجودگی میں غلط معلومات پھیلتی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔