Dawnnews Television Logo
—ہیڈر: فیس بُک

تیزاب گردی اور تیزاب کی کھلے عام فروخت، قانون کیا کہتا ہے؟

عثمان ایڈووکیٹ نے بتایاکہ 'تیزاب کی کھلے عام فروخت قانون کی نظر میں جرم ہے کیونکہ صرف وہی دکاندار اسے رکھ سکتے ہیں جن کے پاس لائسنس موجود ہو اور جو اس سے متعلق قوانین سے آگاہ ہوں'۔
شائع 27 مارچ 2024 02:04pm

6 جنوری 2024ء کو نعمت اللہ غنی نے اپنی مطلقہ تنویر بانو اور سابقہ ساس پر تیزاب پھینک دیا۔ 50 سالہ ماں بیٹی کو بچاتے بچاتے تیزاب کی زد میں آگئیں اور پھسل کر جاں بحق ہوگئیں۔

3 مارچ 2024ء کو کوچنگ سینٹر میں استاد نے طالبہ اور اس کے دو مرد رشتے داروں پر تیزاب پھینک دیا۔ عزیز بھٹی تھانہ کی رپورٹ کے مطابق استاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ برن یونٹ سول اسپتال کی انچارج ڈاکٹر سامیہ کے مطابق تیزاب کے حملے سے لڑکی 13 فیصد جبکہ ان کے رشتے دار 14 فیصد تک جُھلس گئے۔

اسمائل اگین فاؤنڈیشن میں ہماری چند ایسڈ سروائیورز سے ملاقات ہوئی، ان میں سے ایک کنول حماد بھی ہیں۔ سابق شوہر نے کنول کے چہرے پر تیزاب پھینکا تھا۔ طلاق کے بعد جب وہ نوکری کے پہلے دن دفتر جانے کے لیے تیار ہورہی تھیں تب دروازے کی گھنٹی بجی، دروازہ کھولا تو سامنے ان کے سابق شوہر کھڑے تھے۔ وہ ابھی صورتحال سمجھنے کی کوشش ہی کرتیں کہ کنول پر تیزاب پھینک دیا گیا۔

  تیزاب گردی کے متاثرین پر واقعے کے ہولناک نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں
تیزاب گردی کے متاثرین پر واقعے کے ہولناک نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں

آج اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ کئی آپریشن، پلاسٹک سرجری سے گزرنے کے بعد وہ دوبارہ زندگی کی طرف آئی ہیں۔ دوسری شادی اور بچے زندگی میں ٹھہراؤ کا سبب بنے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں نوکری بھی کی۔ آج کنول پُراعتماد ہیں لیکن چہرے پر ہولناک حادثہ کے اثرات آج بھی واضح ہیں۔

ایسی ہی کہانی عثمان اور احمر کی بھی ہے جو اپنی بیویوں کو بچاتے ہوئے تیزاب گردی کا شکار بنے تھے۔ احمر نابینا ہوگئے اور ان کا چہرہ بھی بری طرح جھلسا۔ احمر کے ہونٹ ناک کی پلاسٹک سرجری جبکہ کئی جگہ بھی ڈرافٹنگ کی گئی جبکہ عثمان کی بھی ایک آنکھ اور چہرہ تیزاب سے بری طرح متاثر ہوا۔

کراچی کا برن سینٹر مریضوں کے لیے امید کی کرن

سول اسپتال کے روتھ فاؤ برن سینٹر کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک کُل 12 ہزار 666 مریض اس سینٹر میں علاج کی غرض سے داخل ہوچکے ہیں۔ 34 ہزار 856 مریضوں کی سرجری جبکہ سینٹر کی او پی ڈی میں ایک لاکھ 48 ہزار 512 مریضوں نے علاج کروایا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سامیہ تسلیم، ڈاؤ یونیورسٹی میں پلاسٹک سرجری کے شعبے سے منسلک ہیں اور برن سینٹر کی سربراہ بھی ہیں۔ ان کے مطابق 2023ء میں تیزاب سے جھلسنے اور جلنے والے مریضوں کی تعداد 29 تھی جن میں حادثاتی طور پر تیزاب سے جھلسنے والے مریض زیادہ تھے جبکہ 2024ء میں اب تک 6 مریض برن سینٹر میں آچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر تیزاب گردی کے متاثرین ہیں۔

ڈاکٹر سامیہ نے مزید بتایا، ’برن سینٹر میں لائے گئے مریضوں میں گرم پانی، آگ، بجلی کے ساتھ ساتھ تیزاب سے جھلسنے والے مریض بھی شامل ہوتے ہیں جسے کیمیکل برن کہا جاتا ہے۔ کیمیکل برن مریضوں میں تیزاب یا الکلائین، دونوں سے جلنے والے شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں لیکن زیادہ تر مریضوں کا تعلق کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے‘۔

   ڈاکٹر سامیہ تیزاب اور آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی پلاسٹک سرجری کرتی ہیں
ڈاکٹر سامیہ تیزاب اور آگ سے جھلسنے والے مریضوں کی پلاسٹک سرجری کرتی ہیں

انہوں نے زور دیا، ’حادثاتی طور پر گھروں میں استعمال کے دوران تیزاب گر جانے کے واقعات ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ گھروں میں استعمال ہونے والا تیزاب کافی زیادہ تیز ہوتا ہے بالخصوص کھلے ملنے والے تیزاب کی تیزی یا شدت تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتی۔ پانی سے جلنے والے مریض کی جلد پر آبلے پڑ جاتے ہیں لیکن تیزاب کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ جس جگہ گرتا ہے وہاں جذب ہوجاتا ہے۔ پہلے پہل جلد، پھر چربی، ٹشو اور اس کے بعد پورا کا پورا پٹھا ہی اس کی شدت سے گَل جاتا ہے۔ ہمارے پاس اکثر مریض ایسے بھی آتے ہیں کہ جن کا پورا گوشت تیزاب سے گَل چکا ہوتا ہے اور ہڈی نظر آرہی ہوتی ہے۔ تیزاب کے حملوں میں مجرم کا ہدف چہرہ ہی ہوتا ہے جس سے آنکھیں، ناک اور کان ضائع ہوجاتے ہیں۔ ان مریضوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے جو پسند کی شادی یا شادی سے انکار، جائیداد میں حصہ نہ دینے اور ایسے ہی گھریلو جھگڑوں کے نتیجے میں تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں‘۔

ڈاکٹر سامیہ یاد کرکے بتاتی ہیں ’پچھلے سال اندرون سندھ کا ایک کیس ہمارے سامنے آیا جس میں سگے چچا نے بھتیجی اور بھابھی پر تیزاب پھینکا تھا۔ بچی نے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا لیکن ماں چند دن زیرِعلاج رہی۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ ان کی جان بچا لی جائے۔ ان کے جسم کے اعضا خاص کر ان کی چھاتی گَل کر میرے ہاتھ میں آگئی۔ یہ بات میں کبھی بھول نہیں سکتی۔

   سول اسپتال کا برن سینٹر جھلسنے والے مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے—تصویر: لکھاری
سول اسپتال کا برن سینٹر جھلسنے والے مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے—تصویر: لکھاری

ایک اور کیس میں شوہر نے اپنی بیوی پر تیزاب پھینکا تھا لیکن وہ خاتون آج بھی اس ہی شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی سپورٹ سسٹم نہیں تھا۔ ان کے میکے سے کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اکثر خواتین صرف اس لیے’ وکٹم’ ہوتی ہیں کیونکہ انہیں سماجی اور معاشی طور پر کسی کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔

تیزاب سے جھلسنے والے مریضوں کا علاج

ڈاکٹر سامیہ نے علاج کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا کہ ’سب سے پہلے مریض کی جلد پر کام کیا جاتا ہے لیکن اگر کیمیکل سے زیادہ جھلس گیا ہے تو پہلے ٹشوز کی گرافٹنگ پر کام ہوگا جسے Tissue Flap Surgery کہتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک چھوٹی چیز ہے۔ تیزاب سے جلنے والے شخص کا کئی سالوں تک علاج چلتا رہتا ہے۔ جب مریض بہتر ہوجاتا ہے تو پھر انسانی آنکھ پلکیں بھویں، ناک اور کان بنائے جاتے ہیں۔ ایسے مریض عموماً اپنے متاثرہ اعضا کو زیادہ حرکت نہیں دیتے جس کی وجہ سے اعضا کے پھٹے اکڑ جاتے ہیں جن کے لیے contracture surgery کی جاتی ہے لیکن بات وہی ہے کہ ہم قدرتی خوبصورت چہرہ نہیں بنا سکتے نہ ہی اسے اس کی پرانی حالت میں واپس لاسکتے ہیں‘۔

  جھلسنے والے مریضوں کی پلاسٹک سرجری کے ذریعے ناک اور کان بنائے جاتے ہیں
جھلسنے والے مریضوں کی پلاسٹک سرجری کے ذریعے ناک اور کان بنائے جاتے ہیں

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر وقاص سمیع پلاسٹک سرجن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس زیادہ تر وہ مریض آتے ہیں جن کے زخم بہتر ہوچکے ہوتے ہیں یعنی ہمارے پاس دوسرے اور تیسرے مرحلے کے مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔ زیادہ تر کے پٹھوں کو بہتر کیا جاتا ہے ساتھ ہی پلکیں، بھنویں آنکھیں اور کان بنائے جاتے ہیں‘۔

ڈاکٹر وقاص سمجھتے ہیں کہ حادثے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ کون سا تیزاب تھا لیکن جب کوئی کسی پر حملہ کرتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس قسم اور کس شدت کا تیزاب پھینکا گیا ہے۔

ابتدائی طبی امداد کیسے دی جائے؟

ڈاکٹر سامیہ اور ڈاکٹر وقاص دونوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو جیسے ہی تیزاب گرے، اس حصے پر اس طرح پانی ڈالا جائے کہ وہ پانی انسانی جسم پر گرنے کے بجائے زمین پر گرے کیونکہ پانی سے تیزاب کا اثر ہلکا ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہاتھ پر تیزاب گرا ہے تو جسم سے دور کرتے ہوئے ہاتھ پر کم از کم 20 سے 25 منٹ تک مسلسل پانی ڈالتے رہیں یا اگر آنکھ پر تیزاب گرا تو 20 منٹ تک مسلسل پانی ڈالتے رہیں تاکہ تیزاب کی شدت کم ہوجائے۔ اس کے بعد اس حصے پر موجود کپڑے کو کاٹ کر الگ کریں، واضح رہے کہ کپڑے کو کھینچنا نہیں ہے بلکہ کاٹنا ہے۔ اس کے بعد جتنا جلدی ہوسکے اسپتال پہنچیں۔

  جسم کے جس حصے پر تیزاب گرا ہے اس پر ابتدائی طبی امداد کے طور پر 20 سے 25 منٹ تک پانی ڈالیں
جسم کے جس حصے پر تیزاب گرا ہے اس پر ابتدائی طبی امداد کے طور پر 20 سے 25 منٹ تک پانی ڈالیں

ڈاکٹر وقاص نے اہم بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر حملے میں کوئی الکائن کیمیکل استعمال کیا گیا ہے تو اس پر پانی نہیں ڈالا جاتا کیونکہ وہ الکائن پانی کے ساتھ مل کر تیزابی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس لیے اس پر پاؤڈر ڈال کر اس کی شدت کم کرنی چاہیے۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد ڈاکٹر تک پہنچیں تاکہ فوری طور پر علاج شروع کیا جاسکے۔

'مریض اپنا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتے'

  لوگ متاثرین کو ساتھ بٹھانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان کے چہروں سے خوف محسوس کرتے ہیں—تصویر: اے پی
لوگ متاثرین کو ساتھ بٹھانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان کے چہروں سے خوف محسوس کرتے ہیں—تصویر: اے پی

ڈاکٹر سامیہ کے مطابق، ’جھلسنے کے نشانات ایک دم نہیں جاتے، انہیں جانے میں سالوں اور کبھی کبھی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ کسی کا اصل چہرہ واپس نہیں لاسکتے نہ ہی کسی کی بینائی لوٹانا ہمارے بس میں ہے‘۔

’اکثر مریض شروع شروع کے دنوں میں اپنا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ کئی مریضوں نے بتایا ہے کہ کئی سالوں سے انہوں نے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا۔ انہیں اپنے بچوں سے ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ انہیں تسلیم کرنے سے انکار نہ کردیں۔ اس سب کے نفسیاتی اثرات الگ پڑتے ہیں۔ ان متاثرین کی ری ہیبلیٹیشن بھی سالوں چلتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرے کا حصہ بنانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگوں بھیک تو دے دیتے ہیں لیکن نوکری نہیں دیتے اور نہ ہی انہیں اپنے ساتھ بٹھانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے بگڑے چہروں کی وجہ سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔

’برن سینٹر میں فزیو تھراپی، نیٹروجینسٹ اور ایکوپشنل تھراپی کی سہولیات موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کی معاشی حالت انہیں مہنگا اور طویل مدتی علاج کروانے کی اجازت نہیں دیتی لہٰذا اپنے طور پر ہم متعلقہ محکموں اور اداروں سے ان کا رابطہ کروا دیتے ہیں‘۔

تیزاب گردی کی قانونی سزائیں

بیرسٹر ڈاکٹر ہما سودھر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان پینل کوڈ 1860ء میں ’تیزاب اور آگ سے جھلسانے کے جرائم کے بل 2014ء‘ کے تحت تیزاب گردی سے جتنا نقصان ہوگا یعنی اگر کوئی عضو ضائع ہوگیا یا چہرہ متاثر ہوا یا حادثے کی وجہ سے انسانی جان چلی گئی تو قانون کے مطابق ان جرائم کی سزا دی جائے گی اور ساتھ ہی ان مقدمات کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے گا۔ تیزاب گردی اور آگ لگانے کی زیادہ سے زیادہ 7 سال جبکہ کم سے کم 3 سال قید با مشقت سزا ہے۔ ساتھ ہی مجرم کو 10 لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا‘۔

Title of the document

وہ بتاتی ہیں کہ ’قانون کی رو سے تیزاب سے متاثرہ شخص کو فوری قریبی اسپتال منتقل کیا جائے گا اور ہر اسپتال خواہ وہ نجی ہو، نیم سرکاری یا سرکاری، وہ فوری طور پر متاثرہ شخص کو طبی امداد مہیا کرنے کا پابند ہوگا۔ ڈاکٹر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پولیس اور ادارے کو حادثہ کے بارے میں فوری طور پر مطلع کرے اور ساتھ ہی حادثے اور زخموں کی تصاویر لینا بھی ڈاکٹر کی قانونی ذمہ داری ہے۔ اگر متاثرہ خاتون ہیں تو ان کی تصاویر بھی خاتون ڈاکٹر لیں گی لیکن خاتون نہ ہونے کی صورت میں مرد ڈاکٹر کو تصاویر لینے کی اجازت ہوگی۔

’متاثرین کو قانونی مدد فراہم کرنا بھی حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوگی۔ قانون کے مطابق اگر تیزاب کسی بچے پر پھینکا گیا ہوگا تو اس بچے کو دو سال تک رہائش مہیا کی جائے گی تاکہ اس کا خاندان اس کا مکمل علاج کرواسکے۔

’اگر تیزاب گردی کا شکار شخص کی نوکری چلی جاتی ہے تو حکومت اسے نقد رقم ادا کرے گی۔ اگر اس شخص کو کوئی معذوری ہوجاتی ہے تو اس کے لیے بھی کچھ رقم الگ سے ادا کی جائے گی تاکہ اس کی زندگی کسی حد تک بہتر ہوسکے‘۔

بیرسٹر ہما کا کہنا تھا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ ان متاثرین کے لیے باقاعدہ 10 رکنی بورڈ بنایا جائے گا جو متاثرین کی مکمل دیکھ بھال اور مدد فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا‘۔

مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’غیرقانونی طور پر تیزاب فروخت کرنے والے کو سب سے پہلے ایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ ہوگا جبکہ دوسری بار دو سال قید اور دو لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک وقت دی جاسکتی ہیں۔ اگر تیزاب کے حملے سے مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی‘۔

تیزاب کی خرید و فروخت کا قانون کیا کہتا ہے؟

ہم نے سندھ ہائی کورٹ کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ سے گفتگو کی، ان کا کہنا ہے کہ تیزاب رکھنے، بیچنے اور خریدنے کے سندھ ریگولیشن رولز 2022ء کے مطابق تیزاب اور جھلسا دینے والا ہر کیمیکل یعنی الکلائن سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے تو وہ پاکستان پینل کوڈ 336 کی دفعہ XLV 1860 کی رو سے مجرم تصور کیا جائے گا۔

’پاکستان پینل کوڈ 1860ء کے قانون میں انسانی جسم کو جلانے والے تمام تیزاب، کاسٹک، ایسڈ اور الکلائن سب شامل ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی شق 336 اے کے مطابق حکومت شہر کے ہر ضلع میں تیزاب کی خرید و فروخت یا اسے رکھنے کا لائسنس جاری کرنے کی پابند ہوگی۔ قانون کی رو سے فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی کاروباری ضرورت کے لیے تیزاب کا ذخیرہ کرسکتی ہیں۔ تعلیمی ادارے، ڈاکٹرز اور جانوروں کے ڈاکٹرز کو بھی اپنے ساتھ تیزاب رکھنے کی اجازت ہوگی‘۔

  لائسنس کے بغیر تیزاب کی فروخت جرم ہے
لائسنس کے بغیر تیزاب کی فروخت جرم ہے

عثمان ایڈووکیٹ نے زور دیا کہ ’تیزاب کی کھلے عام فروخت قانون کی نظر میں جرم ہے کیونکہ صرف وہی دکاندار اسے رکھ سکتے ہیں جن کے پاس لائسنس موجود ہو اور جو اس متعلق قوانین سے آگاہ ہوں۔ پہلی دفعہ لائسنس بنوانے کی فیس 5 ہزار روپے ہے جس کا اجرا ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر کرے گا۔ اس لائسنس کی میعاد صرف ایک سال ہوگی اور اسے ہر سال ری نیو کروایا جائے گا جس کی فیس 3 ہزار ہوگی۔ ساتھ ہی 17ویں گریڈ کا انسپیکشن آفیسر کبھی بھی تیزاب رکھنے والے اسٹور کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے۔ اگر وہ مطمئن نہیں ہوتا تو لائسنس منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سندھ ریگولیشن رولز 2022ء کی رو سے دکاندار کے لیے لازمی ہے کہ وہ تیزاب کی خرید و فروخت کا رجسٹر بنائے جس میں کب، کس شخص کو، کون سا اور کس مقدار میں تیزاب بیچا گیا سب درج ہو اور ساتھ ہی خریدار کا نام، پتہ، عمر، شناختی کارڈ اور بیچنے کی تاریخ بھی لکھی جائے۔ اس سب کے ساتھ دکاندار اپنے دستخط بھی کرے گا۔ لائسنس ری نیو کرواتے ہوئے یہ تمام ریکارڈ ڈپٹی کمشنر کے آفس میں جمع کروانا ہوگا‘۔

قانون کے مطابق گھریلو استعمال کے تیزاب کی شدت اتنی رکھی جائے جس سے انسانی جسم کو نقصان نہ پہنچے۔ تیزاب کا کنٹینر محفوظ ہو جو منتقلی کے وقت لیک نہ ہو ساتھ ہی وہ ماحول کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہو۔ ڈبے پر تیزاب کا نام، لائسنس نمبر، مقدار، تاریخ اجرا، ایکسپائری ڈیٹ اور خطرہ لکھنا بھی لازمی ہے۔

ایڈووکیٹ عثمان فاروق کا کہنا ہے کہ ’غیرقانونی طور پر تیزاب رکھنے اور فروخت کرنے والوں کی سزائیں قانون میں موجود ہیں۔ اگر کوئی ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے ایک سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر وہ جرمانہ ادا نہیں کرپاتا تو اسے مزید 3 ماہ جیل میں گزارنے پڑیں گے۔ قانون کی رو سے لائسنس جاری کرنے کی مجاز اتھارٹی تھانے میں تحریری درخواست دے گی جس کی ایف آئی آر سب انسپکٹر کاٹے گا اور اس پر تحقیقات کرے گا‘۔

کیا قوانین کی پاسداری کی جارہی ہے؟

  ’گھر میں ترکیب سے خود تیزاب تیار کرتا ہوں‘
’گھر میں ترکیب سے خود تیزاب تیار کرتا ہوں‘

ناظم آباد میں کھلا تیزاب فروخت کرنے والے ایک صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ کھلا کیمیکل لالو کھیت کی مارکیٹ سے لے کر آتے ہیں اور گھر میں مختلف ڈرم میں ترکیب کے مطابق خود تیزاب تیار کرتے ہیں اور بوتلوں میں بھر کر فروخت کرتے ہیں۔

صائمہ سرکاری کالج میں کمیسٹری پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لیب کے لیے کراچی کے مختلف کیمیکل اسٹورز سے تیزاب اور دیگر کیمیکل خریدتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ لیب میں حفاظتی ہدایات کے ساتھ یہ کیمیکل استعمال کرتی ہیں لیکن انہوں نے تیزاب خریدتے ہوئے کبھی کسی کا لائسنس نہیں دیکھا۔

نارتھ نیپئر کی تیزاب والی گلی

جوڑیا بازار کے نزدیک نارتھ نیپئر پر واقع کیمیکل مارکیٹ المعروف تیزاب والی گلی میں داخل ہوں تو گلی کے دونوں اطراف کیمیکل کی دکانیں موجود ہیں۔ ہم ’جانی مشہوری‘ کے ساتھ وہاں گئے جو ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں۔ کھلے تیزاب کے خطرے پر اسٹوری کرنے کا خیال بھی ہمیں اس وقت آیا تھا جب جانی کچن کے فرش کو کھلے تیزاب سے دھو چکے تھے لیکن تیزاب کی تیز بو سے ہم سے سانس نہیں لی جارہی تھی۔ اس وقت ہم نے پوچھا تھا کہ ’بھائی اتنا تیز تیزاب کہاں سے لائے ہو؟‘ اس نے بتایا کہ بولٹن مارکیٹ کے پاس ملتا ہے۔ ہم تو سمجھے کہ ایک دو دکانیں ہوں گی لیکن وہاں تو جوڑیا بازار کی طرح قطار میں دکانیں موجود تھیں جہاں گھریلو، تعلیمی اور کاروباری نوعیت کا ہر کیمیکل دستیاب تھا۔

  تیزاب والی گلی میں کھلا تیزاب بنا لائسنس کے فروخت ہوتا ہے—تصویر: لکھاری
تیزاب والی گلی میں کھلا تیزاب بنا لائسنس کے فروخت ہوتا ہے—تصویر: لکھاری

ہم نے کسی دکان پر کیمسٹری کی استاد اور کسی پر کوچنگ سینٹر کی لیب انچارج کے طور پر زیادہ مقدار میں الکلی، تیزاب، کیڑے مار دوا اور فرش دھونے کا تیزاب خریدنے کی بات کی۔ یہاں کنسنٹریٹڈ بھی اور ڈائلیوٹڈ شکل میں ہر طرح کے کیمکل مل جائیں گے۔ جگہ جگہ پلاسٹک کے بڑے ڈرم میں کھلا تیزاب رکھا ہو ا تھا۔ ہم دکان اور اسٹور کے اندر کی جگہ تو نہیں پہنچ سکے لیکن کہیں ڈرم سامنے رکھے تھے اور کچھ مقامات پر پلاسٹک میں تیزاب بنایا جارہا تھا۔ ہمیں صاف نظر آرہا تھا کہ یہ تیزاب اور دیگر کیمیکل قانون کے مطابق نہیں رکھے گئے ہیں۔

ہم نے اپنے گھر میں موجود کچھ باتھ روم کلینرز اور ڈیٹرجنٹ کا جائرہ بھی لیا کہ کیا ان پر استعمال کیے جانے والے کیمیکل کا نام، کنسنٹریشن، خطرے سے آگاہی اور بچاؤ سے متعلق ہدایات درج ہیں؟ کچھ مصنوعات پر کیمیکل کا نام درج نہیں تھا لیکن بوتل پر احتیاطی تدابیر ضرور درج تھیں۔

اس حوالے سے جب ہم نے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ایک عہدیدار سے معلوم کیا کہ کیا مارکیٹ میں ملنے والی مصنوعات کا معیار چیک کیا جاتا ہے تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’ہمارے ہاں اسٹینڈرڈ ہی نہیں بنے ہوئے تو جانچ کا کیا سوال؟‘

انہوں نے کہا کہ ہیزرڈ سبسٹینس رولز 2023ء کے مطابق کیمیکل کا استعمال کرنے والی فیکٹری پر لازم ہے کہ اس کے پاس لائسنس موجود ہو۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2023ء والے اصول بالکل 2003ء کے اصول ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

کراچی میں اب تک کتنے لائسنس کا اجرا ہوا؟

  کراچی میں آج تک تیزاب کی فروخت کا ایک بھی لائسنس جاری نہیں ہوا
کراچی میں آج تک تیزاب کی فروخت کا ایک بھی لائسنس جاری نہیں ہوا

جب ہم نے قانون پڑھا کہ محکمہ داخلہ اور کمشنر تیزاب کے لائسنس جاری کریں گے تو ہم نے سوچا کہ چلو یہ تو آسان کام ہے، ایسے لائسنس کے نمبر ہمیں آسانی سے مل جائیں گے اور رجسٹر سے ڈیٹا بھی مل جائے گا لیکن وہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کیونکہ پہلے پہلے کمشنر آفس سے پوچھا تو وہاں سے ہمیں محکمہ داخلہ اور پھر وہاں سے بات ڈپٹی کمشنر پر چلی گئی۔ ہم نے کراچی کے تمام ڈپٹی کمشنرز سے رابطہ کیا کہ ہمیں لائسنس نمبر مل جائیں لیکن کراچی میں تیزاب کی فروخت کے لیے آج تک کوئی لائسنس جاری ہی نہیں کیا گیا۔

ضلع وسطی سے یہ معلوم ہوا کہ پینٹ کی فیکٹریوں کو ’تھینر‘ کا لائسنس جاری کیا گیا ہے لیکن تیزاب یا کیمیکل کے لائسنس کے اجرا کے لیے آج تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ ہمارے لیے یہ بڑی حیران کن صورتحال تھی یعنی شہر کراچی میں بڑی دکانوں، ہول سیل مارکیٹ یا کھلے عام ملنے والے تیزاب بغیر لائسنس کے فروخت ہورہا ہے۔

کیا قانون سازی سے کچھ بہتری آئی؟

تیزاب گردی کے مقدمات جلد ختم کرنے کی قانونی شق پر عمل درآمد سے کم از کم تیزاب گردی سے متاثرہ لوگ کچھ بہتر محسوس کررہے ہیں۔ عثمان اور احمر دونوں کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کے مجرم کو کم وقت میں سزا دی گئی۔ جبکہ تیزاب سے متاثرہ افراد کی انجمن ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن پاکستان کا کہنا ہے کہ 2011ء اور 2014ء کی قانون سازی کی وجہ سے تیزاب گردی کے واقعات 85 فیصد تک کم ہوئے ہیں۔

اس امر کی ڈاکٹر سامیہ بھی تائید کرتی ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگوں کو اپنے گھروں کو تیزاب سے دھلوانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ کھلا تیزاب کتنا نقصان دہ ہے۔ وہ آہستہ آہستہ فضا میں جذب ہوتا رہتا ہے اور آپ اسی فضا میں سانس لیتے رہتے ہیں اور ایسے میں حادثہ کب ہوجائے معلوم نہیں ہوتا‘۔

ہم امید کرتے ہیں کہ قانون کی بہتر پاسداری کے ساتھ اگر تیزاب کی فروخت اور اسے رکھنے کے لیے لائسنسنگ پر بھی توجہ دی جائے تو حادثات اور تیزاب کے حملوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔