Dawnnews Television Logo

عید پر خواتین کے ہاتھوں کی زینت بننے والی چوڑیاں کیسے بنتی ہیں؟

ملک بھر کی خواتین، لڑکیاں اور کم عمر بچیاں کپڑوں کی خریداری کے بعد اب میچنگ کی چوڑیوں کی خریداری میں مصروف ہیں۔
شائع 09 اپريل 2024 04:05pm

پاکستان بھر میں ماہ مبارک رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور لوگ گزشتہ ہفتے سے عید کی خریداریوں میں مصروف ہیں۔

ملک بھر کی خواتین، لڑکیاں اور کم عمر بچیاں کپڑوں کی خریداری کے بعد اب میچنگ کی چوڑیوں کی خریداری میں مصروف ہیں لیکن ہر کوئی چوڑیوں کی بڑھتی قیمتوں پر نالاں دکھائی دیتا ہے۔

مارکیٹ سے سجی سجائی چوڑیاں خرید کر انہیں ہاتھوں کی زینت بنانے والی زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں اس بات سے ناواقف ہوتی ہیں کہ آخر چوڑیاں کتنی محنت کے بعد کس طرح بنتی ہیں۔

پاکستان میں صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کو چوڑیوں کا دارالخلافہ کہا جاتا ہے، جہاں قیام پاکستان سے گھروں میں بھی چوڑیاں بنتی آ رہی ہیں۔

  حیدرآباد کی خواتین گھروں پر چوڑیاں بناتی ہیں—فوٹو: اے ایف پی
حیدرآباد کی خواتین گھروں پر چوڑیاں بناتی ہیں—فوٹو: اے ایف پی

لیکن اب گیس کی بڑھتی قیمتوں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور حکومت کی جانب سے چھوٹے کاروباری افراد کے لیے سبسڈی کے ختم کیے جانے کی وجہ سے حیدرآباد کی چھوٹی چوڑی فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے ایجنسی پریس فرانس (اے ایف پی) کے مطابق بجلی اور گیس کی مہنگے ہونے اور ان کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چوڑیوں کا کاروبار مندی کا شکار ہے جب کہ گاہک چوڑیوں کے مہنگے ہونے کی شکایات الگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

چوڑیوں کے سیٹ کی تیاری میں 12 افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں جو چوڑیوں کو تراشنے، انہیں سجانے اور پیک کرنے سمیت انہیں آگ پر تیار کرنے کا کام کرتے ہیں۔

  بعض گھروں میں بچے بھی چوڑیاں تیار کرتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
بعض گھروں میں بچے بھی چوڑیاں تیار کرتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

یوں لڑکیوں کے ہاتھوں میں سجنے والی چوڑیاں 12 افراد کی محنت کے بعد مارکیٹ پہنچتی ہیں اور خواتین ڈیڑھ سو سے لے کر ایک ہزار روپے فی درجن کے حساب سے اپنی پسند کی چوڑیاں خریدتی ہیں۔

حیدرآباد میں کئی خواتین گھروں میں چوڑیاں تیار کرکے بیوپاریوں کو فروخت کرتی ہیں جب کہ متعدد گھرانوں کے مرد اپنے ہی گھروں میں تیار کردہ چوڑیوں کو خود مارکیٹ میں بیچتے ہیں۔

چوڑیوں کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ماہانہ 32 ہزار روپے کی اجرت دی جاتی ہے لیکن انہیں سخت گرمی میں آگ کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ کام کے دوران پنکھا چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مزید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

  ابتدائی طور پر چوڑیوں کو آگ پر تیار کیا جاتا ہے—فوٹو: اے ایف پی
ابتدائی طور پر چوڑیوں کو آگ پر تیار کیا جاتا ہے—فوٹو: اے ایف پی

حیدرآباد کے زیادہ تر گھرانوں میں خواتین اپنے بچوں سمیت چوڑیاں تیار کرتی ہیں اور انہیں فروخت کرکے اپنا گھر چلاتی ہیں۔

حیدرآباد میں قیام پاکستان کے فوری بعد بھارت کے شہر فیروزآباد سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے چوڑیاں بنانے کا اپنا آبائی کاروبار شروع کردیا تھا جو بڑھتے بڑھتے آج چوڑی انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

حیدرآباد کی چوڑیاں نہ صرف سندھ بھر بلکہ پاکستان بھر میں پسند کی جاتی ہیں لیکن اب جدید دور میں دیگر شہروں میں بھی چوڑیاں تیار کی جانے لگی ہیں۔

  چوڑیاں 150 سے 1000 روپے درجن تک فروخت ہوتی ہیں—فوٹو: اے ایف پی
چوڑیاں 150 سے 1000 روپے درجن تک فروخت ہوتی ہیں—فوٹو: اے ایف پی