انٹرنیٹ پر ہراساں کرنا: پاکستان کا نیا چیلنج
اسلام آباد: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سائبر جرائم ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے واقعات میں ویب سائیٹس کی ہیکنگ، جعل سازی اور مالی فراڈ وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم پاکستان میں ایسے تیس سے زائد درج واقعات میں سے انٹرنیٹ پر ہراساں کیا جانا (سائبر سٹاکنگ) سر فہرست ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس سائبر جرائم کے حوالے سے موصول ہونے والی اسی فیصد شکایات کا تعلق سائبر سٹاکنگ سے ہے۔
انٹرنیٹ پر نشانہ بننے والی زیادہ تر خواتین ہیں جنہیں بلیک میلنگ، بھتہ یا پھر ہراساں کیا جاتا ہے اور ایسے واقعات میں متاثرین کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک سینیئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ سائبر سٹاکنگ ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔
'عموماً متاثرین کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کہاں شکایت درج کرانی ہے۔ اور جنہیں معلوم ہے وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ایف آئی اے ان کی مشکلات بڑھا نہ دے'۔
'دوسری جانب شکایت کرنے والے کھل کر مسئلہ نہیں بتاتے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آگے آنے والے متاثرین پوری طرح حکام سے تعاون کریں کیونکہ سائبر سٹاکنگ کو دوسرے جرائم کی طرح ہی ایک جرم سمجھا جانا چاہیے'۔
خیال رہے کہ بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے واقعات صرف فیس بک اور کبھی کبھی ٹوئیٹر جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک ہی محدود نہیں۔
ایف آئی اے کے سامنے بعض ایسے واقعات بھی آئے ہیں جن میں متاثرین کی جعلی یا اصلی تصاویر، رابطے کی معلومات یا پھر اہل خانہ کے فون نمبرز کو مشہور زمانہ آن لائن مارکیٹنگ ویب سائیٹ او ایل ایکس پر ڈال دیا گیا۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا 'یہ ہمارے دائرے اختیار سے باہر ہے لیکن ماضی میں تحقیقات سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سائبر سٹاکنگ کی وجہ سے ملازمت کرنے والی خواتین کو مجبوراً ملازمت چھوڑنا پڑی۔
'سائبر ستالنک کی وجہ سے بعض واقعات جوڑوں کو مسائل کا سامنا ہوا جبکہ کچھ کیسوں میں متاثرین کو سائبر سٹالنکگ کی وجہ سے اہل محلہ میں بدنامی بھی ہوئی'۔
ایف آئی اے میں درج ہونے والی زیادہ تر شکایات میں زیادہ تر مرد خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے پائے گئے لیکن پانچ فیصد کیس ایسے بھی تھے جن میں خواتین سائبر سٹاکنگ میں ملوث تھی۔
ایف آئی اے کو موصول ہونے والی شکایات میں بیس فیصد اساتذہ سے متعلق تھیں جو اپنے طالب علموں کو ہراساں کرتے پائے گئے, اسی طرح دس فیصد واقعات دفاتر میں پیش آئے۔
عہدے دار کے مطابق، زیادہ تر سائبر سٹاکنگ بدلہ لینے کی خاطر کی جاتی ہے۔ انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ کمپویٹر کو گھر میں ایسی جگہ پر رکھیں جہاں پر بچوں کو معلوم رہے کہ ان کی کمپیوٹر پر سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح والدین کو دیکھنا چاہیے کہ ان کے بچے موبائل فون پر کس سے گفتگو کرتے ہیں۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ سکول اور کالجوں میں سائبر جرائم کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے علاوہ ان سے بچنے کے طریقوں پر تعلیم دی جانی چاہیے۔
'اس کے علاوہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکورٹی سیٹنگز کو بڑھا کر رکھیں، بالخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر۔
بعض کالجوں اور یونیورسٹی اساتذہ کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو صرف ضروری مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور پاکستانی معاشرہ کو درپیش چیلنجز کو نظر انداز کیا جاتاہے۔
اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز میں شعبہ بین القوامی تعلقات عامہ سے وابستہ ایک استاد طاہر ملک کہتے ہیں 'یہ نہات ضروری ہےکہ ہمارا سلیبس ملک اور عوام کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالے'۔
ایک طرف جہاں ایف آئی اے ذرائع تعلیمی اداروں اور طالبعلموں میں شعور اجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں وہیں سائبر جرائم کے حوالے سے قانون سازی بھی تجویز کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سائبر جرائم، بالخصوص سائبر سٹاکنگ سے متعلق قوانین موجود نہیں۔ ان قوانین یا آرڈیننس کی غیر موجودگی میں ایف آئی اے کئی مسائل ہر ہاٹھ ڈالنے سے قاصر ہے۔
ماضی میں سرکاری حکام اس حوالے سے 2007 کے الیکٹرانک جرائم کے انسداد کے آرڈیننس پر بھروسہ کرتے تھے لیکن نومبر 2009 میں اس کے غیر مؤثر ہو جانے کے بعد انہوں نے ضرورت پڑنے پر 2002 کے ایک پرانے آرڈیننس (ای ٹی او) سے مدد لینا شروع کر دی۔
ای ٹی او کے تحت سائبر جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید ہے۔
ایف آئی اے کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ کے عالمی ادارے پاکستان میں سائبر جرائم کے واقعات کی روک تھام میں معاونت کرنے کے پابند نہیں۔
'ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ اب تک ہماری درخواستوں کو نا صرف سنتے ہیں بلکہ مدد بھی کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میںیہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہے گا'۔
وزارت برائے انفارمیشن اور ٹیکنالوجی پچھلے دو سالوں سے سائبر کرائم سے متعلق قانون سازی پر کام کر رہی ہے۔
وزارت کی قانونی ٹیم کے رکن کامران علی کا کہنا ہے بل پر زیادہ کام ہو چکا ہے۔