Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2014 01:18am

مستونگ سانحہ: ہزارہ برادری کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان

کوئٹہ: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی یقین دہانی کے بعد کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے دھرنے کا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔

اس سے قبل مستونگ میں بدھ کے روز پیش آنے والے واقعے کے احتجاج میں مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) نے جمعے کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔

صورت حال کے پیش نظر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کوئٹہ پہنچے جہاں ہزارہ برادری کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے گئے۔

مذاکرات کے بعد چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ واقعےکےپیچھےجو بھی طاقتیں ہیں انہیں کٹہرے میں لایا جائے گا۔

انہوں نے اس بات پر یقین دلایا کہ ہزارہ برادری کے مطالبات کو پورا کیا جائے گا اور بلوچستان میں امن قائم کرنےکے لیےحکومت تمام اقدامات اٹھائےگی۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کوحالات خراب کرنےکی اجازت نہیں دی جائےگی اور پوری قوم ہزارہ برادری کے ساتھ غم میں شریک ہے۔

مذاکراتی وفد میں پرویز رشید اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی شامل تھے۔

اس موقع پر چیئرمین ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی عبدالخالق ہزارہ نے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔

عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ لاشوں کو جمعے کی صبح سپرد خاک کردیا جائے گا۔

خیال رہے کہ دو روز سے جاری یہ دھرنا منگل کو مستونگ میں ایک بس پر حملے کے نتیجے میں جاری تھا جسکے باعث کم از کم 30 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

لشکر جھنگوی نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

واقعے کے بعد ملک بھر میں شیعہ ہزارہ برادری سراپائے احتجاج تھے جبکہ مختلف شہروں میں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہا۔

ادھر ایم ڈبلیو ایم نے جمعے کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔

دوسری جانب مستونگ سانحے کے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے سول سوسائٹی نے نیشنل پریس کلب کے سامنے شمعیں روشن کیں۔

سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کو مسلسل دہشت گردی کانشانہ بنایا جارہا ہے، حکومت کالعدم لشکر جھنگوی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرے ۔

شعیہ ہزارہ برادری کی جانب سے کراچی، لاہور، راولپنڈی، حیدر آباد اور دیگر شہروں میں احتجاجی دھرنے دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی 10 جنوری سے 13 جنوری کے درمیان ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے دو بم دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد احتجاجی دھرنا دیا تھا۔

اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو اپنے منصب سے ہٹاتے ہوئے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔

Read Comments