پاکستان

نیویارک: کومہ میں پاکستانی طالبعلم کیلئے امریکی بھی سرگرم

ٹریفک حادثے کا شکار پاکستانی طالب علم کو انشورنس کمپنی نے علاج کے تمام اخراجات اٹھانے سے انکار کر دیا۔

نیویارک: امریکا میں ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر کومہ میں جانے والے پاکستانی طالب علم کو انشورنس کمپنی نے علاج کے تمام اخراجات اٹھانے سے انکار کے بعد ان کے دوستوں اور اہلخانہ نے علاج کے لئے ہزاروں ڈالر جمع کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

بیس سالہ محمد شاہزیب باجوہ گزشتہ سال نومبر میں اپنے دوستوں کے ہمراہ کار میں مینا پولیس شہر سے واپس یونیورسٹی آف وسکونسن سپیریئر آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی ایک ہرن سے ٹکرانے کے باعث حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔

امداد جمع کرنے کے لیے امریکا آنے والے ان کے بھائی شاہ ریز نے کہا کہ انشورنس کمپنی ہم پر زور دے رہی ہے کہ ہم 28 فروری کو ویزہ کےخاتمے کے ساتھ ہی پاکستان واپس جانے کی دستاویزات پر دستخط کر دیں اور ساتھ ساتھ خبردار کیا کہ اگر اہلخانہ نے انکار کیا تو وہ اخراجات برداشت نہیں کریں گے۔

باجوہ نے بدھ کو اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ اس پر دستخط نہیں کریں گی کیونکہ یہ اپنے ہاتھوں سے بیٹے کو قتل کرنے کے مترادف ہو گا کیونکہ میرا بھائی 24 گھنٹے تک ہوائی سفر برداشت نہیں کرسکتا اور ایسی صورت میں اس کی جان کو خطرہ ہو گا۔

جمعرات کی دوپہر کو شاہ ریز نے اپنے بھائی کے طبی اخراجات کے سلسلے میں آن لائن ایک اپیل کی ہے جبکہ اس کے علاوہ ویزہ میں توسیع کی درخواست بھی دے دی ہے۔ اس مد میں ان کے پاس پہلے درکار رقم سے 19 ہزار ڈالر زائد جمع ہو چکے ہیں جہاں انہیں ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم درکار تھی۔.

شاہ زیب کے دوستوں نے پٹیشن کی آن لائن ویب سائٹ چینج ڈاٹ او آر جی پر ایک درخواست جمع کرائی ہے جس پر اب تک ایک ہزار افراد دستخطکر چکے ہیں جن میں سے اکثریت امریکیوں کی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی حکام امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگرشاہ زیب کے اہلخانہ علاج کے لیے فنڈ جمع کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ویزہ میں توسیع کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔

تسنیم اسلم نے یہ بھی کہا کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے اس معاملے پر بات ہوئی ہے، ویزہ میں توسیع مسئلہ نہیں لیکن بلاشبہ مریض کی دیکھبھال کی پہلی ذمے داری ان کے اہلخانہ کی ہے۔

دلتھ منے سوٹا میں واقع ایسنشیا ہیلتھ سینٹ میری میڈیکل سینٹر اب تک شاہ زیب کا ساڑھے تین لاکھ روپے کا علاج فری میں کر چکا ہے۔

شاہ زیب کے انکل امانت حسین ساہی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کا بھتیجا ایک ہونہار طالبعلم تھا جس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے، اباس خاندان کی تمام گزر بسر پنشن اور زمین سے آنے والی چھوٹی موٹی آمدنی سے ہوتی ہے۔

انہوں نے مذید کہ علاج کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے انہیں اس زمین کو بیچنا پڑے گا۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز جہاں اس سے قبل شاہ زیب پڑھ چکے ہیں، کے وائس چانسلر سہیل ایچ نقوی نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کے تحت نیشنل آوٹ ریچ پروگرام کے طالبعلم تھے جس کے تحت محدود وسائل کے حامل ہونہار طلبا کواسکالر شپ دی جاتی ہے۔

ایک اور پروفیسر ندا کرمانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ کیمپس میں لبرل کارکن کے طور پر مشہور تھا جس نے یونیورسٹی کی پہلی فیمنسٹ سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ میرے بہترین شاگردوں میں سے ایک ہے جو معاشرے میں انصاف کی بات کرتا تھا، وہ کلاس میں خواتین کے حقوق پر انتہائی کھل کر بات کرتا تھا اور پاکستان میں یہ بات بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔