پاکستان: پیدائش کے پہلے دن کی اموات میں سرِ فہرست
لندن: مردہ بچوں کی پیدائش یا پیدا ہونے کے پہلے ہی دن مرجانے والے بچوں کی سب سے ذیادہ شرح پاکستان میں ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں حاملہ خواتین کو خوراک، زچگی اور میڈیکل سہولتوں میں کمی کا سب سے ذیادہ سامنا ہوتا ہے۔
اس بات کا انکشاف برطانیہ کی ایک تنظیم سیو دی چلڈرن نے کیا ہے۔
تنظیم کی طرف سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پیدا ہونے والے دس لاکھ بچے صرف 24 گھنٹوں میں ہی دم توڑدیتے ہیں۔ رپورٹ میں حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ معمولی عمل سے ان اموات کو روکا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال 2012 میں 66 لاکھ بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور اس کی وجوہ کو بہت آسانی سے روکا جاسکتا تھا۔
اگرچہ 1990 میں یہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے تھے اور بچوں کی اموات کی شرح کم ہوئی ہے لیکن ' اب بھی یہ مسئلہ نہایت اہم ہے کیونکہ زندگی کے ابتدائی دنوں میں بچوں پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی، رپورٹ میں مزید لکھا ہے۔
' نومولود اموات کے خاتمے' نامی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2012 میں دس لاکھ بچے اپنی زندگی کا پچیسواں گھنٹہ بھی نہ دیکھ سکے اور صرف ایک دن ہی زندہ رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات کئے جائیں تو ہرسال بیس لاکھ بچوں کی اموات کو روکا جاسکتا ہے۔
' بچوں کی اموات اب بھی مہذب دنیا کیلئے شرم کی وجہ ہے۔ ہر روز پانچ سال سے کم عمر کے 18,000 بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں، اور اس کی وجوہ کو روکا جاسکتا ہے،' رپورٹ مزید کہتی ہے۔
' رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوے کی دہائی میں بچوں کی اموات میں کمی کی اہم وجوہ فیملی پلاننگ، امیونائزیشن، خوراک میں بہتری اور بچوں کا علاج شامل ہے اور اس کے ساتھ معاشی صورتحال میں بہتری بھی ہے۔
پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جہاں پہلے ہی دن بچے ہلاک ہوجاتے ہیں یعنی ایک ہزار بچوں میں سے چالیس بچے یا تو مردہ پیدا ہوتےہیں یا اپنی پیدائش کے ایک دن بعد ہلاک ہوجاتےہی۔ اس کے بعد گنی بساؤ (32.7), سیرا لیون (30.8)، صومالیہ (29.7)، گنی بساؤ (29.4) اور افغانستان شامل ہے جہاں ایک ہزار زچگیوں میں 29 بچے مرجاتے ہیں۔
پاکستان میں نصف سے زائد خواتین کو پیدائش کے وقت تجربہ کار عملہ یا مڈوائف میسر آتی ہیں۔
رپورٹ میں تنخواہوں میں تاخیر، دواؤں میں کمی یا خالی اسٹاکس، ناکارہ آلات اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
اس سے قبل انڈیا ان ممالک میں سب سے آگے تھا جہاں نومولود بچوں میں اموات کی شرح سب سے ذیادہ تھی۔ وہاں پہلے روز مرنے والے یا مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 598,038 تک سالانہ تھی۔
نوے کی دہائی میں وہاں ایک ہزار پر 126 بچے پانچ سال تک پہنچتے پہنچتے مر جاتے تھے لیکن اب اس میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے۔ سیو دی چلڈرن اس وقت 120 سے زائد ممالک میں مصروف ہے جو ماؤں اور بچوں میں اموات کی شرح روکنے کیلئے کئی پروجیکٹس پر کام کررہی ہے۔