Dawn News Television

شائع 25 مارچ 2014 08:29am

پشاور: خاتون ہیلتھ ورکر اغوا کے بعد ہلاک

پشاور: پاکستان کے شمالی صوبہ خیبرپختوخوا کے دارالحکومت پشاور کے مضافات میں واقع گلوزئی نامی گاؤں سے انسداد پولیو ہیلتھ ورکر کو ان کے گھر سے اغوا کر کے ہلاک کردیا گیا۔

پولیو ٹیم کی مذکورہ ہیلتھ ورکر کی گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ لاش گزشتہ روز پیر کی صبح برآمد ہوئی۔

تیس سالہ سلمیٰ فاروقی نے دھمکیوں کے باوجود حال ہی میں خیبر پختونخوا کی جانب سے شروع کی گئی صحت کا انصاف انسدادِ پولیو مہم میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

مقتول سلمیٰ فاروقی کے والد عبدالغنی نے ڈان کو بتایا کہ اتوار کی رات بارہ بجکر پینتالیس منٹ پر تقریباً 12 مسلح افراد ان کے گھر میں گھس گئے، جبکہ کچھ افراد پہلے گھر کی دیواروں پر چڑھ کر گھر میں داخل ہوئے اور خاندان کے ایک ممبر کو مرکزی دروازے کی چابی دینے پر مجبور کیا۔

اس کے بعد ان کے دیگر ساتھی بھی گھر میں داخل ہوئے اور فیملی کے تمام افراد کے ہاتھ باندھ کر ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں۔سلمیٰ فاروقی کے شوہر محمد کریم نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، لیکن مسلح افراد نے انہیں ان کے پانچ بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔

عبدالغنی کا کہنا تھا کہ گھر والوں نے ابتدائی طور پر یہ سمجھا کہ حملہ آور ڈاکو ہوسکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے دس ہزار روپے کی رقم اور کچھ زیوارت اٹھا لیے تھے، لیکن وہ سلمیٰ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔

اغوا کاروں کے گھر سے جانے کے بعد ایک بچے نے اپنے ہاتھ کھول لیے اور بعد میں اس نے باقی تمام لوگوں کے ہاتھ بھی کھول دے۔

اس کے بعد انہوں نے اس واقعہ سے متعلق فوری طور پر اپنے پڑوسیوں کو آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ پڑوسیوں نے گھر سے قریب علاقے کی سڑکوں پر حملہ آوروں کو تلاش کرنا شروع کیا، لیکن اس وقت تک وہ علاقے سے فرار ہوچکے تھے۔

عبدالغنی کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی صبح یعنی پیر کو ان کے رشتہ داروں نے واقعہ کے خلاف موٹر وے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے بلاک کردیا، ایس پی راحیم شاہ خان ان کو اس بات کی یقین دہانی نہ کرواسکے کہ پولیس سلمیٰ فاروقی کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے کچھ دیر بعد انہیں ایک فون کال وصول ہوئی جس میں ان سے کہا گیا کہ ان کی بیٹی کی لاش شاہ علم دریا کے پاس پڑی ہوئی ہے۔

اس اطلاع پر مذکورہ خاتون کی لاش کو ہسپتال لے جایا گیا، جہاں پر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ لاش پر گہرے زخم اور تشدد کے نشانات موجود ہیں اور خاتون کو رائفل سے گولیاں اور چاقو سے ہلاک کیا گیا۔

مقتول خاتون کے والد کا کہنا تھا کہ "ان کی فیملی کا کوئی دشمن نہیں تھا اور دھمکیوں کی وجہ سے اکثر اوقات ہم خود سلمیٰ کو حفاظت کرنے کا مشورہ دیتے تھے، لیکن وہ باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی کو جاری رکھتی تھی۔"

ان کا کہنا تھا کہ جو رقم حملہ آورز اپنے ساتھ لے کر گئے وہ بچوں کی ایڈمیشن فیس کے لیے رکھی ہوئی تھی۔

Read Comments