ضربِ عضب سے بچنے کیلئے جنگجوؤں نے داڑھیاں منڈوا لیں
بنوں: شمالی وزیرستان آپریشن سے قبل سیکڑوں طالبان جنگجوؤں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے نئے انداز میں بال کٹوانے کے ساتھ ساتھ داڑھیاں تک منڈوا لیں۔
اس بات کا انکشاف پناہ گزینوں نے کیا جو آپریشن سے قبل شدت پسندوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ طالبان غیر ملکی اشیا کے کتنے دلدادہ ہیں۔
علاقے کے سب سے مشہور باربر(بال بنانے والے) اعظم خان بھی جون میں فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد دیگر پانچ لاکھ افراد کی طرح نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ فوجی آپریشن کی اطلاع ملتے ہی ان کا کاروبار چمک اٹھا کیونکہ شدت پسندوں نے فوری طور پر اپنے بالوں اور داڑھی کے اسٹائل تبدیل کرا لیے۔
انہوں نے بنوں میں ایک دکان پر بال کاٹتے ہوئے کہا کہ میں نے سیکورٹی فورسز کے آپریشن سے قبل 700 سے زائد مقامی اور ازبک دہشت گردوں کے بال اور داڑھی کاٹی۔
| |
یاد رہے کہ آپریشن کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نے بنوں کی جانب نقل مکانی کی ہے۔
ایک عرصے سے اعظم خان طالبان کمانڈرز کے بال کاٹتے آ رہے ہیں جہاں یہ سب گزشتہ سال نومبر میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی طرح بال کٹوانا پسند کرتے تھے لیکن کئی میں یک دم ان کی جانب سے اسٹائل میں تبدیلی کی مانگ کی گئی۔
خان نے بتایا کہ انہی رہنماؤں نے آ کر بال اور داڑھی چھوی کرنے کا مطالبہ کیا ار بتایا کہ وہ گلف ملک جا رہے ہیں اور پاکستانی ایئرپورٹ پر مسائل سے بچنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ مقامی زبان تقریباً نابلد ازبک اور تاجک جنگجوؤں نے بھی آ کر یہی مطالبہ دہرایا۔
خان نے بتایا کہ یہ پشتو انتہائی کم جانتے تھے اور صرف چار الفاظ کہتے تھے: ملگری(دوست)، مشین، زیرو، اسلام آباد، جس کا مطلب یہ ہوتا کہ ان کی داڑھی مکمل صاف کر دی جائے کیونکہ ان سب کو اسلام آباد جانا ہے۔
فرنچ پرفیوم
فوج نے ملک بھر میں دپشت گرد حملے کرنے والوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ 15 جون کو شمالی وزیرستان میں کارروائی شروع کی۔
افغان سرحد سے متصل یہ پہاڑی علاقہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ ازبک دہشت گردوں سمیت ہر طرز کے شدت پسندوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔
ایک عرصے سے طالبان کی جاگیر میں زندگی گزارنے والے شمالی وزیرستان کے افراد نے اپنے ہونٹ سیے ہوئے ہیں کیونکہ دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی بھی اطلاع دینے پر انہیں طالبان کی جانب سے اغوا یا سر قلم کیے جانے کا ڈر ہے۔
لیکن جیسے ہی لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقال مکانی شروع کی تو کچھ لوگوں نے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کہانیاں بتائیں۔
جہاں ایک جانب شدت پسند پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی لڑائی میں سیکڑوں بم دھماکوں اور ہزاروں افراد کی جان لینے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر مغرب کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو دوسری شمالی وزیرستان میں وہ مہنگی اور بہترین غیر ملکی چیزیں استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔
میران شاہ کے ایک دکاندار حکمت اللہ خان نے بتایا کہ ایک طرف وہ ہم سے ماہانہ 300 روپے بھتہ مانگتے تھے تو دوسری جانب ان کے جنگجو غیر ملکی اشیا جمع کرتے رہتے تھے۔
خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ غیر ملکی شیمپو، صابن اور پرفیو وغیرہ خریدنے میں انتہائی دلچسپی رکھتے تھے۔
’وہ فرنچ اور ترک پرفیوم، باڈی اسپرے اور صابن وغیرہ خریدنے کا شوق رکھتے تھے‘۔
میرانشاہ کے قریب دتا خیل کے علاقے کے ایک ہول سیل دکاندار محمد ظریف نے بتایا کہ شدت پسند بڑی تعداد میں برطانوی ڈٹرجنٹ اور امریکی کوکنگ آئل خریدتے تھے جس میں سے زیادہ تر دبئی سے اسمگل ہو کر آتا تھا۔
شدت پسند بھاگ گئے؟
پاکستان کا اتحادی امریکا ایک عرصے سے آپریشن کر کے حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے پر زور دیتا رہا ہے جہاں یہ نیٹ ورک پڑوسی ملک افغانستان میں نیٹو کے دستوں کو نشانہ بناتا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ان کے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔
فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ و نسل کے دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے لیکن کارروائیوں کے دوران فوج کو کسی بھی موقع پر مزاحتم ہونے سے اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی جنگجوؤں کی بڑی تعداد علاقے سے فرار ہو گئی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اب تک کم از کم 400 شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ شمالی وزیرستان سے ان کے ٹھکانے ختم کر دیں گے جس سے وہ آئندہ انہیں پاکستانی سرزمین پر حملوں کی حکمت عملی بنانے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو لانے میں مدد ملے گی۔
تاہم ابھی یہ بات قبل از وقت ہے کہ آںے والے وقتوں میں آپریشن کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
انٹیلی جنس اور فوجی ذرائع کے مطابق مئی میں فوجی آپریشن کی افواہوں کے باعث 80 فیصد سے زائد شدت پسند علاقے سے فرار ہو گئے تھے جن میں سے زیادہ تر افراد نے افغانستان کی جانب ہجرت کی۔
ان ذرائع کے مطابق آپریشن سے قبل دس ہزار سے زائد جنگجو علاقے میں موجود تھے تاہم اس وقت ان کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے تاہم اس تعداد ی تصدیق انتہائی مشکل ہے۔
فوج نے افغانستان سے مطالبہ کیا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے اور رواں ہفتے دونوں ملکوں کی فوجی قیادت نے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔
ایک غیر ملکی سفارتکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ شدت پسند آپریشن کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی اس حوالے سے مکمل آگاہی رکھتے تھے، اسی وجہ سے زیادہ تر بھاگ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آپریشن کے بعد کیا پاکستان حقانیوں اور دیگر گروپوں کو پاکستان واپسی کی اجازت دے گا؟۔