Dawn News Television

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2014 02:55pm

جسم فروشی کے لیے لڑکیوں کی دبئی اسمگلنگ

فیصل آباد: شمائلہ* نے کبھی کمپیوٹر انجینئر بننے کا خواب دیکھا تھا، لیکن اس کے بجائے سولہ برس کی یہ روشن آنکھوں والی پاکستانی لڑکی کو دھوکے سے متحدہ عرب امارات میں جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا گیا، اور اس کے لیے جنسی زیادتی، تشدد اور ظلم و ستم پر مبنی چار برس طویل ایک ڈراؤنا خواب شروع ہوگیا۔

پاکستان طویل عرصے سے اس خلیجی ریاست کے لیے سستے مزدوروں کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے، خاص طور پر اس کے تعمیراتی شعبے کے لیے جس میں زور و شور کے ساتھ کام جاری ہے۔

لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور حکام کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ سینکڑوں نوجوان پاکستانی خواتین کو بھی ہر سال دبئی کے نائٹ کلبوں اور جسم فروشی کے اڈوں میں جنسی تجارت کی فراہمی کے لیے اسمگل کردیا جاتا ہے۔

شمائلہ اور ان کی بہن رابعہ * بھی ان میں سے ایک تھیں۔

ان کے وہاں سے فرار کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے بعد بھی شمائلہ کادرد اب بھی ان کی لڑکھڑاتی چال، ان کے متذبذب لہجے اور ان کے جسم پر نقش ہوچکا ہے، جس پر تشدد کے ان گنت نشانات موجود ہیں۔

ٹانگوں کی لمبائی میں عدم توازن سے انہیں چلنے میں دشواری ہوتی ہے، جو گئے ایک آپریشن نشانی ہے، جو انہیں دبئی اسمگلنگ کرنے والے گروہ کی جانب سے تین مرتبہ گولی مارنے کے بعد کیا گیا تھا۔

شمائلہ اور رابعہ 2013ء میں کسی طرح سے اپنے اذیت رسانوں کی گرفت سے نکلنے کی گوشش میں کامیاب ہوئیں، اور زندہ بھی ہیں، وہ ایک کچی آبادی میں دو کمروں کے ایک گھر اندر انتقامی حملے کے خوف سے چھپ گئی تھیں۔

ان کے مکمل نام اور ان کے شہروں کے نام ان کے تحفظ کی خاطر پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔

صوبۂ پنجاب میں ان کے آبائی قصبے میں جب ان کی مصیبت کے دن چل رہے تھے اور ان کا خاندان معاشی تنگی سے دوچار تھا، اس دوران عائشہ نامی ایک پڑوسن نے ان دونوں بہنوں کو کچھ گھریلو کام کی پیشکش کی۔

کچھ عرصے بعد عائشہ نے ان دونوں بہنوں کو اپنے بیوٹی پارلر میں کام کرنے کے لیے دبئی لے جانے کی تجویز پیش کی۔ اس نے جعلی کاغذات حاصل کیے اور ان کی مدد سے کم عمر شمائلہ کو پاکستان سے باہر لے گئی۔

رابعہ پر جو کچھ گزری اس سے وہ بہت زیادہ مجروح ہیں، وہ اپنی کربناک آزمائش کو بمشکل ہی بیان کرسکیں۔

اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے شمائلہ نے ان خوفناک واقعات کا انکشاف کیا جو دبئی میں ان کا انتظار کررہے تھے۔

شمائلہ نے بتایا ’’عائشہ ہمیں ایئرپورٹ کے واش روم کی طرف لے گئی اور ہمیں بتایا کہ اس کے گاہکوں کے لیے ہم سے جنسی خدمات لی جائیں گی۔ ہم نے رونا شروع کردیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ ہم نے جعلی کاغذات پر سفر کیا ہے، اور اگر ہم نے کچھ بھی کہا تو ہمیں پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔‘‘

جب انہیں متبادل کوئی صورت دکھائی نہ دی تو دونوں بہنیں یہ سوچتے ہوئے عائشہ کے ساتھ چلی گئیں، کہ وہ گاہکوں کے ساتھ جنسی تعلق سے بچنے کی پوری کوشش کریں گی۔

شمائلہ نے کہا ’’پہلی مرتبہ وہ خود بھی کمرے میں موجود تھی اور اس نے گاہکوں کی خواہش کی تسکین کے لیے ہمیں مجبور کیا۔ اس کے سامنے اور اس کی مدد کے ذریعے ہمارے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔‘‘

بعد میں عائشہ نے اپنے گاہکوں سے کہا کہ وہ اس کے نمبر پر کال کرکے اپنے موبائل فون ساتھ رکھیں تاکہ اس دوران کیا ہورہا ہےوہ سنتی رہے۔

شمائلہ نے کہا ’’ہم نے جب ریپ کے دوران گاہکوں سے تعاون کرنے سے انکار کیا تو اس نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا، اس نے ہمیں بتایا کہ کمرے کے اندر جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘

یہ عورت انہیں باہر جانے یا ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ بات کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کبھی کبھار ہی فون پر بات ہوئی، اور انہیں دھمکی دی جاتی تھی کہ ان سے یہاں کے بارے میں کو ئی بات نہ کی جائے۔

شمائلہ نے کہا ’’وہ ہم میں سے ایک کو پکڑ لیتی تھی اور دوسری بہن سے کہتی تھی کہ اپنے والدین سے بات کرو، ساتھ ہی دھمکی دیتی تھی کہ اگر جسم فروشی کے اس اڈّے کے بارے میں کوئی انکشاف کیا تو وہ ہمیں قتل کردے گی۔‘‘

وقتاً فوقتاً عائشہ ان خواتین کو پاکستان واپس لے جاتی تھی، تاکہ ان کے ویزے کی تجدید کرواسکے۔ انہیں دھمکی دی جاتی تھی کہ وہ خاموش رہیں، اگر انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ دیا گیا تھا، تو وہ ان کے پورے خاندان کو قتل کروادے گی۔

فرار میں کامیابی، لیکن محدود آزادی

آخرکار یہ بہنیں مارچ 2013ء میں اپنی بڑی بہن قمر کو اپنے اوپر گزرنے والے عذاب کے بارے بتانے کی ہمت کر پائیں اور یہاں سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوسکیں۔

شمائلہ نے بتایا ’’عائشہ کا بھائی اور اس کے شوہر کا چھوٹا بھائی ہمارے گھر پہنچے اور انہوں نے مجھ پر تین گولیاں فائر کیں۔ اس عورت نے پولیس اہلکار کو ہسپتال بھیجا، جس نے مجھے ہراساں کیا اور مجھ سے کہا کہ اس کے باوجود کہ میری ٹانگ میں سرجری ہوئی تھی، میں چلنا شروع کردوں۔‘‘

یہ خاندان ہسپتال سے نکلنے پر مجبور ہوگیا اور روپوش ہوگیا، اس لیے کہ ان کے پڑوسیوں نے بھی ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنا شروع کردیا تھا۔

شمائلہ کے خاندان نے عدالت سے رابطہ کیا کہ وہ عائشہ اور اس کے شوہر اشفاق کی جانب سے چلائے جانے والے انسانی اسمگلنگ کے اس گروہ کو پکڑنے کے لیے کارروائی کرے۔

عدالت نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو کارروائی کا حکم دیا ، لیکن اس کیس میں اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹہ جو شمائلہ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کے اکثر سیاستدانوں اور پولیس کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹہ نے بتایا ’’کئی گروہ ہر ہفتے درجنوں نوجوان لڑکیوں کو دبئی جسم فروشی کے لیے اسمگل کرتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کرتا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’اس کیس کا مرکزی ملزم اشفاق ایف آئی اے کے حکام کے سامنے عدالت سے فرار ہوگیا تھا۔ عدالت کی جانب سے اس کی ضمانت منسوخ کیے جانے کے باوجود انہوں نے اس کو گرفتار نہیں کیا۔‘‘

انسانی اسمگلنگ پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرین کو تحفظ کی پیشکش اور کارروائی سے اشارہ ملتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت جنسی تجارت کے لیے اسمگلنگ سے نمنٹے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔

امریکی رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2013ء میں متحدہ عرب امارات کی حکومت نے چالیس متاثرین کا پتہ لگایا تھا، اور انہیں ریاست کے فنڈ سے چلنے والی پناہ گاہوں میں بھیج دیا تھا۔

فیصل آباد میں ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید شاہد حسن نے اے ایف پی کو بتایا ’’یہ درست ہے کہ سینکڑوں لڑکیوں کو بیوٹی پارلرز ، میوزک اور ڈانس کلبوں میں کام کرنے کے لیے دبئی لے جایا جارہا ہے، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ انہیں جسم فروشی کے لیے اسمگل کیا گیا تھا۔‘‘

شمائلہ اور رابعہ کی آزمائشوں میں کمی آئی ہے، لیکن ختم نہیں ہوئی۔

عائشہ نے عدالت میں خود کو پیش کردیا تھا، لیکن اب وہ ضمانت پر آزاد ہے۔ یہ دونوں بہنیں اب بھی اپنی زندگی کے لیے خوفزدہ ہیں کہ کوئی مسلح شخص انہیں مارنے کے لیے واپس آجائے گا۔

  • ان دونوں بہنوں کے نام اور شناخت ان کے تحفظ کی خاطر تبدیل کردیے گئے ہیں۔
Read Comments