Dawn News Television

شائع 17 جولائ 2014 10:15am

دہلی ان کراچی

کراچی سندھ کا دارالخلافہ ہے۔ برطانوی راج کے دوران ایک طویل عرصے تک سندھ بمبئی کا حصہ رہا۔

اس حوالے سے کراچی میں ایسے بے شمار مقامات اور بازار ہیں جو بمبئی کے نام سے منسوب ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں۔ البتہ بمبئی کے نام سے منسوب حیدرآباد کی مشہور "بمبئی بیکری" اب تک دنیا بھر میں جانی جاتی ہے ۔ جب کراچی سے حیدرآباد جائیں گے تو آپ کو بمبئی بیکری کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔


بمبئی کی بات اپنی جگہ لیکن دہلی ہے کہ بٹوارے کے بعد سے اس سے منسوب دکانیں اور بازار، رہائشی کالونیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر آپ جوہر موڑ سے گزر کر مشہور زمانہ "پرفیوم چوک" --یہ چوک بھی اپنی داستان آپ ہے، یقینا آپ اس کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ آپ کی یہ خواہش ضرور پوری ہوگی لیکن ابھی نہیں پھر کبھی-- کی طرف چلیں تو چوک سے پہلے آپ کو ماموں دہلی کباب والے کی دکان نظر آئے گی۔ لیکن یہ برانچ ہے۔ مرکزی دکان واٹر پمپ کے قریب ہے۔

شاہراہ فیصل پر کبھی ائیرپورٹ سے آتے ہوئے نرسری کے اسٹاپ پر بائیں جانب دیکھیں تو دہلی سوئیٹ اور بیکرز نظر آئیں گے۔ برنس روڈ کی تو بات ہی کیا ہے۔ دہلی نہاری، دہی بھلے، دہلی سوئیٹ اور نہ جانے کیا کیا۔ جن کھانے پینے کی دکانوں پر نام کی تختی نہیں لگی ان کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ دہلی والے ہیں۔

دہلی کی نہاری تو کراچی کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں ملتی ہے۔ لیکن سول اسپتال اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے قائم کردہ SIUT کے پیچھے ادریس نہاری کی کیا بات ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ ڈاکٹرحضرات جو آپ کو مرغن غذائیں کھانے سے منع کرتے ہیں، گروپ کی شکل میں آتے ہیں اور دہلی کے چٹخاروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

برنس روڈ پر سفید اور ہری مسجد سے پہلے ایک خیراتی اسپتال بھی ہے۔ یہ اسپتال "جمعیت پنجابی سوداگران دہلی" کے زیر اہتمام اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس جماعت کے زیر اہتمام کراچی کے مختلف علاقوں میں اسپتال، خیراتی ادارے، تعلیمی ادارے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

"جمعیت پنجابی سوداگران دہلی" کے بارے میں تفصیل سے ذکر آگے چل کر کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ دہلی میں آخر ایسی کون سی کشش ہے جو بٹوارے کے 65 سال بعد بھی پاکستان میں بسنے والے دہلی کے سابقہ باسیوں کے دل سے محو نہیں ہوتی؟


میر تقی میر جو اردو زبان کے بہت بڑے شاعروں میں سے ایک تھے، جب دہلی سے لکھنؤ منتقل ہوئے تو ان کے حلیے کو دیکھ کر لکھنؤ کے باشندوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ جس پر افسردہ ہو کر انہوں نے یہ اشعار کہے۔

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں!

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

میر اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں؛

لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس

میر کی سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا

دل و دلّی دونوں اگر ہیں خراب

پہ کچھ لطف اس اجڑے نگر میں بھی ہیں

شاہ حاتم کا شعر ہے؛

پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو

اور بستی نہیں یہ دلّی ہے۔

شرف الدین پیام دلّی کے حوالے سے لکھتے ہیں؛

دلّی کے کج کلاہ لڑکوں نے

کام عشّاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل عام کیا


دہلی سینکڑوں برسوں تک برصغیر کا دارالخلافہ رہا۔ "جمعیت پنجابی سوداگران دہلی" کے ایک اہم رہنما انوار ٹینٹ والے نے دہلی سے نسبت کی وجہ یوں بیان کی کہ اتنے عرصے تک دارلخلافہ رہنے کی وجہ سے وہاں پیدا ہونے والا ہر شخص جینئیس ہوتا ہے۔ اپنی جماعت کے بارے میں ان کا کہنا تھا؛

روایات کے مطابق قدیم پنجاب سے چند خاندان جو مذہباً ہندو اور نسلاً کھتری تھے لیکھ کے تہوار کے موقع پر گنگا اشنان کی غرض سے نکلے۔ راستے میں ان کی ملاقات ایک صاحب کشف بزرگ سے ہوئی اور ان کی دعوت پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔

ان خاندانوں کی تعداد 40 کے قریب تھی، کچھ واپس پنجاب لوٹ گئے، کچھ نے دہلی، کچھ نے اتر پردیش کے نواحی علاقوں میں سکونت اختیار کی اور محلوں میں اجتماعی طور پر رہنے لگے۔ یہی خاندان مسلم پنجابی کہلانے لگے۔

پنجابی سوداگر برادری کا مرکز زیادہ تر دہلی اور کلکتہ رہا۔ 1947 کو تقسیم کے بعد برادری کی بڑی تعداد کراچی میں آباد ہوئی۔ 9 نومبر 1949 کو جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کراچی کا قیام عمل میں آیا۔

اس برادری کے افراد بہادر آباد کے قریب دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، پنجاب چورنگی کے قریب دہلی کالونی اور کورنگی ریلوے کراسنگ سے متصل اللہ والا کالونی میں آباد ہیں۔ جیسا کہ انوار ٹینٹ والے نے ہمیں بتایا تھا کہ 'دہلی کا ہر آدمی جینئیس ہوتا ہے' توشاید اسی سے خوف زدہ ہوکر محمد تغلق نے ہندوستان کا دارالحکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ممتاز ہندوستانی ادیب نورالحسن ہاشمی اپنی کتاب "دلّی" مطبوعہ ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی میں لکھتے ہیں؛

1326 میں حالات تیزی سے بدلنے شروع ہوئے۔ سلطان محمد تغلق نے طے کیا کہ دارالحکومت دہلی کے بجائے دیوگری منتقل کر دیا جائے۔ کیوں کہ وہ شہر وسط ہندوستان میں واقع تھا۔ اس لیے وہاں سے پورے ملک کا انتظام بہتر طور پر ہوسکے گا۔ اس نے دیوگری کا نام بدل کر دولت آباد رکھ دیا (یعنی کہ علاقوں کے نام بدلنے کا آغاز غالباً یہیں سے ہوا ہوگا) اور دہلی کی ساری آبادی کو حکم دیا کہ وہ دور دراز دولت آباد منتقل ہوجائے۔

تقریباً 12 برس بعد سلطان کو احساس ہوا کہ زمانہ قدیم سے جتنے حملہ آور ہندوستان میں وارد ہوئے وہ ملک کی شمالی مغربی سرحدوں سے آئے ہیں اور یہ بڑی فاش غلطی ہوئی کہ دہلی کو بادشاہ کی موجودگی اور اس کی حفاظت سے محروم کر دیا گیا۔ اب تو کوئی بھی حملہ آور افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوکر دہلی پر بلا کسی سخت مذاحمت کے قابض ہوسکتا تھا۔ چنانچہ 1341-42 میں سلطان نے دولت آباد کو خیرباد کہا اور خیر سے پرانے دارالحکومت دہلی لوٹ آۓ۔

دیکھی آپ نے دہلی کی کشش اور اہمیت! ہمارے استاد جناب حسین نقی فرماتے ہیں کہ شہنشاہ ہمایوں جب ہندوستان بدری کے بعد دوبارہ لوٹے تو ان کے ساتھ رند بلوچوں کا ایک فوجی دستہ بھی ہمراہ تھا۔ لیکن جب اورنگزیب نے اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے ان رند بلوچوں کو ہندوستانی پنجاب کے علاقے ہریانہ میں جاگیریں دے کر دہلی بدر کیا۔ کیوں؟ اندیشہ یہ تھا کہ دہلی میں رند بلوچوں کی موجودگی مغل اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

بٹوارے کے بعد ان بلوچوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان ہجرت کی، یہ اب بھی لاہور، ملتان کراچی اور میرپورخاص کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں مگر اب بلوچی کے بجائے اردو بولتے ہیں، لیکن ذات کے خانے میں بلوچ ہی لکھتے ہیں۔


سندھ نے بمبئی سے تو آزادی حاصل کرلی۔ لیکن دہلی، دہلی ہے اس سے پیچھا چھڑانا نا ممکن ہے۔ بات صرف کھانے پینے کی اشیاء کی دہلی سے نسبت کی نہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلا اردو اخبار بھی دہلی سے آیا تھا جو میر خلیل الرحمان لائے تھے۔ اب یہ جنگ گروپ کے نام سے ایک بہت بڑا ادارہ ہے (گو کہ زیر عتاب ہے).

حکمت بھی دہلی سے آئی جو حکیم محمد سعید لائے اور ہمدرد یونی ورسٹی جیسا عالی شان ادارہ قائم کر گئے۔ بعد میں سندھ کے گورنر بھی بنے اور غالباً اسی جرم میں مارے بھی گئے۔

ضیاء الحق کے بعد پاکستان پر ایک طویل آمریت کے ذریعے حکومت کرنے کا اعزاز بھی کراچی کے ایک دہلوی پرویز مشرف کو حاصل ہوا۔ موجودہ صدر اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر جناب ممنون حسین کا تعلق بھی جمعیت پنجابی سوداگران دہلی سے ہے۔

اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن فالحال اتنا ہی، اپنی راۓ سے ضرور آگاہ کریں اور اگر کچھ نئی معلومات ہوں تو ضرور شیئر کریں.

Read Comments