Dawn News Television

شائع 21 جولائ 2014 02:22pm

قومی شناختی کارڈ اور گونگا مصلّی -- 3

یہ اس کہانی کا تیسرا اور آخری حصّہ ہے، پہلا اور دوسرا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں


ایک شام وہ کھیتوں سے سیدھا گھر آیا تو وہاں خواتین کا جمگھٹا دیکھ کر اسے تشویش سی ہوئی۔ گھر کے گرد چاردیواری نہ تھی، اور گھر بھی کیا تھا، بس ایک جھونپڑی تھی جس میں گھر کے تین افراد رہتے تھے۔ وہ دوڑ کر جھونپڑی کے دروازے پر آیا تو دیکھا کہ اس کا دادا نیم بیہوش پڑا ہانپ رہا تھا اور اس کے سر سے خون ایک باریک سی دھار کی صورت میں بہہ کر اس کی سفید داڑھی میں کہیں جذب ہو گئی تھی جبکہ ہمسائیاں اسے پانی پلا کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

"کیا ہوا دادے کو؟ اماں کہاں ہے؟!" اس نے تیزی سے ایک عورت سے پوچھا۔

بتایا گیا کہ علاقے کا تھانیدار اس کی تلاش میں آیا تھا، اسے گرفتار کرنے، کہ اسے اس پر ڈکیتی کا شبہ تھا۔ اس کی ماں نے یہ سنا تو آپے سے باہر ہو گئی اور تھانیدار کو خوب سنائیں۔ تھانیدار نے اسے حکم دیا کہ اس کی ماں کو ہی گرفتار کر کے تھانے لے جایا جائے۔

جب سپاہیوں نے مانک کی ماں کو گھسیٹنا شروع کیا تو بوڑھے اللہ یار نے آگے بڑھ کر اپنی لاٹھی ایک سپاہی کے رسید کی۔ جواب میں بندوق کے بٹ کی ایک ہی ضرب نے اگلے ایک گھنٹے کے لیے بوڑھے کو خاموش کر دیا۔

کچھ عورتوں نے مانک کو کوسنا شروع کر دیا کہ اس کی ایک بری حرکت کی وجہ سے اس کی بوڑھی ماں اور بوڑھے دادا پر یہ ظلم ہوا۔ وہ قسمیں کھا کر اپنی صفائیاں پیش کرنے لگا لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی، تو وہ غصے کے عالم میں سیدھا گھر سے نکلا اور تھانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

تھانے میں داخل ہوا تو علاقے کے نئے ایس ایچ او انسپکٹر مقصود احمد وڑائچ صاحب اپنی جلالت مآب توند اور مونچھوں کو بڑے سلیقے سے اپنی صاف ستھری اور اجلی وردی کے ہمراہ سمیٹ کر تھانے کے صحن میں دفتر جمائے بیٹھے تھے۔ 'بارک ملازمان' کے دروازے کے ساتھ اسے اپنی ماں دبکی بیٹھی نظر آئی۔

اس نے جاتے ہی تھانیدار سے اپنا تعارف کرایا اور اپنا شناختی کارڈ نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔

"اوئے کہاں گیا تھا تو؟ اب چلا آیا ہے اپنی ماں کی عزت افزائی کروا کے؟" تھانیدار نے سخت ناگواری سے اس کا کارڈ دیکھے بغیر کہا۔

"چوہدری صاحب، میرا قصور بھی تو بتائیں ناں" مانک نے احتجاجی لہجے میں کہا تو پاس کھڑے سب انسپکٹر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کی گدی پر جمایا اور وہ قریب قریب تھانیدار کی میز پر جا گرا۔ "مصلّی کا بچہ! ایس ایچ او صاب سے پوچھتا ہے، میرا جرم کیا ہے!" سب انسپکٹر نے، جسے سب شاہ صاحب کہہ کر پکار رہے تھے، غصے اور حقارت سے کہا۔

مانک کو تھپڑ اتنے زور سے لگا تھا کہ اس کی آنکھوں میں درد کی شدت سے آنسو آ گئے۔

ایک فیصل آباد پر ہی کیا موقوف، پورے پنجاب کے دیہی علاقوں میں وارداتوں کے بعد شک کی بنا پر سب سے زیادہ پکڑی جانے والی قوم مصلّیوں کی ہے۔ کیونکہ ان کے لیے نہ کوئی سیاستدان آگے آتا ہے اور نہ ہی کوئی وکیل ان کے کیس لڑتا ہے۔

غریب، ان پڑھ، گنوار اور شاید کالے ہونے کی وجہ سے ان کا شمار ہمارے کسی طبقے سے نہیں ہے، اور مانک کی بدقسمتی کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکا تھا۔

"صاحب یہ کارڈ ہے میرا۔ دیکھ رہے ہو کیا لکھا ہے اس پر؟ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ میری ماں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔" مانک نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ بمشکل ایس ایچ او کو کہا۔

"کیا لکھا ہے اس پر؟ ایم پی اے کا کارڈ ہے یا ایم این اے کا؟" ایس ایچ او نے ہنس کر کہا تو سب انسپکٹر نے اسے گریبان سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ "ہاں ہاں۔ پتہ چل جاتا ہے۔ ناانصافی کس کے ساتھ ہوئی ہے۔"

ایس ایچ او نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ مانک کو دور لے جایا جائے۔

"صاحب! آپ کا فرض ہے انصاف کرنا، ظلم کرنا نہیں۔۔" مانک نے قریب قریب روتے ہوئے کہا تو سب انسپکٹر نے زور سے مانک کے پہلو میں لات رسید کی۔ "ہمیں ہمارا فرض بتائے گا مصلّی کی اولاد!"۔

مانک منہ کے بل گرا تو اس کی ماں چیخ کر دوڑی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ مانک کے قریب آتی، سب انسپکٹر نے اسے زور سے دھکا دیا اور وہ قلابازیاں کھاتی ہوئی فرش پر اوندھی جا گری۔ مانک نے چیخ کر سب انسپکٹر شاہ کو بہن کی گالی دی اور اُسے زور سے دھکا دے کر اپنی ماں کی طرف دوڑا۔

"مارو اس حرامزادے کو۔۔۔"، ایس ایچ او نے یہ منظر دیکھا تو گرج اٹھا "حرامزادے ہوتے ہیں تیرے جیسے، چوہدری۔۔۔" مانک بھی چلّا کر بولا تو سارے سپاہی دوڑ کر اکٹھے ہو گئے۔ اس کے بعد مانک پر وہی گزری جو تھانوں میں اکثر غریب حوالاتیوں پر گزرتی ہے۔

چوہدری امتیاز علی کے ڈیرے پر بنے نجی ٹارچر سیل میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مانک میں مزید ایذا برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی تو چوہدری مقصود وڑائچ اور سب انسپکٹر سید انتظار حسین شاہ کے نجیب خون نے جوش مارا اور انہوں نے غریب مصلّی کو رہا کر دیا۔ مانک کی ماں اور دادا سے خالی کاغذوں پر انگوٹھے لگوا لیے گئے، دو سپاہی مانک کو چارپائی پر اٹھا کر اسے گاؤں چھوڑ آئے۔

اس کے بعد مانک کی زندگی کے چند واقعات ہی قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ گاؤں کے لوگوں کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ الہڑ عاشقوں کے سے لہجے میں ہیر سنانے والے مانک مصلّی کی زبان تھانیدار صاحب نے گالی بکنے پر بلیڈ کی دھار سےکاٹ دی تھی۔

دوسرا یہ کہ جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس نے اپنا قومی شناختی کارڈ چولھے میں جھونک ڈالا۔

تیسرا قابل ذکر واقعہ ہونے میں تھوڑا وقت لگا، مانک مصلّی کا نام گونگا مصلّی پڑ گیا۔ اسے اس کی پروا بھی نہیں تھی کہ وہ سبز شناختی کارڈ پر لکھی اپنی شناخت پر اب لعنت بھیجتا تھا۔

گونگا مصلّی اب تو کچھ نیم پاگل سا بھی لگنے لگا ہے۔ کسی نے بتایا ہے کہ لفظ 'شناختی کارڈ' سن کر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنی گونگوں کی بولی میں بہت گالیاں بکتا ہے۔


یہ اس کہانی کا تیسرا اور آخری حصّہ تھا، پہلا اور دوسرا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں


زکی نقوی اردو لٹریچر میں گریجویٹ ہیں اور مختصر اردو کہانیاں، مضامین اور مزاحیہ کالمز لکھتےہیں. آج کل جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ساتھ بطور لیگل ایڈوائزر کام کر رہے ہیں.

Read Comments