Dawn News Television

شائع 26 جولائ 2014 10:15am

اخلاقیات: غیر مسلم پاکستانیوں کے لیے

شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے افواج پاکستان کا آپریشن "ضرب عضب" زور شور سے جاری ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات اور براستہ این ایس ایف مسلم لیگ (ن) میں آئے پرویز رشید کا استدلال ہے کہ فوج عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کر رہی ہے مگر قوم کو ان کے نظریاتی ٹھکانے ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

یہ تحریر بھی اک ایسے "نظریاتی ٹھکانے" کے خاتمے کے لیے لکھی جارہی ہے جس کے بارے میں 1969 سے 2009 تک، یعنی 40 سال تک ریاست پاکستان نے چپ سادھے رکھی۔

ایک مسئلہ تو ایک کروڑ کے قریب غیر مسلم پاکستانیوں کے بچوں کو ان کے عقائد کے مطابق تعلیم دینے کا ہے، اس سے جڑا ایک اور مسئلہ پاکستانی مسلم بچوں کے ذہنوں سے اپنے غیر مسلم پاکستانی بھائیوں و بہنوں کے بارے میں خوارج کی تکفیری آئیڈیولوجی کے پیدا کردہ تعصبات اور غلط فہمیوں کے خاتمے کا ہے۔

ملک پاکستان میں 1969 کے تعلیمی پالیسی کا شمار ان بدترین تعلیمی پالیسیوں میں ہوتا ہے جس نے لبرل و عقلی (Rational) رویوں کو قومی تشکیل (Nation Building) کے گھیرے پیٹے سے باہر نکال ڈالا تھا۔

اس پالیسی میں چار اہم فیصلے کیے گئے تھے جنھیں ضیاءالحق کی سیاست کا دیباچہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ بھٹو صاحب کے ہونہار وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ اور 1972 کی تعلیمی پالیسی نے بھی ان اقدامات کے بارے چپ سادھ لی، جس کا مطلب ان کا تسلسل ہی ٹھہرا۔ یہ چار فیصلے تھے؛

  1. اسلامیات کو دسویں جماعت تک بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے۔

  2. انگریزوں کے بنائے سکولوں کی بجائے مدارس سے پڑھے ہوئے بچے پاکستان کی "نظریاتی سرحدوں" کے ضامن ہیں۔

  3. غیرملکی فنڈنگ لینے والے مشنری ادارے "نظریہ پاکستان" کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ انہیں یا تو قومیا لیا جانا چاہیے یا بند کر دینا چاہیے۔

  4. غیرمسلم پاکستانیوں کو اسلامیات کی جگہ کونسی کتب پڑھانی ہیں اس بارے پالیسی خاموش رہی کہ اب انہیں عملاً اسلامیات ہی پڑھنی ہوگی۔


آپ مانیں یا نہ مانیں، مگر میں نے جب حکومت پاکستان کی جاری کردہ درجن بھر سے زائد تعلیمی پالیسیوں اور تعلیمی کانفرنسوں کی رپورٹوں کو پڑھا تو نومبر1947 کی پہلی تعلیمی کانفرنس، 1951کی دوسری تعلیمی کانفرنس، 1959 کے باکمال شریف کمیشن اور اپنے جسٹس حمود الرحمن کی طلبا کے بارے 1966 والی رپورٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ان تمام دستاویزات میں غیرمسلموں کو ان کے عقائد کے مطابق کتب پڑھانے کا ویژن ضرور ملا۔

مگر شیر علی پٹودی اور ائیرمارشل نور خان کی تیار کردہ رپورٹ "نئی تعلیمی پالیسی کے لیے تجاویز" مطبوعہ 1969 تو قدرت اللہ شہاب کے اس خط کا تسلسل تھی جو انھوں نے 1967 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے امیر سید منور حسن کے نام لکھا تھا۔

شہاب صاحب نے اس خط میں اقرار کیا تھا کہ اب ریاست دھیرے دھیرے جماعت اسلامی کے نقطہ نظر کو اپنانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ اس خط کو پنجاب یونیورسٹی کے مجلہ "محور" کے اس خصوصی شمارے میں اسلامی جمیعت طلبہ نے شائع کیا جو صد سالہ تقریبات کے تناظر میں 1981 کو فخریہ انداز میں چھاپا گیا تھا۔

یاد رہے جنرل شیرعلی پٹودی تو وہ موصوف تھے جن کی مذہبی بنیادوں پر ہندوستان دشمنی پر مبنی دو کتابیں 1966 میں امریکہ سے چھپ چکی تھیں۔

قدرت اللہ شہاب کا قصہ بھی سن لیں جو حضرت نے خود اپنی خود نوشت "شہاب نامہ" میں رقم کیا ہے۔ 1956 کے آئین میں پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" قرار دیا تھا۔ مگر اکتوبر 1958 کے بعد مارشل لاء حکومت نے اسے بدل کر جمہوریہ پاکستان (Republic of Pakistan) کردیا اور سرکاری کاغذات پر یہی لکھا جانے لگا۔

شہاب نے جب یہ 'بے توقیری' دیکھی تو انہیں 'دھچکا' لگا اور استعفیٰ دینے بارے سوچنے لگے۔ جنرل ایوب کی توجہ دلائی تو جرنیل صاحب نے کہا یہ تبدیلی ہم نے سوچ سمجھ کر کی ہے۔ مگر جب سٹینڈ لینے کا موقعہ آیا تو سٹی گم ہو گئی۔

یہ موقعہ 1962 کے آئین کے تحت ہونے والے پہلے اجلاس کے وقت آیا۔ اس آئین میں بھی 'جمہوریہ پاکستان' ہی لکھا تھا مگر شہاب جیسے افسروں کے اضطراب اور مشرقی پاکستان کے بنگالی اراکین اسمبلی کے احتجاج کے بعد ایوبی آئین میں پہلی ترمیم کی گئی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا گیا۔

1962 کے آئین کی پہلی ترمیم انٹرنیٹ پر دسیتاب ہے۔ یہی شہاب 1962 میں دلبرداشتہ ہوکر بطور سفیر ہالینڈ چلے گئے۔ تین سال ہالینڈ میں سفارت کاری کرنے کے بعد اچانک 1966میں سیکریٹری تعلیم مقرر ہوئے تھے۔

انھوں نے یہ خط بطور چیئرمین ادارہ نصابیات پاکستان لکھا تھا جس میں ریاست کے مقتدر گروہ ”ہندوستان دشمن“ مذہبی قوم پرستی کے آگے سرنگوں ہوتے نظر آرہے تھے۔ یہ 1969کی تعلیمی پالیسی ہی تھی جس میں پاکستان کو ایک "نظریاتی مملکت" بنانے کا نعرہ لگا کر "یکساں نظام تعلیم" کی سفارش موجود ہے۔

بظاہر یکساں نظام تعلیم ایک غیر طبقاتی بندوبست نظر آتا ہے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ اس کی آڑ میں ریاست من مرضی کے نظریات یکساں انداز میں سب پر تھوپ سکے۔ مسیحی مشنری اداروں کو قومیانے جیسی سفارشات پر مبنی یہ پالیسی "سکول سسٹم" کو انگریز کی پیداوار جبکہ "مدرسہ سسٹم" کو مجوزہ نظریاتی مملکت کا پہرہ دار قرار دے رہی تھی۔

"سکول سسٹم" پر تنقید کرنے والے یہ بات یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ علامہ اقبال، قائد اعظم، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی، فیروز خان نون اور غلام محمد سمیت تحریک پاکستان میں شامل بہت سے رہنما اسی "سکول سسٹم" سے مستفید ہوئے تھے۔

عملاً یہ پالیسی تحریک پاکستان پر بھی کھلی تنقید تھی کہ اب مدارس کو استعمال کرنا ضروری گردانا جا چکا تھا۔ مدارس کو سکول سسٹم سے ملانے کے ویژن سے مراجعت اختیار کرتے ہوئے اب ان میں تکرار کو ضروری گردانا گیا۔ مشنری سکولوں کے متعلق پالیسی میں یہ الفاظ لکھے تھے؛

''Their continued existence in a free and independent state which is an Islamic Republic must be regarded as highly anachronistic.''

جب اس پالیسی پر تنقید بڑھی تو جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے ڈنگ ٹپانے کے لیے 1970 میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا۔ مگر اس نئی پالیسی میں پہلے لکھے چاروں فیصلوں پر خاموش رہتے ہوئے درحقیقت ان کے تسلسل کا اعلان کردیا۔

1972 کی تعلیمی پالیسی میں بھی ان فیصلوں کو برقرار رکھا گیا کہ جس کا ثبوت وہ فیصلہ ہے جس کے تحت تمام نجی تعلیمی اداروں کو تو قومیا لیا گیا مگر مدارس کو مستثنیٰ قرار دے ڈالا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بعد ازاں بھٹو صاحب کے وزیر تعلیم اپنی تعلیمی پالیسی کو 1973 کے آئین سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہے۔

1969 سے 2009 تک غیرمسلم پاکستانیوں کو عملاً اسلامیات پڑھانے کی پالیسی جاری رہی کہ اس دوران امیر غیر مسلم پاکستانیوں کے بچے تو مہنگے نجی تعلیمی اداروں کی طرف راغب ہوئے اور غریب غیرمسلم پاکستانی (جن کی تعداد بہت زیادہ ہے) یا تو یہ "جبر" سہتے رہے یا پھر ہندو مسیحی برادریوں کے بنائے این جی اوز کے سکولوں میں جانے لگے۔

اگر آج پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کا تناسب 5 فی صد بھی ہے تو 20 کروڑ کے ملک میں یہ ایک کروڑ پاکستانی بنتے ہیں۔ اگر کسی غیرمسلم ملک میں رہنے والی مسلم اقلیت کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو ہم کیا سوچیں گے؟

مگر اس بارے میں 40 سال تک صرف پاکستانی ریاست ہی خاموش نہ رہی بلکہ میڈیا، سیاسی جماعتیں سب اس بارے میں چپ سادھے بیٹھے رہے۔ لبرل و سیکولر حضرات نے محدود سطح پر آواز ضرور بلند کی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔

کیا ایسی پالیسی سے ہم نے ایک کروڑ باسیوں کوعملاً "غیرپاکستانی" قرار دے کر پاکستانی قوم پرستی کو مضبوط کیا؟

بھلا ہو پیپلز پارٹی کا کہ انھوں نے پچھلی حکومت کے آخری دور میں تعلیمی اصلاحات کے ضمن میں کیے جانے والے کام کو اچھی طرح ڈھوک بجانے کے بعد 2009 میں نئی تعلیمی پالیسی منظور کر دی۔ اس تعلیمی پالیسی میں 1969 کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے غیر مسلم پاکستانیوں کو پھر سے مملکت سے جوڑنے کا ویژن موجود ہے۔

اس پالیسی کی منظوری کے اگلے ہی سال بذریعہ 18ویں ترمیم کنکرنٹ لسٹ ختم ہوئی اور تعلیم سمیت بہت سے شعبہ جات مرکز کی گرفت سے نکل کر صوبوں کو منتقل ہوگئے۔ 2010 سے کم از کم پنجاب حکومت تو پالیسی کی اس شق پر عملدرآمد کروارہی ہے جس کا مقصد غیرمسلم پاکستانیوں کو دوبارہ سے پاکستانی قوم پرستی سے جوڑنا ہے۔

جب میں نے 2011 میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی چھپی کتاب کا عنصری جائزہ "ہم اپنے بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں" لکھا تو اس میں کلاس 9/10 کی اخلاقیات کی واحد کتاب بھی شامل تھی۔

2014 میں جب میں نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھے یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ بورڈ نے کلاس 3 سے 9/10 تک ماسوائے جماعت 8 کے اخلاقیات کی تمام کتب چھاپ دی ہیں۔ آپ مسلم لیگ (ن) اور میاں شہبازشریف کی حکومت سے لاکھ اختلاف کریں مگر پنجاب حکومت کا 2009 کی تعلیمی پالیسی کی اس شق کا خیال رکھنا یقینا اک مثبت پہلو ہے۔ جب میں نے اپنے کوئٹہ مقیم بلوچ دوست سے پوچھا کہ وہاں کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے غیر مسلموں کے بارے میں کتب چھاپی ہیں تو اس نے نفی میں جواب دیا۔

اب جب کے یہ کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں تو غیرمسلم پاکستانیوں میں کام کرنے والے گروہوں، غیرسرکاری تنظیموں اور اداروں کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یقینا ان کتابوں میں گھاٹے یا کمیاں ہوں گی، مگر سب سے پہلے تو اس جرات رندانہ پر انہیں پنجاب سرکار کو سراہنا چاہیے اور پھر ان کتب میں ترمیم و اضافہ کے لئے سر جوڑنا چاہیے۔

یہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں کو بھی یہ کہنا چاہیے کہ وہ پنجاب سرکار کی تقلید کریں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے اخلاقیات کی کتب جلد از جلد تیار کروائیں۔ ان کتب کو پڑھنے کے بعد جو سوالات میرے ذہن میں آئے میں ان سے بھی آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

  1. آئین پاکستان کی دوسری ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہوا ہے۔ ان کتب میں مسیحیوں، سکھوں، پارسیوں، ہندوﺅں، بدھ مت والوں بارے میں بہت سی مثبت معلومات دی گئی ہیں مگر احمدیوں اور ان کے عقائد کے بارے ذکر تک نہیں۔ یوں عملاً اخلاقیات کی یہ کتب یا تو احمدیوں کو غیرمسلم کے زمرے میں نہیں سمجھتیں یا پھر انہیں احمدیوں سے اتنی چڑ ہے کہ وہ ان کے بارے مثبت باتیں لکھ ہی نہیں سکتے۔

  2. ان کتب میں غیر مسلم پاکستانیوں کے عقائد کا ذکر تو ہے مگر ان غیرمسلم پاکستانی شخصیات کا ذکر ہی نہیں جنھوں نے وطن عزیز کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ آپ سرظفراللہ اور ڈاکٹرعبدالسلام کا ذکر بوجوہ نہیں کرنا چاہتے مگر میرافیلبوس، بھگوان داس، جوگندر ناتھ منڈل، ارد شیر کاؤس جی سمیت لاتعداد غیرمسلم پاکستانیوں کے بارے میں مضمون شامل نصاب کرسکتے ہیں جنھوں نے اس وطن عزیز میں خدمات سرانجام دیں ہیں۔

  3. انہی کتب میں آپ آئین پاکستان کی ان شقوں کا تعارف دے سکتے ہیں جن میں غیرمسلم پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔

4 . غیر اسلامی عقائد کے بارے میں مثبت باتیں "اخلاقیات" کی کتاب میں شامل کرنا بہتر عمل ہے مگر کیا ضروری نہیں کہ مسلمان بچوں کی کتب میں غیرمسلم پاکستانیوں اور ان کے عقائد کے بارے میں منفی باتیں شامل نا کی جائیں۔ اخلاقیات کی نئی کتب کا تعارف بھی کسی وقت کرواﺅں گا مگر فی الحال آپ یہ جدوجہد کریں کہ سندھ، بلوچستان، خیبر پی کے اور فیڈرل ٹیکسٹ بک بورڈ والے اخلاقیات کی کتب چھاپیں۔

Read Comments