Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2014 04:55pm

ترغیب و خواہشات: رمضان کا نیا چہرہ؟

کیا ہم کو وہ سب یاد ہے جو ہمارے والدین، دادا دادی، مولوی صاحب اوراسلامیات کے اساتذہ رمضان کے بارے میں پڑھاتے یا سمجھاتے تھے؟ اگر ہاں تو اسے بھول ہی جائیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اب اس ملک میں اس طرح کی تعلیمات کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

ٹیلی ویژن پر ہماری کسی مقامی رمضان ٹرانسمیشن کو لگائیں اور وہ سب کچھ جان لیں جو اب اس مقدس مہینے کے نئے چہرے کو جاننے کے لیے ضروری ہے۔

ہم سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک روزے یا بھوکے پیاسے رہتے ہوئے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اپنی خواہشات اور لالچ کو کنٹرول میں رکھیں مگر ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کوئی عامر لیاقت یا فہد مصطفیٰ کے رمضان کے خصوصی پروگرامز دیکھ لیتا ہے تو یہ خواہشات بے لگام ہوتی نظر آتی ہیں۔

ان شوز میں آپ کو سکھایا جاتا ہے کہ جنید جمیشد کا سوٹ، ایک سروس شوز کا جوڑا یا وائس کی گاڑی جیتنے سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیں۔

اخوت اور سخاوت کی تعلیمات کو بھول جائیں، یہ وقت تو اپنے ساتھ کھڑے بندے سے مقابلے کا ہے، چاہے نیشنل ٹیلیویژن پر اسے ہرانے میں آپ خود کو مکمل بیوقوف یا احمق کی شکل میں ہی کیوں نہ پیش کردیں مگر ایسا کرنا ضرور ہے۔

حال ہی میں اے آر وائی کے رمضان شو جیتو پاکستان کے میزبان فہد مصطفیٰ نے کچھ خواتین کو جمع کیا اور ان کے درمیان موٹرسائیکل کا مقابلہ کرایا۔

اور اس بائیک کو جیتنے کے لیے انہیں ایک مرغی کی طرح آوازیں نکالنا تھیں۔

جی ہاں یہ ہماری آج کل کی شاموں کی خاص بات ہے کہ ٹھٹھے لگاتی خواتین انعام جیتنے کے لیے 'ککڑوں کوں' کی صدائیں بلند کرتی نظر آئیں۔

اور یہ ناگزیر محسوس ہونے لگتا ہے۔

ہر سال برانڈز جیسے کوکا کولا، پیپسی اور اولپرز کے رمضان پرخصوصی اشتہارات تیار کرواتے ہیں جس سے اچانک ہی ہمیں اپنے گرد مذہب اور روحانیت کا گھیرا محسوس ہونے لگتا ہے، اسلامک بینکنگ زیادہ مقبول ہو جاتی ہے اور ریسٹورنٹس صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے 'سب کچھ کھا لوں' قسم کی ڈیلز متعارف کراتے ہیں۔

اس سادگی اور شرم و حیا جس کو ہمیں اپنانے کی تعلیمات دی جاتی ہے، کو ہم اس وقت باآسانی بھول جاتے ہیں جب مذہب کو مارکیٹنگ کے طور پر استعمال کیا جانے لگتا ہے، یہ ٹی وی چینیلز ہیں جو اپنے ناظرین کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

اسی طرح اچانک ہی ہماری ڈراما صنعت کے معروف اداکار جو کہ مارننگ شوز کے میزبان بھی ہوتے ہیں، اپنی رمضان نشریات کے لیے نیا روپ دھار لیتے ہیں۔

نئے چہروں کو بھول جائیں، ہمارے ڈراما ہیروز اپنے شوز کو اسٹائلش شیروانیوں اور تنگ قمیضوں کو پہن کر چلانے کے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں، کیا ان کے وارڈروب پر تنقید کچھ زیادہ ہوگئی؟

مگر دوبارہ ان کی جانب واپس آتے ہیں، یہ اپنے چینیلز کے رمضان کے چہرے ہوتے ہیں، ان کے ٹھاٹ باٹ اور عظیم الشان سیٹس، اس مذہبی روایت کی روح کے خلاف لگتے ہیں جس چیز کو وہ منانے کی کوشش کررہے ہیں۔

مگر ہماری قوم کو جتنا منافقت کے جراثیم نے جکڑ رکھا ہے اس میں تھوڑا سے اضافہ تکلیف دہ نہیں ہوسکتا، خاص طور پر اس صورت میں جب وہ بظاہر ہمارے ارگرد موجود متعدد افراد کو پرجوش بنا رہا ہو۔

اس طرح کے شوز کے پروڈیوسرز کو معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت انہیں کیا دکھانا ہے۔

اس شو کا اصل جوہر بہت کم ہوتا ہے، بے تحاشہ مفت تحائف ہوتے ہیں، سننے میں مذہبی لگنے والی پس منظر موسیقی اور سیٹ میں مسلم علماءیہاں وہاں بیٹھے نظر آتے ہیں، اور یہ ہے رمضان کا ایک خصوصی شو، اس طرح کے مواد کو دیکھنے کا جواز بیان کرنے کی ضرورت نہیں یہ تو آپ کے اس ماہ کے نیک و پارسا معمول میں بالکل فٹ ہوتا ہے۔

جہاں بیشتر شوز میں پرجوش ناظرین کی لائیو تذلیل اور تحقیر کی جاتی ہے، وہیں دیگر افراد بھی موجود ہیں جو درحقیقت اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اس ماہ کی روح پر توجہ مرکوز کررہے ہیں، یہ زیادہ برا ہے کہ آپ ریٹنگ کے گڑھے میں گرجائیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کے پس پردہ چھپے حقائق کو تلاش کریں۔

لوگوں پر تحائف پھینک کر لالچ اور خواہشات کی ترغیب کی بجائے یہ زیادہ بہتر اور فرحت بخش تبدیلی ہوگی کہ پاکستان کے اہم انسان دوست افراد پر پروگرامز کئے جائیں، یا کم از کم ضرورت مند افراد کی مدد کے لیے ناظرین کے فون کالز کی بجائے ان شوز پر پیسہ لگانے والی کمپنیوں اور مصنوعات کو یہ کام کرنے کی اجازت دی جائے، جو ان مستحق افراد کو تحائف دے کر ان کے عید کے خوابوں کو حقیقی تعبیردے سکیں۔

اس راستے سے وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر بھی کرسکیں گے اور معاشرے کے لیے بھی کچھ اچھا کرسکیں گے، اگرچہ حقیقی اسلامی تعلیمات کے مطابق دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فلاحی کاموں کے پیچھے اگر آپ کا جذبہ سچا نہ ہو تو اس کی تشہیر سے اصل روح کہیں کھو جاتی ہے۔

مگر کیا واقعی ایسے شوز کو دیکھنا کسی تفریح کا سبب ہوسکتا ہے، جس میں ایک مذہبی اسکالر ایک شخص کے منہ میں آم ٹھونس رہا ہو؟

یا کسی ایسے آدمی کو دیکھنا جو لائیو آڈینس کے سامنے ایک موبائل جیتنے کے لیے گنجا ہورہا ہو؟ میرے خیال میں تو نہیں، مگر ہمارے عام افراد ایک شو سے اسی وقت لطف اندوز ہوتے ہیں جب اس میں تضحیک اڑانے والا مزاح شامل ہو، بالکل ایسا ہی رات کو ہمارے سیاسی ٹاک شوز میں بھی نظر آتا ہے، جنھیں لاکھوں افراد اس لئے دیکھتے ہیں کہ اداکاروں کو ہمارے سیاستدانوں کا بھیس بدلے اور دوسروں کا مذاق اڑاتے دیکھ سکیں۔

یہ پروگرامز ہماری مذہبی روح، شرافت یا ثقافت کی عکاسی کسی صورت نہیں کرتے، بلکہ یہ تو ہمارے اندر خوداری اور وقار کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ شوز ان ٹیلیویژن میزبانوں کو اشیاءکے لالچ میں مبتلا افراد کا مذاق اڑانے کی اجازت دیتے ہیں۔

یہ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز کو مذہبی جذبات کا رخ موڑنے اور انہیں بدلنے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ اداروں کو ہمیں استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں تاکہ وہ پھر منافع کماسکیں۔

مگر صرف وہ ہی ملزم نہیں، جب تک ناظرین اس پر احتجاج نہیں کرتے یہ شوز جاری رہیں گے۔

Read Comments