Dawn News Television

اپ ڈیٹ 21 اگست 2014 06:51pm

جعلی انقلاب اور جعلی فوٹیجز

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بعض علاقوں میں ہمیں بہت سارے ایسے بینرز دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر شوارما بیچنے کے لیے مختلف خصوصیات درج ہوتی ہیں۔ مثلاً سب سے بڑا شوارما، واقعی بڑا شوارما اور اصل ٹرکش شوارما۔

انہی بینرز پر لکھی گئی خصوصیات سے متاثر ہوکر اب مختلف چینلز کی جانب سے 'سب سے بڑی نشریات' پیش کی جارہی ہیں اور ہر گھنٹے بعد پیش کی جانے والی ہیڈ لائنز اور وقفوں کے دوران چلنے والے پروموز کے ذریعے دیکھنے والوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ آپ سب سے بڑی نشریات دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھیں اور فوراً سجدے میں جاکر پروردگار کے آگے ہمارے چینل کے ناظرین ہونے کا شکر ادا کریں۔

جس طرح بینرز چسپاں کرنے والوں کے شوارمے ذرا سے چکن کے گوشت، چند سبزیوں اور باسی چٹنیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ نشریات یا ٹرانسمیشنز بھی دیکھنے میں تو بڑی مگر اصل میں چوں چوں کا مربّہ ہی ہوتی ہیں۔ جس میں ٹرانسمیشن کا آغاز بظاہر پیٹا بریڈ کی طرح تازہ دِکھنے والی فی میل میزبان کے ذریعے کیا جاتا ہے اور پھر شوارما کے اجزا کی طرح مباحثے کے شرکا پیٹا بریڈ کے ساتھ مل کر تقریبًا ہر چینل کی سب سے بڑی نشریات پیش کرتے ہیں۔

ان بڑی بڑی نشریات کی وجہ اصل میں یہ ہوتی ہے کہ ایک دن نشر کیے جانے والے پروگرام حالات واقعات کے بدل جانے کی وجہ سے اگلے دن نشر نہیں کیے جاسکتے اور اگلے دن پھر تازہ معلومات پر مبنی مباحثے دکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بھلا کوئی بھی نیوز چینل اس بات کا تعین کیسے کرسکتا ہے کہ اس کی طرف سے پیش کی جانے والی ٹرانسمیشن سب سے بڑی ہے؟

ہاں یہ ضرور مانا جاسکتا ہے کہ متعلقہ چینل جب سے معرض وجود میں آیا ہے، تب سے لے کر اب تک اس کی یہ سب سے بڑی نشریات ہو۔

ان نشریات کے دوران تقریباً ہر نیوز چینل پر چلنے والی فوٹیجز پر ایکسکلوزیو کی پٹّی چسپاں ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر میزبان کی پیشانی پر بھی یہ پٹی اس کے ایکسکلوزیو ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہوتی ہے جو کہ ہوتا یا ہوتی ہی ایکسکلوزیو ہے۔ اس کے علاوہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر سب چینلز کرین کے ذریعے اٹھائے جانے والے کنٹینرز دکھا رہے ہیں تو سب کی فوٹیجز ایکسکلوزیو ہی ہوں؟

موجودہ دور کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تقریباً تمام چینلز نے ہی ڈرون کیمراز خرید لئے ہیں اور ان کیمراز سے لی گئی فوٹیجز کے لیے ہر چینل یہی دعویٰ کرتا ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ناظرین کے لیے فضا سے لیے گئے لائیو اور ایکسکلوزیو مناظر دکھا رہے ہیں۔ جبکہ کسی بھی چینل کے یہ فضائی مناظر لائیو نہیں ہوتے بلکہ پہلے یہ مناظر ڈرون کیمروں کی مدد سے ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور پھر ان کیمروں میں سے میموری کارڈ نکال کر سیٹلائٹ وین میں موجود مشینری پر لگایا جاتا ہے اور پھر ریکارڈ کی گئی فوٹیجز میں سے بہتر فوٹیج کو نشر کیا جاتا ہے۔ لیکن اخلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ان چینلز سے ان کی اخلاقیات سے متعلق کون پوچھے۔

اس کے علاوہ تمام چینلز تحریک انصاف کے دھرنے میں رقص کرتی خواتین کو بار بار دکھاتے ہیں، اور یہ مناظر دیکھ کر دِل پشوری کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کے عمران خان کے جلسے میں خوب ماحول بنا ہوا ہے۔

حقیقت سے برعکس یہ مناظر دراصل چینلز کے کیمرہ مین کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو اپنے دل کی آنکھ سے ان مناظر کو اپنے کیمرے میں موجود ٹیپ پر منتقل کرتا ہے۔ رہی سہی کسر ویڈیو ایڈیٹر پوری کردیتا ہے جو ان تھرکتے مناظر پر اپنی مرضی کا ٹریک لگا کر ان ٹھمکوں کو بیٹ کے مطابق بٹھاتا ہے۔

اور پھر جب یہ ٹھمکے اور ڈانس سٹیپس لائیو کے سٹیکر کے ساتھ نشر کئے جاتے ہیں تو دیکھنے والے نہ چاہتے ہوئےبھی تحریک انصاف کے دھرنے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جنھیں لائیو کا سٹیکر لگا کر بیوقوف بنایا جارہا ہوتا ہے۔

یوم آزادی سے شروع ہونے والے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچز کے بعد نیوز چینلز پر ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا اور وہ یہ کہ اکثر چینلز کی جانب سے اپنے تمام میزبانوں کو شفٹوں میں اکٹھے بٹھایا جارہا ہے اور یہ تمام میزبان اپنے اپنے تجربات اور جذبات کی روشنی میں کسی سیاسی جماعت کی مخالفت کرتے ہیں یا پھر اس کے قصیدے پڑھتے ہیں۔

صفّ اوّل کے نیوز چینلز میں سے ایک پر تو ملک کے سب سے صادق اور امین اینکر نے تو دوران گفتگو یہ اعلان تک کردیا کہ میں بحیثیت پاکستانی مولانا طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کا حصّہ بننے جارہا ہوں اور باقی سب میزبانوں پر بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس کارِ خیر میں میرا ساتھ دیں۔ اس اعلان کے بعد ان پاکستان دوست میزبان کی طرف سے مائیک اتار دیا گیا اور کچھ دیر بعد انھیں مولانا قادری کی بغل میں انقلاب کے نعرے مارتے پایا گیا۔

یوم آزادی کے روز عمران خان سے بات کرتے وقت تو کمال ہی ہوگیا۔ ان اینکر کم تجزیہ کار نے خان صاحب سے سوال کرتے ہوئے کہا میں آج لاہور سے اسلام آباد آیا ہوں اور راستے میں میں نے لاکھوں لوگ کو آپ کے استقبال کے لیے تیار کھڑے دیکھا ہے۔ جس پر خان صاحب کی جانب سے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور انقلاب کے لئے تیار رہنے کا پیغام دیا۔

اسی چینل پر بیٹھے ایک بیورو چیف کی جانب سے تو چینل کی نشریات ملک کے کچھ حصّوں میں بند کرنے پر حکومت کو دھمکایا گیا کہ اگر حکومت نے ان کی نشریات فوری بحال نہ کیں تو جو کچھ ہمارے پاس حکومت کے خلاف موجود ہے وہ نشر کردیا جائے گا۔ پتہ نہیں یہ کون سے جرنلزم کے اصول ہیں جو انھیں ان دھمکیوں کی اجازت دیتے ہیں۔

ایک چینل پر تو حد ہی ہوگئی۔ تین پنجروں (ونڈوز) میں بند تین تجزیہ کاروں میں سے ایک نے تو جذبات میں ریڈ زون کو ریڈ لائٹ ایریا کہہ دیا اور بعد میں کھسیانی ہنسی کے ساتھ معافی مانگ لی۔

صفّ اول کے چینلز میں سے ایک پر میک اپ میں لپٹی ایک خاتون میزبان کرین پر چڑھی چیختی نظر آئیں، جو چیخ چیخ کر یہ بتا رہی تھیں کہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فضا میں بیٹھ کر آپ کو لمحہ با لمحہ باخبر کر رہی ہوں۔

ان انقلابوں کی کوریجز کے دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دو مختلف انقلابوں کے لیڈروں کی جانب سے تقریباً تمام چینلز کو ہی ایکسکلوزیو انٹرویوز دیے گئے۔ جس میں خان صاحب یا قادری صاحب ایک ہی صوفے پر براجمان رہے۔ بس ان کے آگے کیے جانے والے مائیک تبدیل ہوتے ر ہے۔

آخر میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ جس چینل کو دیکھ کر بڑی بڑی نشریات کرنے والے چینلز نے یہ سب کچھ سیکھا ہے وہ اس وقت اس دوڑ سے باہر ہے اور پچھلے چار مہینوں سے اس چینل کی عدم موجودگی میں یہ تمام چینلز اپنا اپنا منجن بیچ رہے ہیں۔ کاش کہ اس چینل سے نفرت کرنے والوں کے اندر بھی نواز حکومت کی طرح حوصلہ ہوتا تو یہ چینل بھی اس نازک موڑ پر اس ملک کی عوام کے لئے حقائق پیش کرہا ہوتا۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے حکومت کو ہٹائے جانے کی کوشیشیں تو انقلابی (مبینہ طور پر) ہیں ہی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوز چینلز کی نشریات بھی اس مرتبہ انقلابی ہیں۔ کاش کے یہ انقلابی نشریات مستقبل میں بھی چلتی رہیں۔ کیونکہ اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی غیر آئینی حرکتوں کی وجہ سے فوج آگئی تو تمام چینلز یہ بھول جائیں کے وہ فوج کی موجودگی میں ایسی نشریا ت کرسکیں گے۔


بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔

nasim.naveed@gmail.comTwitter: @navidnasim

Read Comments