ایک مشق کے بعد پاکستان میں ماہرین موسمیات کا کہنا تھا کہ ایک بڑے سونامی کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی صف ہستی سے مٹ سکتا ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس تجربے کے نتیجے میں تین سے 23 فٹ بلند لہریں اٹھیں جو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں۔
توصیف نے کہا کہ اس زلزلے کے نتیجے میں پورا شہر ختم ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں انتہائی طاقتور ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 1945 میں سونامی آیا تھا جس میں کم از کم چار ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سانحے کی کہانی درج ذیل ہے۔
پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً صبح 4 بجے 8.1 شدت کا زلزلہ مکران کے قریب شمالی بحیرہ عرب میں آیا۔
کراچی بلدیہ کی عمارت کی گھڑی رک گئی جبکہ زمین تقریباً 30 سیکنڈز تک ہلتی رہی۔
زلزلے کی شدت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کلکتہ تک محسوس کیا گیا تھا۔
سونامی سوسائٹی کے مطابق زلزلے کا مرکز کراچی سے تقریبا 408 کلو میٹر دور تھا۔
مکران کے ساحل کے قریب آنے والے اس زلزلے کے باعث ایک بڑے سونامی نے جنم لیا تھا جس نے پورے بحیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کراچی سے 48 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع خدی نامی بستی کی تمام آبادی صف ہستی سے مٹ گئی جبکہ پسنی اور ارمارہ کے ساحلوں پر بھی 15 فٹ اونچی لہروں کا غلبہ رہا۔
کراچی میں کم از کم تین دو میٹر اونچی لہروں نے بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ متعدد قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ لہروں کی واپسی کے سفر میں بھی بڑا نقصان ہوا جس کا خمیازہ کیٹی بندر نے بھگتا۔
پاکستان کی ساحلی پٹی 1046 کلو میٹر طویل ہے جبکہ مکران کی ساحلی پٹی 400 کلو میٹر لمبی اور 250 کلو میٹر چوڑی ہے۔
مکران سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ’سبڈکشن ریجن‘ واقع ہے جس کے باعث 1945 میں یہ سونامی آیا۔
یونیسکو کے ایک کمیشن کے مطابق 1945 کا سونامی اس خطے کا اب تک ریکارڈ ہوا سب سے بڑا سونامی تھا۔