Dawn News Television

شائع 22 ستمبر 2014 01:42pm

خواب دو انقلابیوں کے

*جمعرات کے دن کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ایسی بچی کی پیدائش ہوئی جس کا دھڑ تو ایک تھا مگر سر اور دماغ دو دو تھے۔ *

ڈاکٹروں کے مطابق پیدا ہونے والی بچی کی سانس کی نالی صرف ایک تھی، جس کی وجہ سے بچی کا بچنا مشکل تھا اور یہی ہوا۔ کچھ گھنٹے اس دنیا میں گزارنے کے بعد بچی وفات پاگئی۔

اللہ تعالٰی بچی کے والدین کو حوصلہ دے۔ آمین۔


اس بچی کا ذکر اس بے لاگ بلاگ میں اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج کل پاکستان کے دارالحکومت میں بھی ایک انقلاب جنم لے چکا ہے۔ اس کے بھی دو سر ہیں اور دو ہی دماغ۔ ظاہری طور پر اس انقلاب کی سانس کی نالی بھی ایک ہے۔ جس کے ذریعے یہ نام نہاد انقلاب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ معاشرتی حکیموں اور میڈیا کے عطائیوں کے نزدیک اس انقلاب کا بچنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

مگر مر جانے والی بچی کے برعکس اس دو چہروں والے انقلاب کی اکلوتی سانس کی نالی اتنی مضبوط ہے کہ اسے ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے اور مرتے مرتے بھی مرنے نہیں دے رہی۔ دونوں انقلابی چہروں کا اس اکلوتی سانس کی نالی پر اعتماد ابھی تک ایک جم حقیر کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنے کو جاری رکھے ہوئے ہے اور دو چہروں اور دو دماغ رکھنے والے دو انقلابی شہباز شریف اور نواز شریف کے استعفے لینے پر بضد ہیں۔

ان دونوں انقلابیوں کی اکلوتی سانس کی نالی کی مضبوطی کو دیکھتے ہوئےکچھ موسمی اور کچھ سدا بہار تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چند غیر جمہوری طاقتیں اس نالی کے ذریعے دونوں انقلابیوں کو آکسیجن مہیا کررہی ہیں۔ جن کی طرف سے دونوں انقلابیوں کو کچھ یقین دہانیاں اس وعدے کے ساتھ کروائیں گئی ہیں کہ جب تک اس حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاتا، انھیں آکسیجن کی سپلائی متواتر ملتی رہے گی۔


پڑھیے: بڑے بوٹ اور چھوٹے بوٹ


اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے ایک ماہ گزر نے کے بعد میڈیا پر بیٹھے کچھ سیاسی جوتشیوں اور سیلابی پانی میں کھڑے حکومتی عہدیداروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ دونوں انقلابی چہرے اپنے ہی ہاتھوں اپنا سیاسی مستقبل تباہ کرچکے ہیں۔ ملک میں تبدیلی کے مخالفین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری دھرنے صرف اور صرف ضد اور جھوٹی انا کی وجہ سے جاری ہیں۔

دونوں لیڈروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے اپنا سیاسی کریئر بچائیں اور جیت کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا ختم کرسکیں۔ مگر بھولے بھالے سیدھے سادے تبدیلی کے دشمنوں کو ابھی ان دو شاطر دماغ رکھنے والے انقلابیوں کی سانس کی نالی کی مضبوطی کا اندازہ نہیں، جس کے ذریعے آکسیجن کی ترسیل بغیر تعطل کے جاری ہے۔

میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق تو دونوں انقلابیوں اور حکومت کے مابین تقریباً تمام معاملات پر آمادگی ہوگئی تھی، مگر عوامی تحریک کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفوں کے مطالبے پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو پارہے اور دھرنے جاری ہیں۔

ویسے تو ذرائع ابلاغ پر دھرنوں سے متعلق پل پل کی رپورٹنگ کی جارہی ہے اور میڈیا اب صرف طاہر القادری اور عمران خان کے سونے جاگنے کھانے پینے کی خبر بریک نہیں کررہا، مگر میڈیا اس نقطے پر بھی روشنی نہیں ڈال رہا کہ دونوں انقلابی سارے مطالبات بالائے طاق رکھ کر دونوں شریف بھائیوں کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر ہی کیوں بضد ہیں؟خیر فی الحال اس نقطے کو چھوڑتے ہیں۔

جو بھی کہیں، دھرنوں کا ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے کے پیچھے کوئی نا کوئی تو خاص وجہ ضرور ہوگی جس کی وجہ سے ان دونوں انقلابی چہروں کو آکسیجن بنا کسی رکاوٹ کے دستیاب ہے۔


مزید پڑھیے: انقلاب کا ترپ پتّہ


جیسا کہ کچھ میڈیا والوں کا یہ بھی کہنا ہے کے یہ صرف دونوں انقلابی لیڈران کی ضد ہے مگر مجھ جیسے جونیئر ترین میڈیا نمائندے کے نزدیک کوئی بھی شخص اتنا ضدی کیسے ہوسکتا ہے کہ ہزاروں لوگوں کو کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کرسکے؟ ہو نا ہو، دھرنے کے لیڈروں کو کسی نا کسی کی جانب سے تو وعدے وفا کرنے کا اشارہ مل رہا ہے۔ اور جیسا کہ اب عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کے لیے اب مشکل ہوتا جارہا ہے کے وہ اپنے ٹائیگرز کو مزید قابو میں رکھ سکیں۔ آخر وہ عمران خان کے ٹائیگرز ہیں۔ کوئی سرکس کے تھوڑی۔

دوسری جانب قادری صاحب بھی اپنے روزمرہ خطاب میں جیالوں کو ڈٹے رہنے کا حکم دے رہے ہیں اور آنے والی عید تک انقلاب آنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ کبھی کرنسی نوٹوں پر گو نواز گو کے نعرے لکھنے کے احکامات دیتے ہیں اور پھر اپنا ہی حکم واپس لے لیتے ہیں۔

میرے نزدیک تو شاید اب یہ دو چہرے، دو دماغ اور ایک سانس کی نالی رکھنے والے انقلابی چاہتے ہیں کہ دھرنوں میں موجود ہزاروں کارکنوں میں سے کچھ کارکن حکومتی رد عمل کے نتیجے میں سانس لینا بند کردیں اور غیر جمہوری طاقتیں ملک کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے مداخلت کریں۔

مگر یہ دونوں انقلابی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو انتخابات کا انعقاد مستقبل قریب میں ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔ جس کے ذریعے ان میں سے ایک انقلابی اپنے آپ کو وزیر اعظم بنتا دیکھ رہا ہے اور دوسرا صدارتی محل میں بیٹھا اپنے مریدوں سے اپنے ہاتھوں پر بوسے کروانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

Read Comments