پاکستان

پی ٹی آئی کے مخالف دھڑے کا اندرونی اصلاحات مہم چلانے کا اعلان

مخالف دھڑے کا اجلاس سابق نائب صدر اور سیکرٹری اطلادات اکبر ایس بابر کی اسلام آباد میں رہائشگاہ میں ہوا۔

اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف میں موجود مخالف دھڑے نے "پارٹی کے اندر اصلاحات کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس کے اندر موجود انتشار اور پارٹی کی تشکیل کے وقت موجود نظریے میں تبدیلی کو روکا جاسکے"۔

مخالف دھڑے کا اجلاس سابق نائب صدر اور سیکرٹری اطلادات اکبر ایس بابر کی اسلام آباد میں رہائشگاہ میں ہوا اور شرکاءمیں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی بھی شامل تھیں۔

اکبر بابر جو 2011 کے آخر تک پارٹی قیادت سے جماعتی فنڈز پر مبینہ کرپشن کے باعث اختلافات سے پہلے عمران خان کے بعد پی ٹی آئی کے نمبر ٹو تھے، کا کہان تھا کہ وہ "اندرونی اصلاحات مہم" کے آغاز کا اعلان آئندہ چند روز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کریں گے۔

ایک وقت میں عمران خان کے بااعتماد ساتھی سمجھے جانے والے اکبر بابر نے الزام لگایا کہ پارٹی قیادت نے انہیں اس لیے ایک کونے میں کردیا کیونکہ انہوں نے پارٹی کے اندر "کرپشن اور بدانتظامی" کا انکشاف کیا، اس موقع پر انہوں نے ایک احتساب کمیشن کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی شفافیت اور احتساب کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں اس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا اور وہ اپنی سمت سے محروم ہوگئی۔

انہوں نے اپنے گروپ کے لیے مخالف دھڑے کی اصطلاح پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے " حقیقی ورکرز اور بانی اراکین ہیں"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اجلاس کا انعقاد ملک بھر میں موجود "پی ٹی آئی کے حقیقی ورکرز اور عہدیداران" کے مطالبے پر ہوا جنھیں لگتا ہے کہ پارٹی اور اس کا نظریہ "کرائے کے سیاستدانوں اور اپنی تشہیر کی خواہشمند مافیا" نے "ہائی جیک" کرلیا ہے، جس نے پارٹی کو تنہا کردیا ہے اور بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔

اکبر بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی میں اختیارات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیئے گئے ہیں جنھوں نے اس کے نظریات کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور وہ اپنے مفادات کے لیے جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا"تسنیم نورانی، احمد اویس اور یعقوب اظہار کی تیار کردہ پی ٹی آئی کی اندرونی انکوائری رپورٹ میں ثابت ہوا تھا کہ پارٹی انتخابات تمام دھاندلی زدہ انتخابات کی ماں تھے، اس کے بعد پارٹی عہدیداران کی جانب سے اپنے عہدوں پر برقرار رہنا جائز نہیں"۔

ایک سوال کے جواب میں اکبر بابر نے کہا کہ عمران خان کو بھی چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پارٹی کے اندر نئے انتخابات کرانے چاہئے۔

ان کے بقول"اس وقت جب پی ٹ یآئی نے گزشتہ برس کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک تحریک شروع کی ہے اور وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کررہی ہے، تو اس سے فرضی قیادت کا عہدے اپنے پاس رکھنا اور کرپشن سے پاک معاشرے کا قیام رکھنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبرد ہوا ہے، مگر ان سنگین الزامات جس کے دستاویزی شواہد بھی موجود ہیں، کسی بھی پی ٹی آئی عہدیدار کو احتساب کے عمل سے نہیں گزارا گیا جنھوں نے انتخابات کے موقع پر پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی "اندرونی تباہی" کو روکا جانا چاہئے کیونکہ یہ جماعت نوجوان نسل کے لیے تبدیلی" کی امید ہے جسے مایوسی میں بدلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اکبر بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سوات سے رکن قومی اسمبلی مسرت احمد زیب نے ہمارے اجلاس میں پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی نمائندگی کی اور ان کا دعویٰ تھا کہ متعدد ایم این اے اور ایم پی اے ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ان کے بقول اجلاس کے شرکاءمیں سابق سیکرٹری جنرل خیبرپختونخواڈاکٹر محمد حفیظ، پارٹی کے بانی رکن خواجہ امتیاز اور ضلع راولپنڈی کے سابق صدر حسن شاہ اور دیگر شریک تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ دیگر متعدد بانی اراکین اور عہدیداران سے بھی رابطہ کررہے ہیں جن کے بارے میں توقع ہے کہ اکبر بابر کی پریس کانفرنس میں موجو ہوں گے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک ترجمان نے کہا کہ اکبر بابر پارٹی امور نہیں چلارہے اور وہ ایسے بیانات سیاسی تنہائی سے باہر نکلنے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دے رہے ہیں۔

پارٹی فنڈز میں کرپشن کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے بینک اکاﺅنٹس کا آڈٹ کرایا تھا۔