خیبرپختونخوا نے ایک سال میں اسی ہزار اسلحہ لائسنس جاری کردیئے
وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس وقت متعدد سینیٹرز کو یہ بتا کر حیران کردیا کہ خیبرپختونخوا نے گزشتہ ایک برس کے دوران ملک بھر میں کارآمد اسی ہزار کے قریب اسلحہ لائسنس جاری کیے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری مختار علی خان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اسلحہ لائسنس جاری رکھنے کا اختیار دیا گیا تھا اور وہ اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا نے اس متعلقہ قانون پر مزید قانون سازی بھی کی ہے۔
مختار علی کان نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کے پی نے 79 ہزار 256 لائسنس جبکہ سندھ نے سترہ ہزار اسلحہ لائسنس جاری کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی عرصے میں پنجاب نے دو ہزار 482 لائسنس جاری کیے جس میں 133 ممنوعہ بور کے اسلحے کے تھے جو نندی پاور پراجیکٹ کے لیے دیئے گئے، بلوچستان میں یہ تعداد 1132 رہی۔
کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود نے کے پی حکومت پر حقائق چھپانے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان نے ممنوعہ بور کے لائسنس بھی جاری کیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ممنوعہ بور کے اسی ہزار کے قریب لائسنس ایک سال میں جاری کرنا خطرناک ہے اور اس کی تحقیقات کی جانی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے تیار کردہ نئی اسلحہ پالیسی رائے کے لیے وزارت قانون کو بھجوا دی گئی ہے، جہاں سے اسے وزیراعظم کو بھجوایا جائے گا اور ممکنہ طور پر کابینہ اجلاس میں اس پر بات ہوگی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پالیسی کے مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیکس چور یا مجرمانہ پس منظر رکھنے والے فرد کو لائسنس جاری نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ صوبون کو اس مجوزہ پالیسی کے تحت غیرممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی اجازت ہوگی، جبکہ ممنوعہ بور کے لائسنس وزیراعظم کی منظوری کے بعد جاری ہوں گے۔
اجلاس کے دوران یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے گیارہ سو سے زائد این او سی جاری کی گئے جبکہ موجودہ حکومت اب تک 138 این او سی جاری کرچکی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ اسی فیصد بلٹ پروف گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں، اس وقت ملک میں آٹھ مقامی کمپنیاں گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کا کام کررہی ہیں اور انہیں اس کے لیے وزارت داخلہ سے این او سی لینا پڑتی ہے۔
تاہم کمیٹی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے کے حوالے سے کوئی مناسب قانون موجود نہیں۔
کمیٹی کو مزید بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں آٹھ ہزار 956 چینی کام کررہے ہین اور ان کے تحفظ پر بارہ ہزار 596 سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔
دیامر بھاشا ڈیم پر کام کرنے والے چینی ورکرز کے لیے حال ہی میں 1530 سیکیورٹی اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا تاکہ سیکیورٹی کو فول پروف بنایا جاسکے۔
اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی (نیکٹا) قائمہ کمیٹی کو پاکستان میں چینی ورکرز کی سیکیورٹی پر ان کیمرہ بریفننگ دے گی۔
کمیٹی کے دو اراکین اعجاز احمد اور فتح محمد حسنی نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی غیرموجودگی پر شدید احتجاج کیا۔
انہوں نے چیئرمین کے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کو وزیر داخلہ کے خلاف کمیٹی کا غیراعلانیہ بائیکاٹ کرنے پر ایکشن لینے کا کہیں۔
طلحہ محمود نے بتایا کہ اس ھوالے سے ایک خط وہ پہلے ہی وزیراعظم کو تحریر کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے کہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس مہینے چھ سے سات بار ہوتا ہے اور وزیر کے لیے ان اجلاسوں میں شرکت کرنا ممکن نہیں۔