Dawn News Television

شائع 15 اکتوبر 2014 01:01pm

بے بی ڈول اور پینا ڈول

ایک زمانہ تھا جب کوئی بھی مزدور میڈیکل اسٹور پر جاتا اور کہتا: شیر کے نشان والی دو گولیاں دے دو تو میڈیکل سٹور والا ایک روپے کے عِوض شیر کے نشان والی پیرسیٹامول کے پتے میں سے دو گولیاں کاٹ کر مزدور کے سُپرد اِس تاکید کے ساتھ کرتا کہ "صِرف گولیاں ہی نہیں کھانیں بلکہ آرام بھی کرنا ہے"۔

روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والا بھولا بھالا مزدور دکان دار کی تاکید ایک کان سے سُنتا اور دوسرے سے نکالتا ہوا دِل ہی دِل میں کہتا: اگر میں آرام کروں گا تو مزدوری تو کرے گا؟

بہرحال غریب مزدور قریبی ڈھابے پر جا کر شیر کے نشان والی دو گولیاں چائے کا ایک کپ اُدھار کرتے ہوئے لیتا اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے چائے کے کڑکتے گھونٹ کے ساتھ نِگل لیتا اور پھر کسی سرمایہ دار کے زیرِ تعمیر محل کے لیے اِینٹیں ڈھونے میں جت جاتا۔

بھلا وقت تھا یقیناً وہ جب مزدوروں کو شیر کے نشان والی دو گولیوں سے آرام آ جایا کرتا تھا اور مزدور کچھ ہی گھنٹوں میں شیر کی مانند توانا ہوجایا کرتے تھے۔

اور پھر نجانے کیوں اِن غریب مسکین مہنگائی کے مارے مزدوروں کے لیے شیر والی گولی آنا بند ہوگئی اور ٹھیکیداروں کے ستائے مزدوروں کو پینا ڈول پر اِنحصار کرنا پڑا۔

جب یہ وقت تھا تو تب نعرے بھی شیر کے ہی لگا کرتے تھے۔ مثلاً

دیکھو دیکھو کون آیا

شیر آیا، شیر آیا

اِک واری فیر

شیر

اس دور میں جس طرف دیکھو شیر کے چاہنے والے ہی دکھائی دیتے تھے۔ میڈیا ہو یا سڑکیں، نائی کی دکان ہو یا قصائی کی، حلوائی کی ہو یا پکوائی کی، کوڑے کا ڈرّم ہو یا پھر سیاستدانوں کے ڈیرے، پپّو لاہوریا ہو یا جُگو سیالکوٹی، ہر طرف شیر ہی چنگھاڑتا اور دھاڑیں مارتا دکھائی دیتا تھا۔

اسی طرح مئی 2013 کے انتخابات میں شیر کے نشان والے پوری طرح چھا گئے۔ شیر کے نشان والوں نے مسائل کے حل کے لیے جتنے بھی وعدے کیے، کام آگئے۔ پورے ملک سے شیر کی جیت کی خبریں آنے لگیں۔ طرح طرح کی مٹھائیاں بانٹیں گئیں۔ نذرانے چڑھائے گئے اور بھاری مینڈیٹ دِلوانے پر نُو منتخب شُدہ وزیر اعظم کی طرف سے شیر کے نشان پر مہر لگانے پر شُکریہ ادا کیا گیا۔

شیر کے نشان والوں نے اقتدار سنبھالتے ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے، پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے، کرپشن کرنے والوں کو سزا دینے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے وعدے کیے۔

لاہور سے کراچی تک موٹر وے کا اعلان کیا گیا۔ بجلی پیدا کرنے کے اتنے منصوبوں کے سنگِ بنیاد رکھے گئے کہ لگنے لگا کہ اگر یہ تمام منصوبے مکمل ہوگئے تو پاکستان بجلی سمندر اور ہوائی راستوں سے برآمد کرسکے گا۔ طالبان کے خلاف شدید پریشر کے باوجود آپریشن تاخیر سے شروع کیا گیا۔

اور پھر ایک سال گزرنے کے بعد لوگوں کو شیر کے نشان والوں کو ووٹ دینے پر پچھتاوا ہونے لگا۔ جن شیر کے نشان والوں نے بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ وہ سب وعدے سمندری جھاگ کی طرح بیٹھنے لگے۔

ایسے میں 2013 کے انتخابات میں بلّے کے نشان والی جماعت نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کردیا۔ پورے ملک سے لوگ اور خصوصی طور پر نوجوان بلّے کے نشان والوں کے ساتھ دھرنے میں شریک ہونے لگے۔

اگست 14 کو شروع ہونے والا بلّے والوں کا کارواں دو روزہ سفرِ مُسلسل کے بعد اسلام آباد پہنچا۔ جس میں روزانہ ہزاروں لوگ شریک ہوکر نئے پاکستان کی تعمیر میں ہاتھ بٹانے لگے۔

کراچی، لاہور، میانوالی اور ملتان کے جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دیکھ کر شیر کے نشان والے کپکپانے لگے۔ بلّے والی جماعت کا سربراہ سرِعام گو نواز گو چنگھاڑنے لگا۔

اب یہ وقت آن پہنچا ہے کہ شیر کے نشان والی گولی کی جگہ پینا ڈول نے لے لی ہے اور بلّے والی جماعت، شیر والی جماعت کو کڑا ٹاکرا دیے ہوئے ہے۔

لوگوں کی بےحد ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے پینا ڈول کمپنی نے پینا ڈول ایکسٹرا بھی متعارف کروا دی ہے۔ کیونکہ کمپنی کو باخوبی اندازہ ہے کہ پاکستانیوں کو افاقہ سادی پینا ڈول سے نہیں ہورہا۔

لہٰذا اب پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کی مشکلات کو سمجھیں اور شیر کے نشان اور بلّے کے نشان میں چناؤ (اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوتے ہیں تو) سوچ سمجھ کر کریں۔

اختتامی اعلانیہ: پاکستان کو لاحق بیماریوں کو دیکھتے ہوئے کسی بھی نشان والی گولی سے افاقہ مشکل دکھائی دیتا ہے اور لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک طویل مُدّتی جمہوری طریقہ علاج کی اشد ضرورت ہے۔

Read Comments