مشرق کی عظمت سمجھا جانے والا پرانا کراچی
مومن عادل
اس تصویری مضمون میں ہم آپ کو 1800 کے آخر اور 1900 کے اوائل کے کراچی میں لے کر جارہے ہیں جہاں آپ دریافت کرسکیں گے کہ کیسے اسے ' مشرق کی عظمت' کا خطاب ملا۔
مرکزی مقامات
میری ویدر میموریل ٹاور 1886 میں ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ کے دوراہے پر تعمیر ہوا جس کا ڈیزائن جیمز اسٹارکن نے بتایا اور اسے اس عہد کے کمشنر کراچی سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔
اس کی تعمیر پر 37 ہزار 178 روپے کا خرچہ آیا جس کی لمبائی 102 فٹ ہے اور اس کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہیں۔
ستارہ داﺅدی بھی اس کے باہری جانب واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
کے پی ٹی بلڈنگ نیٹی جیٹل کے قریب ایم اے جناح روڈ کے آغاز پر تعمیر کی گئی۔
اس عمارت کی تعمیر 1915 میں نو لاکھ 74 ہزار 900 روپے سے مکمل ہوئی اور یہ کے پی ٹی کے دفاتر کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ نیم بیضوی پرانے طرز تعمیر والی عمارت تین منزلہ ہے۔
اس کی نچلی منزل پتھروں کی دیواروں سے تعمیر کی گئی جبکہ اس کے باہر بڑے لنگر نصب کیے گئے، اس کی اوپری دو منزلیں محرابی کھڑکیوں، ستونوں اور چھجوں سے سجی نظر آتی ہیں۔
کے ایم سی بلڈنگ ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے اور اسے کے ایم سی کے دفتر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر 31 دسمبر 1931 میں سترہ لاکھ 75 ہزار روپے میں مکمل ہوئی۔
اس کے باہری دیواروں پر جودھ پور پتھروں کو استعمال کیا گیا جبکہ مقامی گذری پتھر اندرونی تعمیر کے لیے استعمال ہوئے۔ اسے اینگلو مغل انداز میں ڈیزائن کیا گیا اور اس کی شکل انگریزی لفظ E کی طرح ہے جس کے اوپر ایک کلاک ٹاور 162 فٹ تک اونچا ہے۔
فرئیر ہال عبداللہ ہارون روڈ پر واقع ہے جسے سندھ کے کمشنر سر برٹلی فرئیر کے نام سے منسوب کیا گیا اور یہ بطور ٹاﺅن ہال اور عوامی اجلاسوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
اس کی تعمیر 1865 میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے میں مکمل ہوئی اور اس کا ڈیزائن وینس۔ گوتھک انداز کا ہے۔
اس کے ارگرد باغات تفریح گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے جہاں ملکہ وکٹوریہ اور کنگ ایڈورڈ ہشتم کے سنگ مرمر کے مجسمے مارچ 1906 میں متعارف کرائے گئے۔
یہ دونوں کلفٹن کے ساحل کے قریب واقع ہے جس کے لیے زمین کراچی کے ایک ممتاز پارسی رہائشی سر جہانگیر کوٹھاری نے فراہم کی جبکہ تعمیر کے لیے بھی کچھ رقم عطیہ کی۔
اسے ای بی ہورے نے ڈیزائن کیا اور اس کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جارج ایمبروز لوئیڈ نے فروری 1919 میں رکھا اور اس کا افتتاح ان کی اہلیہ لیڈی لوئیڈ نے جنوری 1920 میں کیا جبکہ مارچ 1921 میں لیڈی لوئیڈ نے ہی ملحقہ لوئیڈ پائر کا افتتاح کیا۔
یہ فاطمہ جناح روڈ پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 1898 میں اسی ہزار روپے سے مکمل ہوئی جسے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ نے تعمیر کیا۔ " ہندوستان پر حکمران یورپیوں" کی خواہشات کے مطابق اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت گوتھک کے مقابلے میں زیادہ کلاسیکل ہے۔
رومن محرابیں اور نشاة ثانیہ جیسے انداز کی گزرگاہوں کے ساتھ اس کے چاروں کونوں پر رومن طرز کے چوکور تکونی چھجے ہیں۔ اس اسٹیشن کی ماضی کی عظمت کو حال ہی میں دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔
بازار اور خریداری کے مراکز
بولٹن مارکیٹ کی تعمیر 1883 میں ہوئی اور اسے اس وقت کے میونسپل کمشنر کراچی کرنل سی ایف بولٹن کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ کراچی میں سبزیوں اور پھلوں کی قائم کی جانے والی پہلی مارکیٹ تھی۔
اس کے حجم میں 1886 توسیع کی گئی تاکہ تازہ مچھلی اور گوشت کے اسٹالز کو جگہ مل سکے ۔ اس میں تین صحن، تین ہالز اور متعدد فوارے بھی تھے یہ عمارت چند دہائیوں قبل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی مگر یہ علاقہ اب تک بولٹن مارکیٹ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
یہ ضیاءالدین احمد روڈ پر واقع ہے اور اس کا نام 1867 میں کراچی کے ضلعی مجسٹریٹ کی حیثیت سے کام کرنے والے ڈبلیو آر لمبرٹ کے نام پر رکھا گیا۔ صوبہ سندھ کے گزٹ 1919 کے مطابق یہ منفرد کبوتر خانے کے انداز کی مارکیٹ سندھ کالج (اب ڈی جے سائنس کالج کے نام سے مشہور) کے قریب پانچ شاہراﺅں کے ملنے کے مقام پر واقع تھی۔
یہاں تازہ پھل، سبزیاں، مچھلی، گوشت اور مرغی کا گوشت فروخت کیا جاتا تھا، بدقسمتی سے یہ مارکیٹ دہائیوں قبل گرا دی گئی۔
ایلفائن اسٹون اسٹریٹ کو اب زیب النساءاسٹریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ پرانے کراچی میں خریداری کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں متعدد مہنگے اسٹورز بشمول کیمسٹس (بلیس اینڈ کو)، کپڑوں (کورج اینڈ سنز اور حاجی ابوبکر اینڈ سنز) اور درزیوں (ڈی سوزا اینڈ کو) وغیرہ موجود تھے۔یہ باعث حیرت نہیں کہ اس وقت ایلفائن اسٹون اسٹریٹ کو شہر کی سب سے " فیشن ایبل" گلی تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ وہاں درآمدی اشیاءکی بہتات تھی جن میں کپڑے، پنیر یا کرسمس کارڈز وغیرہ قابل ذکر تھے۔
پریڈی اسٹریٹ پر واقع ایمپریس مارکیٹ کا نام ملکہ وکٹوریہ " ہندوستان کی رانی" پر رکھا گیا۔ اس مارکیٹ کا سنگ بنیاد انیس نومبر 1884 میں رکھا گیا۔
تاہم مالی مشکلات کے باعث اس کی تعمیر اکیس مارچ 1889 میں مکمل ہوئی اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ انڈو گوتھک انداز کی یہ مارکیٹ چار گیلریوں پر مشتمل ہے جس پر 140 فٹ اونچا کلاک ٹاور بھی ہے جس کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہیں۔
یہ تصویری ذخیرہ محمد رضوان کدواوالا کا ہے جو اسپیشل پوسٹ مارکس آف پاکستان 1947-2000 کے مصنف ہیں۔