شائع January 11, 2015

مومن عادل

اس تصویری مضمون میں ہم آپ کو 1800 کے آخر اور 1900 کے اوائل کے کراچی میں لے کر جارہے ہیں جہاں آپ دریافت کرسکیں گے کہ کیسے اسے ' مشرق کی عظمت' کا خطاب ملا۔

مرکزی مقامات

میری ویدر میموریل ٹاور
میری ویدر میموریل ٹاور

میری ویدر میموریل ٹاور 1886 میں ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ کے دوراہے پر تعمیر ہوا جس کا ڈیزائن جیمز اسٹارکن نے بتایا اور اسے اس عہد کے کمشنر کراچی سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔

اس کی تعمیر پر 37 ہزار 178 روپے کا خرچہ آیا جس کی لمبائی 102 فٹ ہے اور اس کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہیں۔

ستارہ داﺅدی بھی اس کے باہری جانب واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

کے پی ٹی بلڈنگ
کے پی ٹی بلڈنگ

کے پی ٹی بلڈنگ نیٹی جیٹل کے قریب ایم اے جناح روڈ کے آغاز پر تعمیر کی گئی۔

اس عمارت کی تعمیر 1915 میں نو لاکھ 74 ہزار 900 روپے سے مکمل ہوئی اور یہ کے پی ٹی کے دفاتر کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ نیم بیضوی پرانے طرز تعمیر والی عمارت تین منزلہ ہے۔

اس کی نچلی منزل پتھروں کی دیواروں سے تعمیر کی گئی جبکہ اس کے باہر بڑے لنگر نصب کیے گئے، اس کی اوپری دو منزلیں محرابی کھڑکیوں، ستونوں اور چھجوں سے سجی نظر آتی ہیں۔

کے ایم سی بلڈنگ
کے ایم سی بلڈنگ

کے ایم سی بلڈنگ ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے اور اسے کے ایم سی کے دفتر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر 31 دسمبر 1931 میں سترہ لاکھ 75 ہزار روپے میں مکمل ہوئی۔

اس کے باہری دیواروں پر جودھ پور پتھروں کو استعمال کیا گیا جبکہ مقامی گذری پتھر اندرونی تعمیر کے لیے استعمال ہوئے۔ اسے اینگلو مغل انداز میں ڈیزائن کیا گیا اور اس کی شکل انگریزی لفظ E کی طرح ہے جس کے اوپر ایک کلاک ٹاور 162 فٹ تک اونچا ہے۔

فرئیر ہال
فرئیر ہال

فرئیر ہال عبداللہ ہارون روڈ پر واقع ہے جسے سندھ کے کمشنر سر برٹلی فرئیر کے نام سے منسوب کیا گیا اور یہ بطور ٹاﺅن ہال اور عوامی اجلاسوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اس کی تعمیر 1865 میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے میں مکمل ہوئی اور اس کا ڈیزائن وینس۔ گوتھک انداز کا ہے۔

اس کے ارگرد باغات تفریح گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے جہاں ملکہ وکٹوریہ اور کنگ ایڈورڈ ہشتم کے سنگ مرمر کے مجسمے مارچ 1906 میں متعارف کرائے گئے۔

جہانگیر کوٹھاری پریڈ اور پویلین
جہانگیر کوٹھاری پریڈ اور پویلین

یہ دونوں کلفٹن کے ساحل کے قریب واقع ہے جس کے لیے زمین کراچی کے ایک ممتاز پارسی رہائشی سر جہانگیر کوٹھاری نے فراہم کی جبکہ تعمیر کے لیے بھی کچھ رقم عطیہ کی۔

اسے ای بی ہورے نے ڈیزائن کیا اور اس کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جارج ایمبروز لوئیڈ نے فروری 1919 میں رکھا اور اس کا افتتاح ان کی اہلیہ لیڈی لوئیڈ نے جنوری 1920 میں کیا جبکہ مارچ 1921 میں لیڈی لوئیڈ نے ہی ملحقہ لوئیڈ پائر کا افتتاح کیا۔

کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن
کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن

یہ فاطمہ جناح روڈ پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 1898 میں اسی ہزار روپے سے مکمل ہوئی جسے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ نے تعمیر کیا۔ " ہندوستان پر حکمران یورپیوں" کی خواہشات کے مطابق اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت گوتھک کے مقابلے میں زیادہ کلاسیکل ہے۔

رومن محرابیں اور نشاة ثانیہ جیسے انداز کی گزرگاہوں کے ساتھ اس کے چاروں کونوں پر رومن طرز کے چوکور تکونی چھجے ہیں۔ اس اسٹیشن کی ماضی کی عظمت کو حال ہی میں دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔

بازار اور خریداری کے مراکز

بولٹن مارکیٹ
بولٹن مارکیٹ

بولٹن مارکیٹ کی تعمیر 1883 میں ہوئی اور اسے اس وقت کے میونسپل کمشنر کراچی کرنل سی ایف بولٹن کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ کراچی میں سبزیوں اور پھلوں کی قائم کی جانے والی پہلی مارکیٹ تھی۔

اس کے حجم میں 1886 توسیع کی گئی تاکہ تازہ مچھلی اور گوشت کے اسٹالز کو جگہ مل سکے ۔ اس میں تین صحن، تین ہالز اور متعدد فوارے بھی تھے یہ عمارت چند دہائیوں قبل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی مگر یہ علاقہ اب تک بولٹن مارکیٹ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔

لمبرٹ مارکیٹ
لمبرٹ مارکیٹ

یہ ضیاءالدین احمد روڈ پر واقع ہے اور اس کا نام 1867 میں کراچی کے ضلعی مجسٹریٹ کی حیثیت سے کام کرنے والے ڈبلیو آر لمبرٹ کے نام پر رکھا گیا۔ صوبہ سندھ کے گزٹ 1919 کے مطابق یہ منفرد کبوتر خانے کے انداز کی مارکیٹ سندھ کالج (اب ڈی جے سائنس کالج کے نام سے مشہور) کے قریب پانچ شاہراﺅں کے ملنے کے مقام پر واقع تھی۔

یہاں تازہ پھل، سبزیاں، مچھلی، گوشت اور مرغی کا گوشت فروخت کیا جاتا تھا، بدقسمتی سے یہ مارکیٹ دہائیوں قبل گرا دی گئی۔

ایلفائن اسٹون اسٹریٹ
ایلفائن اسٹون اسٹریٹ

ایلفائن اسٹون اسٹریٹ کو اب زیب النساءاسٹریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ پرانے کراچی میں خریداری کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں متعدد مہنگے اسٹورز بشمول کیمسٹس (بلیس اینڈ کو)، کپڑوں (کورج اینڈ سنز اور حاجی ابوبکر اینڈ سنز) اور درزیوں (ڈی سوزا اینڈ کو) وغیرہ موجود تھے۔یہ باعث حیرت نہیں کہ اس وقت ایلفائن اسٹون اسٹریٹ کو شہر کی سب سے " فیشن ایبل" گلی تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ وہاں درآمدی اشیاءکی بہتات تھی جن میں کپڑے، پنیر یا کرسمس کارڈز وغیرہ قابل ذکر تھے۔

ایمپریس مارکیٹ
ایمپریس مارکیٹ

پریڈی اسٹریٹ پر واقع ایمپریس مارکیٹ کا نام ملکہ وکٹوریہ " ہندوستان کی رانی" پر رکھا گیا۔ اس مارکیٹ کا سنگ بنیاد انیس نومبر 1884 میں رکھا گیا۔

تاہم مالی مشکلات کے باعث اس کی تعمیر اکیس مارچ 1889 میں مکمل ہوئی اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ انڈو گوتھک انداز کی یہ مارکیٹ چار گیلریوں پر مشتمل ہے جس پر 140 فٹ اونچا کلاک ٹاور بھی ہے جس کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہیں۔


یہ تصویری ذخیرہ محمد رضوان کدواوالا کا ہے جو اسپیشل پوسٹ مارکس آف پاکستان 1947-2000 کے مصنف ہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Mohammad Tahir Tungekar Jan 11, 2015 08:53pm
Thank you for this treasure of photos of my birth place Hope to see many more such treasures Mohammad Tahir Tungekar
rehan iftikhar hussain Jan 12, 2015 11:40am
what a fine collection and information this should be added in course so the student know about our city karachi if it posible i want to meet muhammad rizwan kudwala sahab to make a documentary with the help of all meterial they have and on air in tv channels and educational institutes ,waiting reply rehan
abdul majeed qureshi Jan 12, 2015 11:58pm
it is a good article with old pics , Ilike it very much and hoped that you will continue this and provide useful and interesting information with pics, .
Umair Jan 13, 2015 01:39pm
Classical Pictures. Thanks DAWN news
nisarchowdhari Jan 13, 2015 05:27pm
Thank you for uploading my childhood memories of 1950s, those were the days, when some of the roads were cleaned with water and the groom used to go in the evening in the lights of big lanterns which were carried on head by the servants or the people working for the shop from where it was rented and I remember that we used to grab coins which were thrown over the Groom during the Barat processions, and Karachi was so clean at that time. Very rightly said by the poet Guzra Hua Zamana Aata Nahi Dobara Hafiz Khuda Tumhara O GOD Bless Karachi with the peace and tranquility it deserves (Rabanna Taqabbal Duaa)