Dawn News Television

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2015 06:47pm

وزیراعظم کی اپنے ' وزراء' کو بچانے کی حکمت عملی

اسلام آباد: موجودہ پیٹرول بحران کے تناظر میں وزارت پیٹرولیم کے اعلیٰ حکام کو برطرف کرنے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر سے 'بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن' کی پوچھ گچھ کا حکم دے کر وزیراعظم نواز شریف اپنے وزراء کو شرمندگی سے بچانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں، تاہم اس طرح انھوں نے وفاقی بیوروکریسی کو بالکل تنہا کردیا ہے، جس پر مسلم لیگ (ن) کا حد سے زیادہ انحصار تھا۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کم از کم دو حاضر سروس سیکریٹریز نے وزیراعظم سے اپنی تبادلے کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے وزراء کے گناہوں کی سزا انھیں دی جائے۔

دوسری جانب ایسے بیوروکریٹس جن کی پوسٹنگ دوسرے اور تیسرے درجے کی سطح پر ہے، انھوں نے بھی ایسے محکموں میں کام کی تلاش شروع کردی ہے، جہاں انھیں زیادہ مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ کسی بڑی مشکل میں نہ پڑیں۔

پیٹرول بحران کے جھٹکے تین اہم وزارتوں میں محسوس کیے گئے: منصوبہ بندی و ترقی، پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور پانی و بجلی اور اتفاقی طور پر ان محکموں میں کام کرنے والے افسران کے لیے صورتحال مزید چیلنجنگ ہوگئی کیونکہ انھوں نے آنے والے حالیہ مہینوں میں اہم اور مشکل اہداف حاصل کرنے ہیں۔

وزارت پانی و بجلی میں حکومت نے رواں برس موسم گرما تک نیشنل گرڈ لائن میں 3 ہزار میگا واٹ بجلی شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم ہدف کو مقررہ وقت تک پورا کرنے میں ناکامی کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو بدترین لود شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک سرکاری افسر کے مطابق ان منصوبوں کی ناکامی کے بعد مستقبل میں قربانی کا بکرا بننے سے بچنے کے لیے بہت سے بیوروکریٹس ایسے محکموں میں جانے کی کوشش کررہے ہیں جہاں انھیں ناکامی کا ذمہ دار نہ ٹہرایا جا سکے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما ہونے کی حیثیت سے وزارت پانی و بجلی کے وزیر خواہ آصف کو تو کوئی بھی، حتیٰ کہ وزیراعظم بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ذرائع کے مطابق خواجہ آصف مختصر مدت کے رینٹل پاور منصوبوں کو موسم گرما تک مکمل کرانا چاہتے ہیں اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے رینٹل پاور منصوبہ پیش کیا تو اس وقت خواجہ آصف اس مسئلے پر اپوزیشن کی سربراہی کررہے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اس منصوبے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اور فیصلہ ان کے حق میں آیا تھا۔

دوسری جانب وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے افسران کو بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے جہاں انھیں فوری طور پر لکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کو مناسب ریٹس پر قطر سے درآمد کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے اور اس کے لیے 31 مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تاکہ عوام کو رعایتی نرخوں پر ایندھن کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک افسر کے مطابق اگر وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی ذمہ داری کو دوسروں پر ڈالا جا سکتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے جبکہ پیٹرول بحران کے ذمہ دار وزراء کو قصوروار ٹہرایا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں:'پیٹرول بحران کے جوابدہ اسحاق ڈار'

دوسری جانب وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں پلاننگ کمیشن کو بھی پاک ۔ چائنا اکنامک کوریڈور کے مثبت نتائج حاصل کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے، لیکن اس منصوبے کو بھی فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت اس کوریڈور کے پس منظر میں بہت سے منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے اور اس بات کے امکانات ہیں کہ فنڈز کی کمی کے باعث حکومت کراچی، ملتان، لاہور موٹروے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے اکتوبر 2017 کی ڈیڈ لائن حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

ایک اوراعلیٰ افسر کے مطابق یہ ایک کھلا راز ہے کہ پیڑول بحران حکومت کی بد انتظامی کے باعث پیدا ہوا، جس نے خالی ہوتے ہوئے پیرول پمپس کو فیول کی فراہمی نہی کی۔

مذکورہ افسر نے سوال کیا کہ جیسا کہ پی ایس او کی جانب سے ادائیگیوں کا نہ ہونا ہی مسئلے کی جڑ تھا اور پیٹرول بحران کو کابینہ اجلاسوں میں بھی وقتاً فوقتاً اجاگر کیا جاتا رہاتھا تو اس بحران کا ذمہ دار صرف ایم ڈی پی ایس او اور وزرات پیٹرولیم کے افسران ہی کیوں ہیں؟

انھوں نے کہا کہ تینوں وزراء شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار اور خواجہ آصف انرجی کمیٹی کے اہم رکن ہیں اور ملک میں پیٹرول کی فراہمی میں پیدا ہونے والے تعطل کے مساوی ذمہ دار ہیں۔

تاہم حکومتی اقدامات سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ وزراء کا اپنے افسران پر کوئی عمل دخل نہیں ہے، دوسری جانب یہ ذمہ داری سیاسی سطح پر بھی عائد کی جانی چاہے۔

Read Comments