الیکشن ٹربیونلز کی مدت میں مزید توسیع کا امکان
اسلام آباد : سست روی سے کارروائی آگے بڑھانے والے الیکشن ٹربیونلز کی توسیع شدہ مدت 28 فروری کو ختم ہورہی ہے اور چالیس مقدمات تاحال زیرالتواءہیں جس کے پیش نظر ان کی مدت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
الیکشن ٹربیونلز نے تین جون 2013 کو کام کرنا شروع کیا تھا اور ابتدائی طور پر انہیں ایک سال کے لیے قائم کیا تھا حالانکہ موجودہ قانون کے مطابق ان ٹربیونلز کو مقدمات کا فیصلہ 120 روز کے اندر کرنا ہوتا ہے۔
ایک سالہ مدت میں چار سو سے زائد مقدمات میں سے بیشتر کا فیصلہ نہ پانے پر ان کی مدت میں 31 دسمبر 2014 تک توسیع کردی گئی۔
اس کے بعد پھر دو ماہ کے لیے ٹربیونلز کی مدت میں توسیع کی گئی جو کہ رواں ماہ ختم ہورہی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیس ماہ سے قائم ٹربیونلز میں اب بھی چالیس سے زائد مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں اور ان کی مدت میں مزید توسیع ضروری ہے۔
اس بار یہ ای سی پی کے لیے ٹربیونلز کی مدت میں توسیع کا تعین کرنا چیلنج ہوگا کیونکہ اسے پہلے ہی مدت میں کئی بار توسیع دینے پر تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا خان سے حالیہ ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے دستخط کے ساتھ ایک خط ٹربیونلز کو تحریر کیا گیا تھا مگر اس میں مقدمات کا فیصلہ ایک سو بیس روز تک کرنے اورتاخیری حربے اختیار کرنے والے اراکین اسمبلیوں کی رکنیت معطل کرنے کے اختیار کا ہی ذکر تھا۔
اس خط میں ٹربیونلز سے کسی قسم کی رپورٹ کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی قانون کی خلاف ورزی پر انتباہ کیا گیا جس کے تحت ٹربیونلز کو کسی مقدمے کی سماعت تین روز سے زائد مدت تک ملتوی کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔
ٹربیونلز کی کارروائی کی رفتار ابتداءسے ہی بہت سست رہی اور اولین چار ماہ میں ملک بھر میں قائم کیے گئے چودہ ٹربیونلز میں ایک بھی مبینہ انتخابی دھاندلی کے کسی ایک مقدمے کا فیصلہ بھی نہیں کرسکا۔
موجودہ قانون کے تحت ٹربیونلز کو مقدمات کا فیصلہ چار ماہ کے اندر کرنا لازمی ہے مگر ایسا ملکی انتخابی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
اس بار توقع تھی کہ مقدمات کا فیصلہ طے کردہ مدت میں ہوگا کیونکہ ٹربیونلز ریٹائرڈ ججز پر مشتمل تھے جو کہ مقدمات کی سماعت بغیر کسی عدالتی مصروفیات کے روزانہ کی بنیاد پر کرسکتے تھے۔
ان ریٹائرڈ ججز کو گزشتہ بیس ماہ کے دوران گریڈ اکیس کے افسر کے بنیادی پے اسکیل کے مطابق تنخواہیں ادا کی گئیں اور وہ اس بات سے واقف تھے موجودہ قانون کے خلاف کام کرنے پر قوانین میں ٹربیونلز کے لیے کوئی خاص سزا موجود نہیں۔