پاکستان

سینیٹ انتخابات : پی پی پی اور ن لیگ کی مساوی نمائندگی کا امکان

نواز لیگ کا سینیٹ میں برتری کا امکان نظر نہیں آتا تاہم وہ آئندہ 3 برس کے لیے اہم سیاسی کھلاڑی بننے کے لیے ضرور تیار ہے۔

اسلام آباد : آئندہ ماہ سینیٹ کے انتخابات کے بعد ایوان میں نئی جماعتوں کی آمد اور ممکنہ اتحاد وغیرہ بڑی جماعتوں کی مساوی کامیابی کے امکانات بڑھا دیئے ہیں۔

قومی اسمبلی سمیت پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریتی نشستوں کے حصول کے باوجود مسلم لیگ نواز کا سینیٹ میں برتری کا امکان نظر نہیں آتا تاہم وہ آئندہ تین برس کے لیے اہم سیاسی کھلاڑی بننے کے لیے ضرور تیار ہے۔

اکثریت سے محرومی کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ایوان بالا میں اہم کھلاڑی کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔

اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر پی پی پی کی قیادت نے اپنے سیاسی کارڈز ذہانت سے استعمال کیے تو چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے اہم عہدے اسی کے پاس برقرار رہیں۔

حکمران مسلم لیگ نواز کی جانب سے توقع ہے کہ وہ پنجاب سے کلین سوئپ کرتے ہوئے تمام گیارہ نشستوں میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے جن میں خواتین اور ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص نشستیں بھی شامل ہیں۔

اگرچہ ن لیگ کی جانب سے دیگر صوبوں سے تعلق رکھےن والے امیدواروں کو ' متنازع ٹکٹیں' دی گئی ہیں مگر توقع ہے کہ وہ اسلام آباد ایک جنرل اور ایک خواتین کی سیٹ پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے کیونکہ اسے قومی اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ن کے سولہ سینیٹرز ہیں جن میں سے آٹھ مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں اور پارٹی کو توقع ہے کہ وہ سترہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ایوان بالا میں اپنی تعداد 25 تک پہنچا دے گی۔

عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف سینیٹ میں پہلی بار نمائندگی حاصل کرکے تاریخ رقم کرے گی تاہم اب بھی پارٹی کے اس فیصلے پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وہ سینیٹ انتخابات میں صرف خیبرپختونخوا سے شرکت کرے گی جبکہ دیگر صوبوں میں اس کا بائیکاٹ کرے گی۔

ذرائع کے مطابق کے پی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی دیگر تمام جماعتوں سے مذاکرات میں مصروف ہے جن میں اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہیں تاکہ متفقہ امیدواروں کو سامنے لایا جاسکے جو کہ سیاسی مصالحت کی قابل قدر کوشش ہے۔

پی ٹی آئی کو اس مقصد کے لیے ایک یا دو نشستوں کی قربانی دینا پڑسکتی ہے تاکہ متفقہ امیدواروں کو سامنے لایا جاسکے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک کی موجودگی کی رپورٹس کے باعث مشکل کا سامنا ہے۔

جماعت اسلامی 2012 سے سینیٹ سے باہر ہے جس کی وجہ 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کا فیصلہ بنا تھا اور اب توقع ہے کہ اس کی واپسی ہوگی۔

جماعت کے سنیئر رہنماءپروفیسر محمد ابراہیم نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک فارمولے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت اسے صرف ایک جنرل نشست ہی مل سکے گی، جبکہ وہ خواتین، ٹیکنوکریٹس اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں پر پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی کے پاس بھی سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرن کا موقع ہے مگر اس کا انحصار کے پی میں سرگرم جماعتوں کے درمیان بات چیت پر ہے۔

صوبے سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایک سنیئر رہنماءکے مطابق پی پی پی، قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ اور عوامی جمہوری اتحاد ایک فارمولے پر کام کررہے ہیں تاکہ ہر ایک کو کے پی سے ایک نشست مل سکے۔

رہنماءکا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی اس فارمولے پر اتفاق کیا جاسکتا ہے اور وہ ایک یا دو نشستوں کی قربانی دے سکتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت پارٹی کے اندر اختلافات کے باعث اپنے امیدواروں کی ممکنہ شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

پی پی پی رہنماءکا کہنا تھا کہ دیگر جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات کے لیے درکار ڈیلنگ کے حوالے سے زیادہ ہوشیار نظر نہیں آتی۔

تما اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر لگائے گئے ایک محتاط تخمینے کے مطابق اگر تمام اراکین اپنی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالیں تو توقع ہے کہ پی پی پی اور نواز لیگ سینیٹ میں لگ بھگ مساوی نمائندگی حاصل کرلیں گے۔

پی پی پی اور ایم کیو ایم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پیپلزپارٹی کو سندھ سے سات جبکہ متحدہ کو چار نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔

اس حوالے سے پی پی پی اپنی ایک سیٹ کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے تاکہ ایم کیو ایم کو مطمئن کرسکے جس کے ساتھ اس کے تعلقات کراچی آپریشن اور مقامی بلدیاتی نظام کے معاملات پر متاثر ہوئے ہیں۔

اگر یہ فارمولا کام کرسکا تو ایم کیو ایم سینیٹ میں آٹھ اراکین کے ساتھ زیادہ مضبوطی حاصل کرلے گی۔

اے این پی کے بارے میں توقع ہے کہ وہ سینیٹ میں اپنی پوزیشن سے محروم ہوجائے گی، اس وقت اس جماعت کے بارہ سینیٹرز ہیں جن میں سے چھ آئندہ ماہ ریٹائر ہوجائیں گے اور چونکہ کے پی اسمبلی میں اس کے پانچ اور بلوچستان اسمبلی میں ایک ہی رکن ہے، اس لیے توقع نہیں کہ وہ کوئی نشست جیتنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ماسوائے اس صورت میں جب کے کے پی میں اس کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ڈیل نہیں ہوجاتی۔

مولانا فضل الرحمان کی جماعت ایوان بالا میں اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی۔

اس جماعت کے چھ سینیٹرز میں سے تین مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی پوزیشن دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ وہ تین نشستیں حاصل کرلے گی۔

نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے علاوہ جو جماعتیں سینیٹ میں مضبوط بن کر ابھریں گی وہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی ہیں۔

بلوچستان میں نواز لیگ کی یہ دونوں اتحادی قوم پرست جماعتیں توقع ہے کہ تین، تین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گی۔

تاہم بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کے نتائج کی پیشگوئی کرنا مشکل کام ہے جس کی وجہ صوبے کی پیچیدہ اور کثیر الجہتی سیاست ہے اور وہاں آزاد امیدواروں کی بھی کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں جس کی وجہ ان کا ذاتی اثررسوخ یا ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔

اسی طرح فاٹا کی نشستوں پر بھی ہمیشہ سوالات سامنے آتے ہیں اور لگ بھگ پوری قوم کو ہر بار ووٹوں کی خرید و فروخت کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔

فاٹا سے چار سینیٹرز کے انتخاب کے لیے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بارہ اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تاہم وہاں کی صورتحال پرجوش امیدواروں کے لیے کافی موذون ہوتی ہے۔

فاٹا کی نشستوں پر ڈیلنگ کا سلسلہ پولنگ کے وقت بھی جاری رہتا ہے اور اب بھی بڑی تعداد میں امیدواروں نے قبائلی علاقہ جات سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور چار نشستوں کے لیے 43 افراد کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف ایک امیدوار کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ باقی آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

سینیٹ 104 اراکین پر مشتمل ایوان ہے جس میں چاروں صوبوں سے 23، فاٹا سے آٹھ اور اسلام آباد سے چار امیدوار منتخب ہوکر آتے ہیں۔

صوبوں کی 23 نشستیں چودہ جنرل، چار خواتین، چار ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہوتی ہے۔

ایک سینیٹر کی رکنیت کا دورانیہ چھ برس ہوتا ہے تاہم ہر تین سال بعد پچاس فیصد اراکین ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئے سینیٹرز کا انتخاب ہوتا ہے۔

سینیٹ کے نئے منتخب ہونے والے اراکین کے لیے بارہ مارچ تک حلف لینا ضروری ہوگا۔