Dawn News Television

شائع 28 فروری 2015 05:21am

سابق چیف جسٹس کے ایندھن کا خرچہ حکومت اٹھانے پر مجبور

اسلام آباد : حکومت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی چھ ہزار سی سی بلٹ پروف گاڑی کے ایندھن اور مرمت کے اخراجات کا خرچہ خود اٹھا رہی ہے۔

یہ بات جمعے کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران وزارت قانون کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں سامنے آئی۔

وزارت نے ایوان کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس اس سہولت کو اپنے استحقاق کے طور پر استعمال کررہے ہیں جس کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ نے پندرہ جنوری 2014 کو دیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاچکی ہے اور وہ زیرالتوا ہے جبکہ اس کی جلدسماعت کے لیے بھی ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی ہے۔

ایوان کو تحریر جواب میں بتایا گیا ہے کہ تیس جنوری 2014 سے اب تک سابق چیف جسٹس کی مرسڈیز بینز میں 4689 لیٹر پٹرول استعمال کیا جاچکا ہے۔

اسی طرح مرمت کے اخراجات کا تخمینہ 33 لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے جسے لاءڈویژن کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور فنانس ڈویژن سے خصوصی گرانٹ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

اس تحریری جواب میں ایوان کو بتایا گیا " سپریم کورٹ کے ایک ریٹائر چیف جسٹس کی کم از کم پنشن اس کی تنخواہ کے ستر فیصد کے برابر ہوتی ہے جس کا تعین صدر مملکت سپریم کورٹ جج آرڈر 1997 کے تحت مختلف اوقات میں کرتے رہتے ہیں تاہم کسی چیف جسٹس یا جج کی پنشن اس کو دی جانے والی تنخواہ کے 85 فیصد حصے سے زیادہ نہیں ہوسکتی"۔

اسی طرح سابق چیف جسٹس کو ایک ڈرائیور، ایک اردی، ماہانہ تین سو لوکل کالز، دو ہزار یونٹ بجلی، 25 ایم یم گیس اور پانی کی مفت فراہمی کا استحقاق بھی حاصل ہوتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رکن سعید غنی کی جانب کیے گئے سوالات میں 1985 سے اب تک ریٹائر ہونے والے ججز کے نام اور تاریخوں کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا مگر وزیر قانون پرویز رشید نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ یہ معلومات لائ، جسٹس اور ہیومین رائٹس ڈویژن میں دستیاب نہیں۔

تاہم سپریم کورٹ رجسٹرار کو پانچ مئی 2014 کو ایک خط ارسال کرکے یہ معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی، جس کے بعد پانچ بار یاد دہانی بھی کرائی گئی مگر اب تک جواب کا انتظار ہے۔

انہوں نے 1985 سے اب تک ریٹائر ہونے والے چیف جسٹسز کی فہرست فراہم کی جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کیا گیا۔

تاہم اس سوالات کو چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے وزیر قانون کو طلب کرتے ہوئے منگل تک التواءمیں ڈال دیا تاکہ وفاقی وزیر سے پارلیمنٹ کے لیے معلومات کے حصول اور اعلیٰ عدلیہ کے رجسٹرار کے انکار پر ان کا ردعمل جانا جاسکے۔

چیئرمین سینیٹ نے وزیر مملکت پارلیمانی امور آفتاب شیخ سے کہا جو وزیر قانون کی جانب سے جواب دینا چاہتے تھے" کیا آپ نے آئین کا آرٹیکل 19-A کو پڑھا ہے"۔

چیئرمین کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل کے تحت یہ وزیر کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اطلاعات فراہم کرے " آخر کوئی اسے فراہم کرنے سے کیسے انکار کرسکتا ہے"۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا " کون بنیادی حقوق پر عملدرآمد کا پابندی ہے، پارلیمنٹ کو مطلوب معلومات کیون نہیں فراہم کی جارہی، آخر ہم کب تک اس خاموشی کو برقرار رکھیں"۔

بعد ازاں انہوں نے یہ سوال منگل تک التواءمیں ڈال دیا۔

Read Comments