Dawn News Television

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2015 07:15pm

ٹرینوں کو رواں رکھنے والے پرعزم افراد

ریل کی زندگی کا اپنا رومان کا رنگ بھرا ہوا ہے اور صدیوں سے مصنفین جیسے اگاتھا کرسٹی، ارنسٹ ہمینگوے اور دیگر اپنے قارئین کے تصورات کو ریل کے سفر کو بیان کرکے گرفت میں لیتے آرہے ہیں مگر یہ کافی عرصے پہلے کی بات ہے جب ٹرین کا سفر میں ایک نیا پن تھا اور ٹرینوں کو مناسب طریقے سے چلانا اور بروقت پہنچانے کو یقینی بنانا کافی محنت طلب کام تھا۔

اس وقت جب دنیا بھر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم خودکار ہوچکا ہے پاکستان دنیا کے ان آخری مقامات میں س ایک ہے جہاں ریلوے تاحال انسانوں کے بغیر چل نہیں سکتا۔

درحقیقت پاکستان ریلوے کے پاس ٹیلیگراف کے بیشتر آلات برطانوی راج کے زمانے کے ہیں اور زمانہ قدیم کے بڑے بڑے ٹیلیفونز تاحال ایک سے دوسرے ریلوے کیبنوں اور سوئچ آپریٹرز کے درمیان رابطے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو ٹرینوں کو ان کی منزل کی جانب گامزن رکھتے ہیں یعنی ٹرین کے سفر کا انحصار ہی انسانی ہدایات یا مینوئل انسٹرکشنز پر ہے۔

ہر ریلوے لائن کراسنگ پر پوائنٹس بنے ہوئے ہیں جہاں سے ہاتھوں کے ذریعے پٹریوں کو سوئچ کیا جاتا ہے اور معمولی سی غلطی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان ریلوے کے مرد و خواتین اس نظام کو چلاتے رہنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں، مختلف کام جیسے ایک انجن کی ڈرائیونگ یا کیبنوں میں موجود افرادی قوت کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے اور انہیں اس کا کوئی صلہ بھی نہیں ملتا مگر مخلص ورکرز جیسے عنایت رحمان، سلطان احمد اور فضل داد وغیرہ کی مہربانی سے پاکستان کا خستہ حال ریلوے نظام دوڑتا رہتا ہے۔

Read Comments