Dawn News Television

شائع 05 اپريل 2015 01:51pm

گیارہ کھلاڑی، گیارہ کپتان

ایک عجیب افراتفری مچی ہوئی ہے: اسے کپتان بنا دو، اسے کپتان نہیں بناؤ، اسے کپتان کیوں بنایا اور اس کو کیوں نہیں۔ کچھ ایسے ہی سوالات ہیں جو چند دنوں سے پاکستانی میڈیا میں زیر بحث ہیں اور اہلیت سے قطع نظر ہر شخص اپنے تئیں بے لاگ تبصرے کرنے میں مصروف عمل ہے۔

مصباح الحق کی ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد نئے کپتان کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں اور ہر شخص اپنی حیثیت میں ایک کپتان تجویز کر رہا تھا۔ کسی نے وہاب ریاض کا نام دیا تو کسی نے سرفراز کا۔ ایک موقع پر تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ٹیم میں موجود ہر کھلاڑی ہی قومی ٹیم کی قیادت کا اہل ہے۔

اور پھر ادھر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اظہر علی کو کپتان بنانے کا اعلان کیا اور ادھر سابق کھلاڑیوں سمیت تمام ہی تبصرہ نگاروں کو تنقید کے لیے جیسے ایک موضوع مل گیا (کیونکہ ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد انہیں اپنی روزی روٹی کھٹائی میں پڑتی نظر آرہی تھی) اور بارودی تجزیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

جو سلسلہ گذشتہ کچھ سالوں سے مصباح الحق کے خلاف جاری تھا، اس کڑی کو وہیں سے جوڑتے ہوئے کچھ ملے جلے تبصرے کیے جانے لگے۔ دس چینلوں پر بیسیوں تجزیہ نگار خود کو سلیکشن کمیٹی کا رکن سمجھتے ہوئے نئے کپتان پر تنقید اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو کپتان بنانے کے مشورے دے رہے تھے۔

پڑھیے: دو متضاد کپتان

اگر غور کیا جائے تو اس سلسلے میں میڈیا کی نظر میں سب سے مضبوط امیدوار وہاب ریاض اور سرفراز احمد تھے۔ کیوں اور کس لیے، اس کا جواب یقیناً کسی کے بھی پاس نہیں سوائے اس کے کہ وہ حالیہ کچھ عرصے میں اچھی کارکردگی دکھا کر میڈیا اور عوام کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے۔

آخر ہم کب تک محض ایک یا دو پرفارمنسز کی بنیاد پر لوگوں کو آسمان پر بٹھانے اور پھر ایک خراب کارکردگی پر اسے زیرو بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟

اظہر کو ٹیم کا قائد بنانے کے فیصلے پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہو رہی ہے کہ وہ اب تک صرف 14 ایک روزہ میچ ہی کھیل پائے ہیں اور آخری ایک روزہ میچ انہوں نے جنوری 2013 میں روایتی حریف ہندوستان کے خلاف کھیلا تھا۔

یہ تنقید بالکل بجا ہے لیکن اس بنیاد پر کسی کھلاڑی کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردینا سراسر ناانصافی ہے وہ بھی خصوصاً ایک ایسے کھلاڑی کے خلاف جو سوائے ایک آدھ مرحلوں کے نہ صرف گزشتہ چار سے پانچ سال سے ٹیسٹ ٹیم کا مستقل حصہ ہے، بلکہ اپنی کارکردگی سے خود کو منواتا بھی رہا ہے۔

قومی ایک روزہ ٹیم کے نئے کپتان 39 ٹیسٹ میچوں میں 7 سنچریوں اور 18 نصف سنچریوں کی مدد سے 41.31 کی اوسط سے 2851 رنز بنا چکے ہیں۔

حقیقت پسندانہ تو یہ تھی کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ چار سالوں کے دوران ہم نے ماضی کی درخشاں مثالوں پر کاربند رہتے ہوئے مصباح الحق کا کوئی پیشرو تیار کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، تو پھر اتنا واویلا کیوں۔

جانیے: رمیز کا وہاب کو کپتان بنانے کا مشورہ

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ایک سے ڈیڑھ سالوں میں سوائے مصباح، آفریدی، عرفان اور اجمل (پابندی سے قبل) کے کوئی بھی کھلاڑی ایسا نہیں جو مستقل طور پر قومی ٹیم کا حصہ رہا ہو۔ احمد شہزاد اور محمد حفیظ بھی کسی حد تک اس فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن دونوں اپنی غیر مستقل مزاجی سے اس منصب کے لیے خود کو نااہل ثابت کر چکے ہیں۔

ہمیں یہ بات مان ہی لینی چاہیے کہ ہمارے پاس قیادت کے لیے کوئی کھلاڑی دستیاب نہیں اور جب کوئی آپشن نہ رہے تو چاہے وہاب، ہو، سرفراز ہو، یا اظہر علی، شکست کا خطرہ تو ہر صورت ہی موجود رہے گا اور ساتھ ساتھ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اظہر کے علاوہ کسی کو قیادت سونپنا ایک درست فیصلہ ہو گا؟ ایک سال پہلے تک اظہر تو دور سرفراز اور وہاب بھی پاکستانی ٹیم کا حصہ نہیں تھے تو تجربے اور اہلیت دونوں کو مدنظر رکھا جائے تو شاید قیادت کے لیے اہل ترین شخص کسی اور ملک یا سیارے سے ہی درآمد کرنا پڑے۔

جہاں تک بات ہے اظہر کے صرف 14 ایک روزہ میچ کھیلنے کی تو ہمارے سامنے آسٹریلیا کے جارج بیلی اور جنوبی افریقہ کے گریم اسمتھ کی مثالیں موجود ہیں۔

جارج بیلی کی مثال اس لحاظ سے زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے کہ انہیں چند سال قبل ہی آسٹریلین ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی ذمے داری سونپی گئی تھی جبکہ انہوں نے اس وقت تک آسٹریلیا کی جانب سے ایک بھی ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں کھیلا تھا۔

مزید پڑھیے: نئے کپتان کے بارے میں عام آدمی کے خیالات

دراصل بحیثیت قوم ہمیں تنقید برائے تنقید کی عادت سی ہو گئی ہے۔ جہاں دوسرے ممالک کے لوگ اور میڈیا اپنے کھلاڑیوں کی عزت و تکریم کرتا ہے، اور ان کے حوصلے بڑھاتا ہے، وہیں ہم نے سلیکشن کے مرحلے سے لے کر مقابلے کے میدان تک اپنے کھلاڑیوں کو بے عزت کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اور معذرت کے ساتھ میڈیا اس کا سب سے اہم جزو ہے جو صحیح یا غلط سے قطع نظر ریٹنگ کی دوڑ میں ہر طرح کے برساتی تجزیہ کاروں کو اپنے چینلوں پر بٹھا کر غلط سلط تبصرے کرنے دیتا ہے۔

دورہ بنگلہ دیش کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو چکا ہے جس میں نوجوانوں کی شمولیت خوش آئند اور قابل ستائش ہے لیکن قیادت کے معاملے پر ہمیں اظہر علی پر تنقید کرنے کے بجائے انہیں کچھ وقت دینا ہوگا تاکہ وہ خود کو منوا سکیں۔

ایک آدھ سیریز کے بعد قیادت میں تبدیلی کی بچکانہ روایت کو اب ہمیں ترک کرنا ہوگا ورنہ اگر یہ روایت برقرار رہی تو نہ صرف ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کی ریت برقرار رہے گی، بلکہ ساتھ ساتھ ہر ورلڈ کپ یا بڑے ایونٹ کے بعد ہمارے سلیکٹرز کے منہ پر یہی روایتی جملہ ہو گا 'فلاں کھلاڑی کو کپتان یا اس کھلاڑی کی سلیکشن آئندہ چار سال کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کی گئی ہے۔'

Read Comments