پاکستان

توہین کے قانون پر سپریم کورٹ کے اہم سوالات

عدالت نے کہا اگر کسی کی نظر میں کوئی توہین کا مرتکب ہوا ہے، تو کیا اسے قتل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 9 مارچ کے فیصلے کے خلاف دو ایک جیسی اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ اس فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز قادری کی اس درخواست کو منظور کرلیا تھا، جس میں ان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعات کو مقدمے سے خارج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے پانچ ایسے ٹھوس سوالات بھی پیش کیے، جن کا مقصد تھا کہ ملک میں توہین کے قوانین پر جس طرح عملدرآمد کیا جاتا ہے، اس طریقے کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے دو اپیلوں کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا۔ ایک ممتاز قادری کی طرف سے ایڈوکیٹ میاں نذیر اختر نے پیش کی تھی۔ جبکہ دوسری اپیل وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔دونوں اپیلوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 جون 2011ء کو پنجاب پولیس کے اہلکار ممتاز قادری نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کردیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے تحت دی گئی سزائے موت کے خلاف ممتاز قادری کی اپیل مسترد کردی تھی، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کے اخراج کی درخواست منظور کرلی تھی۔جس کے تحت دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔

وفاقی حکومت نے ممتاز قادری کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کے الزامات دوبارہ شامل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جبکہ ممتاز قادری نے اس سزا میں کمی کے لیے اپیل کی تھی۔

اس مقدمے کی سماعت کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

ایک موقع پر ممتاز قادری کے وکیل نے پُرجوش انداز میں یہ دلیل دی تھی کہ سلمان تاثیر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295-سی کے تحت توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ممتاز قادری نے انہیں قتل کیا تھا۔

مذکورہ وکیل کا اصرار تھا کہ اس پس منظر نے سلمان تاثیر کے قتل کا جواز پیدا کردیا تھا۔

تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے کی سماعت کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے پانچ سوالات غوروخوص کے لیے عدالت کے سامنے پیش کیے۔

پہلا سوال یہ تھا کہ ’’کیا مقتول کی بات چیت سے توہین رسالت کا اظہار ہوا تھا، اور کیا اس سلسلے میں معقول ریکارڈ دستیاب ہے یا نہیں، جس سے اس طرح کی توہین کے ارتکاب کا تعین کیا جاسکے؟‘‘

عدالت نے یاد دلایا کہ وکیل نذیر اختر نے دو اخبارات کے تراشے پیش کیے تھے، جن میں سے ایک ماہانہ نیوز لائن کے 23 دسمبر 2010ء کے شمارے سے لیا گیا تھا۔ اس تراشے سے بادی النظر میں نشاندہی ہوئی تھی کہ اس کیس میں توہین کا قانون غلط طور پر لاگو کیا گیا تھا، اور مقتول سلمان تاثیر کے کسی بھی لفظ سے حضور نبی کریم ﷺ کے نام کی بے حرمتی نہیں ہوئی تھی۔

دوسرا سوال عدالت کا یہ تھا کہ ’’کیا قادری اپنی ذاتی حیثیت میں قانون سے رجوع کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے کا حق رکھتے ہیں، اگر انہیں یہ تاثر ملا تھا کہ مقتول سلمان تاثیر نے توہین کا ارتکاب کیا تھا تو انہیں قانون سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔‘‘

عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی شخص چاہے اس مقدمے سے ہی متعلق کیوں نہ ہو اس کو اس کی زندگی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

تیسرا سوال تھا ’’اگر درخواست گزار کو توہین رسالت کا تاثر ملا تھا اور اس کےمذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے تب بھی کیا وہ مقتول کو ہلاک کرنے کا اختیار رکھتا تھا، جبکہ اس وقت وہ سرکاری وردی میں سرکاری محافظ کی ذمہ داری پر مامور تھا، اور اس نے سرکاری طور پر فراہم کیے گئے اسلحے اور سرکاری گولیوں سے یہ قتل کیا۔‘‘

عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں یہ غور کرنا اہم ہوگا کہ کیا دن دہاڑے مقتول سلمان تاثیر کو ان کی زندگی سے محروم کیا جاسکتاہے، جبکہ وہ ممتاز قادری کی حفاظت میں ہوں۔

اس موقع پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا اس طرح قتل کرنے سے مذہبی احکامات اور روایات کی توہین نہیں ہوگی۔

چوتھا سوال یہ تھا کہ ’’کیا ٹرائل کورٹ کے سامنے ممتاز قادری کا یہ اعتراف کہ انہوں نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا، 304 اور 302(اے) کی دفعات لاگو نہیں ہوں گی، جس کی سزا صرف موت ہے اور کوئی متبادل سزا نہیں ہے؟‘‘

آخری سوال یہ تھا کہ ’’اگر عدالت درخواست گزار کی سزا کے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرتی، تو کیا کسی قسم کی تخفیفی صورتحال دستیاب ہے، جس کے ذریعے سزا میں کمی کا جواز نکالا جاسکے؟‘‘

عدالت نے کہا کہ ’’اگر کسی کے نکتہ نظر کے تحت کوئی توہین کا مرتکب ہوا ہے، تو کیا اس کو قتل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے۔‘‘

اس کے بعد عدالت نے سوال کیا کہ ریاست کو ان مجرموں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے، جو مذہب کے نام پر لوگوں کو ذبح کردیتے ہیں۔

عدالت نے فاضل وکیل کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’45 افراد کو بدھ کے روز کراچی میں قتل کیا گیا اور قاتل جائے واردات پر ایک پمفلٹ چھوڑگئے، جس میں وہی کہا گیا تھا، جو درحقیقت آپ کہہ رہے ہیں۔‘‘

پھر عدالت نے سوال کیا کہ ’’کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟‘‘