Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 مئ 2015 11:42am

طاہر القادری کا آئندہ ماہ واپسی کا اعلان

لاہور: پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ماہ وطن واپس آکر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف کے حصول کے لیے اپنی پارٹی کی جدوجہد میں حصہ لیں گے۔

بدھ کو ویڈیو لنک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ "مجھے پختہ یقین ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے براہ راست ذمہ دار ہیں"۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا مزید کہنا تھا کہ ہم انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر آگئے ہیں اور 40 شہروں میں احتجاج جاری ہے۔

مزید پڑھیں:عوامی تحریک کا پھر احتجاج کا اعلان

عوامی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا "ہم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں جس میں ذمہ داران کو کلین چٹ دے دی گئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل میں ملوث عہدیداران کو اعلیٰ عہدے دے دی گئیں۔ ڈاکٹر توقیر کوورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں تعینات کردیا گیا اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سلمان کو ملک سے فرار ہونے دیا گیا۔

ویڈیو لنک خطاب کے دوران طاہر القادری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے پنجاب پولیس میں "دہشت گرد اور بھتہ خور" بھرتی کر رکھے ہیں۔

طاہر القادری کا مزید کہنا تھا کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو سزا دے دی جاتی تو سانحہ ڈسکہ کبھی پیش نہ آتا۔

عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ وہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ "شریف امپائر" پاکستان میں خود ساختہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے لیے راستہ ہموار کررہی ہے۔ 'اس سے پہلے شریف امپائر نے طالبان کو مضبوط ہونے کی اجازت دی اور اب اس نے داعش کی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہ آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے'۔

طاہر القادری نے اگلے ماہ وطن واپس آنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان آمد سے قبل وہ لندن جائیں گے جہاں دہشت گردی کے خلاف ان کی 25 کتابوں کی رونمائی ہوگی، جن میں سے 10 اردو جبکہ باقی انگریزی اور عربی میں ہیں۔

طاہر القادی کے مطابق وہ ملک میں امن لانے کے حوالے سے اپنا تیار کیا گیا سلیبس بھی متعارف کرائیں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن— کب کیا ہوا

17جون 2014 کو لاہور کا پوش علاقہ ماڈل ٹاؤن اُس وقت میدان جنگ بن گیا جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر اور تحریک منہاج القرآن سیکریٹریٹ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران عوامی تحریک کے کارکنان کا پولیس سے تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت 17 افراد ہلاک اور 90سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک نے اپنے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں اسلام آباد میں دو ماہ سے زائد دھرنا بھی دیا تھا۔

پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری کے مطالبے پر سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے گزشتہ برس 13 نومبر کو پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی،جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل تھے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اُس وقت کے ایس پی سیکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔

سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور سابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کلین چٹ دیئے جانے پر پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے 21 مئی کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں 22 مئی کو پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج بھی کیا گیا۔

Read Comments