لنڈے کے کپڑوں کی درآمدات میں اضافہ
کراچی: گزشتہ مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح میں کمی کے باوجود لنڈے کے (پرانے) کپڑوں کی درآمد میں اضافہ جاری رہا۔
یہ حقیقت جمعرات کو جاری کیے گئے سرکاری اعدادوشمار سے سامنے آئی۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ گھریلو بجٹ پر دباؤ نے لوگوں کو سستے استعمال شدہ کپڑوں کی خریداری پر مجبور کردیا ہے۔
درآمد کنندگان نے لنڈے کے (استعمال شدہ) کپڑوں کی درآمد میں اضافے کی مختلف وجوہات بیان کیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ نئے کپڑے قیمتوں کی وسیع رینج میں دستیاب ہیں، بہت سے صارفین اب بھی نئے کپڑوں کی خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے۔
جولائی 2014ء سے اپریل 2015ء کے دوران ’استعمال شدہ‘ کپڑوں کی درآمد تین لاکھ 90 ہزار نو سو انتالیس ٹن (دس کروڑ 16 لاکھ ڈالرز مالیت) رہی، جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران ان کی درآمد تین لاکھ 69 ہزار نو سو ستاون ٹن (14 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز) تھی۔
پاکستان کے بیورو برائے شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد 2013-14ء کے دوران 4 لاکھ 57 ہزار چھ سو ٹن (12 کروڑ 86 لاکھ ڈالرز) جبکہ 2012-13ء میں 3 لاکھ 75 ہزار چار سو پچاسی ٹن (14 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز) تھی۔
جولائی تا مئی 2014-15ء کے دوران غذائی اشیاء کا افراط زر 3.5 فیصد جبکہ غیر غذائی اشیاء کا افرط زر 5.5 فیصد رہا۔
یاد رہے کہ 2011-12ء میں غذائی اور غیر غذائی اشیاء دونوں کا افراط زر 11 فیصد تھا، جبکہ 2012-13 میں غذائی اشیاء کا افراط زر 7.1 فیصد اور غیرغذائی اشیاء کا افراط زر 7.5 فیصد تھا۔ 2013-14ء کے دوران غذائی اشیاء کا افراط زر 9 فیصد جبکہ غیرغذائی اشیاء کا افراط زر 8.3 فیصد تھا۔
پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی ایس ایچ سی ایم اے) کے جنرل سیکریٹری محمد عثمان فاروقی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے روزمرّہ اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال شدہ کپڑوں کے مستقل گاہک بن گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’حکومت عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے، لیکن اس نے استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد پر کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی ہے۔ پچھلے سال کے بجٹ میں حکومت نے درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس کو دو فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد تک کردیا تھا، جبکہ چھ فیصد سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے اسے 9 فیصد تک کردیا تھا۔‘‘
انہوں نے یاد دلایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کو بڑھا کر 2 فیصد کردیا تھا۔ مشرف کی حکومت کےد وران درآمدات سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ تھی، جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد تھا۔
محمد عثمان فاروقی کا کہنا تھا کہ ماضی میں کسی حکومت نے بھی استعمال شدہ کپڑوں پر ڈیوٹی کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ نہیں کی، اس لیے کہ یہ عام آدمی کی ضرورت ہیں۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیوروکریسی نے درآمدات میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد کردی ہے، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ یہ بھاری درآمدات استعمال شدہ کپڑوں کی ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سیلز ٹیکس میں کمی کے ساتھ ساتھ ودہولڈنگ ٹیکس کو 2 فیصد تک لایا جائے۔