پاکستان

نائن زیرو پر چھاپے کے 3 ماہ بعد

1992 کے بعد ہمیں بدترین سرکاری ایکشن کا سامنا ہوا اور ہم اب 1 اور آپریشن کے لیے تیار ہیں جو کہ زیادہ طویل نہیں ہوگا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈ کوارٹرز نائن زیرو پر رینجرز کے علی الصبح چھاپے کے تین ماہ بعد بھی پارٹی کا سیاسی مستقبل بااختیار حلقوں کے ساتھ زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔

گیارہ مارچ کو رینجرز کی بھاری نفری نے عزیز آباد کے علاقے کو گھیرے میں لے کر ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور ان کی بہن، ایم کیو ایم کے خورشید بیگم سیکرٹریٹ اور متعدد دیگر گھروں پر چھاپے مارے گئے اورکچھ مطلوبہ مشتبہ افراد سمیت درجنوں کو حراست میںلیا گیا تھا جبکہ بڑی مقدار میں اسلحہ، ایمونیشن اور دھماکہ خیز مواد قبضے میں لینے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔

عام تصور کے برخلاف کہ 23 اپریل کو این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن اگر روکا نہ گیا تو بھی اس کی شدت میں کمی آئے گی، ایم کیو ایم کے لگ بھگ تمام مقامی دفاتر کئی ماہ سے بند پڑے ہیں، اس کے ورکرز کو قانون نافذ کرنے والے ادارے روزانہ کی بناید پر اٹھا رہے ہیں اور یہاں تک کہ اس کے منتخب نمائندگان ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز کو ائیرپورٹس پر روکا جاتا ہے نہ صرف ڈیپارچر لاﺅنج میں بلکہ ائیرپورٹ کے داخلے پر بھی نچلے عہدوں کے افسران کی جانب سے انہیں روکا جاتا ہے چاہے وہ بیرون ملک جارہے ہو یا ملک کے اندر سفر کررہے ہو۔

کچھ رہنماﺅں کو تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ شہر چھوڑ کر نہیں جاسکتے کیونکہ وہ زیرتفتیش ہیں جبکہ دیگر پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سپریم لیڈر سے تعلق ختم کرلیں " وہ نہیں جانتے کہ وہ لیڈر ان کے ساتھ کیا کررہا ہے"۔

مزید برآں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر براہ راست نشر کرنے کر غیراعلانیہ پابندی عائد ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے منہ موڑ لینے کی حقیقی وجوہات سے ناواقف ایم کیو ایم کی قیادت قصداً ان معاملات کو عوام کے سامنے نہیں لاتی اور صرف ' ظالمانہ گرفتاریوں' کی مذمت پر مبنی بیانات ہی جاری کرتی ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ براہ راست تصادم اس کے مفاد میں نہیں۔

ایم کیو ایم اس بات کو سمجھتی ہے کہ بااختیار حلقے الطاف حسین کو نہیں چاہتے، جنھیں برطانوی شہریت حاصل ہے اور وہ لندن میں اپنی رہائشگاہ میں بیٹھ کر پارٹی کی قیادت کررہے ہیں، تاہم وہ اپنے قائد کو ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ اس کے پاس ان کے متبادل کے حوالے سے کوئی واضح پلان نہیں۔

متعدد افراد کا ماننا ہے کہ کراچی کے سابق ناظم سید مصطفیٰ کمال، جو عملی طور پر ایم کیو ایم سے بغیر کسی رسمی اعلان کے کنارہ کش ہوچکے ہیں، یا گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ممکنہ طور پر الطاف حسین کے متبادل ثابت ہوسکتے ہیں، تاہم ایم کیو ایم سربراہ نے گورنر کو اس وقت اپنا ماننے سے انکار کردیا جب گزشتہ ماہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عشرت العباد سے اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونے اور ایم کیو ایم میں ایک ' ورکر' کی حیثیت میں واپسی کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح مصطفیٰ کمال کے خلاف ایک مہم کئی ماہ سے جاری ہے جس کے دوران ورکرز اور پارٹی عہدیداران کو بتایا جارہا ہے کہ ان کے دور نظامت میں جو بھی ترقی کراچی میں ہوئی وہ درحقیقت الطاف حسین کا وژن ہے اور ایم کیو ایم کے اندر ہزاروں امکانی مصطفیٰ کمال موجود ہیں۔

تاہم کراچی میں مسلسل جاری ایکشن اور لندن میں جاری تفتیش نے الطاف حسین، جو منی لانڈرنگ تفتیش کے حوالے سے جولائی تک ضمانت حاصل کیے ہوئے ہیں، کو سنجیدگی سے اپنے مستقبل پر غور کرنے پر مجبور کردیا۔

عوامی طور پر وہ اپنے حامیوں کو کہتے ہیں کہ وہ اب کبھی پارٹی قیادت چھوڑنے کی بات نہیں کریں گے، مگر بند دروازوں کے پیچھے انہوں نے اپنی ایک منتخب کردہ ٹیم تشکیل دی ہے جو لندن اور کراچی میں موجود ایم کیو ایم کے درجن بھر رہنماﺅں پر مشتمل ہے جو کسی ہنگامی صورتحال میں پارٹی کو چلائیں گے۔

ایک وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہنے والی ایم کیو ایم اب سندھ اور وفاق کی حکمران جماعتوں کی کھلی اور پوشیدہ حمایت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔

تاہم اب بھی یہ مانا جاتا ہے کہ یہ کسی ریاستی ادارے کی پالیسی نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو دبا دیا جائے۔

ایم کیو ایم کے ایک سنیئر رہنماءنے نام چھپانے کی شرط پر بتایا " تمام جمہوری طاقتیں حالیہ جمہوری انتظام کو جاری رکھنے کے لیے ایم کیو ایم کی اہمیت کو سمجھتی ہیں ، ہم محبت وطن سیاسی جماعت ہیں جو کہ تمام اداروں کا احترام کرتی ہے مگر کچھ طاقتور افراد ہمارے مخالف ہیں اور ہم پر مجرم، بھتہ خور، دہشت گرد اور ریاست مخالف گروپ کے لیبل چسپاں کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا " این اے 246 کے ضمنی انتخابات کے ساتھ ساتھ کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں ہماری کامیابی نے جمہوری طاقتوں کو مزید مضبوط کیا ہے، مگر ہم جانتے ہیں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے خلاف ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں"۔

ایم کیو ایم کے متعدد رہنماءاس حوالے سے پراعتماد نہیں کہ انہیں صوبے میں جلد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں آزادانہ الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔

ایک اور ایم کیو ایم رہنماءنے بتایا " انہوں نے ہمیں خدمت خلق فاﺅنڈیشن کے لیے زکوة اور فطرہ اکھٹا کرنے کی اجازت نہیں دی اور ہمارے ورکرز کو رسید بکیں رکھنے پر گرفتار کرلیا۔ میں نہیں جانتا کہ ہمیں ستمبر میں بلدیاتی انتخابات میں مناسب انداز سے شرکت کا موقع مل سکے گا یا نہیں"۔

ایم کیو ایم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سخت مراحل آتے رہتے ہیں اور ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سختی سے بیٹھ کر طوفانی لہروں کو گزر جانے دیا جائے۔

ایم کیو ایم کے رہنماءنے کہا " 1992 سے 1996 کے دوران ہمیں بدترین سرکاری ایکشن کا سامنا ہوا اور ہم اس سے بچ کر نکلے، ہم اب ایک اور آپریشن کے لیے تیار ہیں جو کہ بہت زیادہ طویل نہیں ہوگا"۔