پاکستان

پیپلز پارٹی رہنما کی ’بچی‘ کو گود لینے کی خواہش

تاج حیدر کے مطابق گذشتہ ایک سال سےوہ بچی کوگود لینےکی کوشش کررہے ہیں تاہم سی پی ڈبلیوبی نے بچی کو’مجرم‘ کے حوالے کردیا۔

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ بچے مستقل کا معمار ہیں جبکہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو (سی پی ڈبیلو بی) انھیں مجرموں کو گود دے رہی ہے۔

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاج حیدر کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے ایک سال سے ایک بچی کو گود لینے کی کوشش کررہے ہیں تاہم سی پی ڈبلیو بی راولپنڈی نے اس بچی کو غبن کے مقدمے میں ملوث ایک خاتون کے حوالے کردیا ہے۔

سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے دو سال قبل ایک اشتہار دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ساڑھے 3 سال کی ایک بچی اٹک شہر سے ملی ہے اور اس کو سی پی ڈبلیو بی راولپنڈی منتقل کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ "میں نے اُس بچی کو گھر لانا شروع کردیا اور وہ ہمارے ماحول کی عادی بھی ہوگئی تاہم جس وقت انھوں نے اس بچی کے اختیار مانگنے کا سوچا تو اسی وقت ایک خاتون چائلڈ پروٹیکشن افسر نے سی پی ڈبلیو میں اس کا اختیار حاصل کرنے کے لیے درخواست دی اور بچی کو خاتون کے حوالے کردیا گیا"۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ انھوں نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی برانچ سے رابطہ کیا اور عدالت کو بتایا کہ ایک ایسی خاتون جس پر 3 بار غبن کے الزامات لگ چکے ہوں بچی کو ان کے حوالے کیسے کیا جاسکتا ہے تاہم مذکورہ عدالت نے بھی بچی کو خاتون اور اس کے شوہر امان اللہ شاہ کہ حوالے کردیا جو خود بھی سی پی ڈبلیو بی کا ملازم ہے۔

پی پی پی رہنما نے ڈان سے بات کرت ہوئے کہا ہے کہ "وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے"۔

تاج حیدر کے وکیل ایڈووکیٹ ساجد تنولی کا کہنا ہے کہ خاتون نے عدالت سے بہت سی باتیں چھپائی ہیں تاہم عدالت نے بچی کو ان کے حوالے کردیا ہے جس پر وہ اپیل دائر کریں گے۔

خاتون کے شوہر امان اللہ شاہ نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن عدالت نے عارضی طور پر بچی کو خاتون کے حوالے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر تاج حیدر نے دو بار عدالت سے رابطہ کیا ہے تاہم دونوں بار ان کی درخواست مسترد ہوئی ہے۔

امان اللہ شاہ کا کہنا تھا کہ سی پی ڈبلیو بی میں 50 بچے موجود ہیں جن میں سے اکثر گھر سے بھاگے ہوئے اور اسٹریٹ چلڈرنز ہیں، جن کے خاندانوں کو تلاش کرنا ناممکن نہیں ہے، اس لیے ان کو کسی اور شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

انھوں نے کہا کہ ایک سے 3 سال کی عمر کے بہت ہی کم بچے سی پی ڈبلیو بی لائے جاتے ہیں اور ہر کوئی ان کو گود لینا چاہتا ہے۔